اے کہ تیرا جمال ہے زینت محفلِ حیات
دونوں جہاں کی رونقیں ہیں تیرے حسن کی زکات
تیری جبیں سے آشکار، پرتوِ ذات کا فروغ
اور ترے کوچے کا غبار سرمۂ چشمِ کائنات
دیکھتے ہی تیرا جلالؔ، کفر کی صفت الٹ گئی
جھک گئی گردنِ ہبل، ٹوٹ گیا طلسمِ لات
آنکھ کے اِک اشارے سے تونے معاً بدل دئیے
ذہن کے سب تصورات، قلب کے سب تاثرات
پست و بلند کے لیے عام ہیں تیری رحمتیں!
عرش سے اور فرش سے تجھ پر سلام اور صلوٰت
اے کے رُواں رُواں ترا درد میں ہے بسا ہوا
کس کو تیرے سوا سنائیں جاکے ہم اپنی مشکلات
سر پہ اندھیری رات ہے، گھر گئی ہے بھنور میں
موجِ بلا ہے تاک میں دور ہے ساحلِ نجات