اک غلام نبی کی فضلِ خدا ہوگئی عرض منظور سرکار میں
بخت چمکا مراد دِلی مل گئی ہم چلے اپنے آقا کے دربار میں
اللہ اللہ یہ اُن کا جودو کرم، اللہ اللہ یہ اُن کا لطف و کرم
اُن کی اک چشم رحمت سے سب مٹ گئی جتنی سوزش تھی قلب گنہگار میں
غم کے بادل چھٹے اذن طیبہ ملا رنج دوری مٹا ضعفِ فرقت ملا
دل کی کلیاں کھلیں روح شاداں ہوئی اک سکوں آگیا قلب بیمار میں
بیکسی میں دو عالم کے مشکل کشا بن گئے میری کشتی کے خود ناخدا
اس کریمی کے قرباں صلِّ علٰی کیا وسیلہ ملا مجھکو منجدھا میں
چشم فرطِ مسرت سے پُر آب ہے روح رُعب جلالت سے بیتاب ہے
ایک عاصی و مجرم کی ہے حاضری تاجدارِ دو عالم کے دربار میں
لطفِ فخر رسولاں ہو کیسے بیاںں شانِ سلطانِ طیبہ ہو کیسے بیاں
جس قدر خوبیوں سب رسولوں میں تھیں سب کی سب ہیں رسولوں کے سردار میں
اے سکندرؔ بہ لطفِ حبیب خدا بنکے ہم بلبل باغ مدح و ثنا
رب نے چاہا تو پھر چند ہی روز میں جا کے چہکیں گے طیبہ کے گلزار میں