رحمتِ دوجہاں ، آفتاب رماں
تجھ ساکوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں
ہجر میں تیرے روئے ہیں شجرو حجر
ہے ملی تیرے دم سے ہی اُن کو زباں
تیرے دم سے ہی رونقیں سب یہاں
اپنی اُمت کا ہے بس توہی پاسباں
ہے مرے پاس بس مفلسی عاجزی
مجھ کوسب کچھ ملے جو ہوتو مہرباں
میرے لب پر بسے نام تیرا سدا
ذکر میں تیرے گزرے یہ عمرِ رواں
اب ترے عشق میں کیا عجب حال ہے
چھوڑ دوںگا ترے واسطے یہ جہاں
لوگ محرم سے تیرے کریں نفرتیں
کیا سنائوں میں کیا ہے عجب داستاں