جب سامنے نظروں کے دربار حبیب آیا
اک نعرہ مستانہ ہونٹوں کے قریب آیا
رہگیر مدینہ پر یہ وقت عجیب آیا!
بیتاب ہوا اتنا جتنا وہ قریب آیا
اے رحمت عالم ہو رحمت کی نظر اس پر
اک تفتہ جگر آیا اک خفتہ نصیب آیا
یہ آپ نہ پوچھیں کچھ کس حال میں آیا ہے
آوارہ و ناکارہ، ناشادو غریب آیا
آنکھوں میں بھی آنسو ہیں ہونٹوں میں بھی لرزش ہے
اسرارِ محبت کا خاموش نصیب آیا
ہر راہ میں پا افگن ہر گام پہ نعرہ رِّن
نے خوف عدو آیا نے خوفِ رقیب آیا
ہر سمت مدینہ تھا جس سمت صباؔ دیکھا
اک چہرۂ نورانی جب دل کے قریب آیا