اے شاہِ امم اے رحمتِ کل جب تیری نظر ہوجاتی ہے
سب دنیا کے اندھیاروں میں اک پل میں سحر ہوجاتی ہے
ہم دید کے پیاسے رو رو کے فریادیں کرتے رہتے حیں
جب ہم پر فیض تو کرتا ہے ہر آہ اثر ہوجاتی ہے
ہم عامی ہیں ہم خاطی ہیں، ہم تیرے چاہنے والے ہیں
ہر حال میں اپنی حالت کی پر تجھ کو خبر ہوجاتی ہے
تو جانتا ہے ہم تیرے ہیں اور تیری چاہتے رکھتے ہیں
جس حال میں رکھے تو ہم کو اس حال بسر ہوجاتی ہے
ایک تیری ضیاء سے پاتے ہیں یہ شمس و قمر سب نور اپنا
تو نور کا منبع ہے جس سے شب رشکِ قمر ہو جاتی ہے
جو تیری چاہت رکھتے ہیں اُن لوگوں کا اس دنیا میں
ہر صبح و شام تعریف میں ہی یہ زیست بسر ہوجاتی ہے
جب فیض تیرا اے رحمتِ کل جب تیری نظر ہوجاتی ہے
پھر میرے شہر کی گلیوں کی مٹی بھی گوہر ہوجاتی ہے