خواب سے نیند کے ماتے جو جگا ئے تو نے
پر دے کتنے ہی نگا ہوں سے اٹھا ئے تو نے
زیست بے مقصد و ے مایہ ہوئی جاتی تھی
اس کے سر پر بھی کئی تاج سجائے تو نے
غمِ دنیا کے اند ھیرے کو اجالے بخشے
راستے منزلِ عُقبیٰ کے دکھائے تو نے
آتشِ کفر کے شعلو ں کی لپک تھی ہر سُو
لیکن اس آگ میں بھی پھول کھلا ئے تو نے
تجھ کو اپنو ں نے ، پرا یوں نے بہت رنج دئے
کر دیئے ایک مگر اپنے پرائے تو نے
بو ریا تیرے ہی صدقے میں ہُوا ہمسرِ عرش
تاج اور تخت نگا ہوں سے گرا ئے تو نے
تیری کملی ہے کہ دامان محبت ہے کوئی
مُجھ سے خاطی اِ سی دامن میں چھپائے تو نے