بے کلی مٹ گئی مل گیا اک سکوں میرے لب پر جو ذکر حبیب آگیا
اک نگاہِ کرم سے شفا ہوگئی میری بالیں پہ میرا طبیب آگیا
جذبۂ عشق ہر لحظہ بڑھتا گیا اشکِ الفت برسنے لگے چشم سے
دھڑکنیں دل کی زوروں پہ ہوتی گئیں روضۂ پاک جوں جوں قریب آتا گیا
سنگِ در اُن کی آنکھوں سے اپنی لگا سر عقیدت کا اُن کے قدم پر جھکا
پائے اقدس ہے ان کا ترے سامنے کیسا موقع عجیب و غریب آگیا
قلب میں جب سے وہ جگمگانے لگے عرشق تک اس کے انوار جانے لگے
چرخ و مہرو مہ رشک کھانے لگے کس بلندی پر میرا نصیب آگیا
علم و حکمت کے ایوان سر ہوگئے خم فصاحت وبلاغت کے سر ہوگئے
عقلِ جبریل جس پر فدا ہوگئی وہ ادیب آگیا وہ خطیب آگیا
اس کا ہر دور میں خوب چرچا ہوا، اس کا ہر قرن میں بول بالا ہوا
لے کے آدم سے تا ابن مریم سبھی ہر نبی اس کا بن کر نقیب آگیا
نعت پڑھنے جو آیا ریاضؔ خریں وجد کرتا ہوا بزم میلاد میں
غُل ہوا بوستان رسالتِ کا چہچہاتا ہوا عندلیب آگیا