تو رُوح ازل نورِ ابد جان دو عالم
محبوبِ خدا یوسفِ جاناں دو عالم
تو حامد و محمود ہے تو شاہد و مشہود
قائم تیرے جلوے پہ ہے ایوان دو عالم
یہ نام تیرا صَلِّ علیٰ آب بقا ہے
کیا شے ہے دو عالم و سروسامانِ دو عالم
اک نور تیار صبح ازل دیکھ لیا تھا
اب تک ہے مگر چاک گریبانِ دو عالم
توفیق خدا دے تو تیری ایک نظر پر
قربان کروں دولت امکان دو عالم
میں خلقِ کفِ پائے سگِ کوئے مدینہ
تو رحمتِ یزداں ہے تو سلطان دو عالم
اللہ کے جلوئوں کا ہے آئینہ تیری ذات
آئینہ تیرا دیدۂ حیرانِ دو عالم
کعبہ ہے وہی طالب و مطلوب جہاں ہوں
طیبہ ہے وہی تو ہے جہاں جان دو عالم
اے شاہِ امم اپنی گدائی کا شرف دے
ہے تیرا گدا غیرتِ شاہانِ دو عالم
دیکھے ہیں ظفرؔ گنبد خضریٰ کے وہ انوار
نظروں میں ٹھہرتی ہی نہیں شانِ دو عالم
```