وہ جس کی ہمہ آگاہی میں حر راز نہاں ہستی ہے
وہ جس کے اشاروں پر رقصاں عالم کی بلندی پستی ہے
وہ جس کی بشاشت رہتی ہے ہر روح فضا ہریالی میں
وہ جس کی ثنائیں ہوتی ہیں گلزار میں ڈالی ڈالی ہیں
وہ جس کے نفس کی گرمی سے ہر غنچۂ رنگیں کھلتا ہے
وہ جس کی تجلی خانہ سے خورشید کو جلوہ ملتا ہے
وہ جس کے وظیفہ پڑھتے ہیں کہسار کے بیخود نظارے
وہ جس کے لیے سرگرداں ہیں میثاق کے دن سے سیارے
وہ جس کی رحمت کے نغمے گاتی ہیں صبا برساتوں میں
وہ جس کی لطافت ہوتی ہے سردی کی سہانی راتوں میں
وہ جس کی ضیاء سے ملتی ہے امید کی رخشاں بستی کو
وہ جس نے ترانے بخشے ہیں ہر پردۂ ساز ہستی کو
وہ جس کو سارے عالم میں محبوب شبیہ انسان ہے
وہ جس نے پیدا کیا تجھ کو نادان! وہی تو ’’یزداں‘‘ ہے