یہ آرزو ہے نعت پیمبر کا فن ملے!
میں بے نوا ہوں مجھ کو بھی تابِ سخن ملے
طیبہ کی سر زمین تری توقیر کی قسم
اپنی دعا ہے کوچۂ شاہِ زمن ملے
اپنی نظروں میں ہے سجی ہوئی صورت حضور کی
اب کیا کہیں کہ عظمت صبح کہن ملے!
اک پھول آمنہ کے گلستان میں کھلا
خوشبو اسی کی سب کو چمن در چمن ملے
اس کو جھلس سے گی زمانے کی دھوپ کیا
دامن حضور کا جسے سایہ فگن ملے
میں تو زمانؔ اُن کے ہی در کا فقیر ہوں
میری ہے یہ صدا کہ درِ پنجتن ملے!!!
```