صدشکر کہ پھر لب پہ محمد کی ثنا ہے
پھر وردِ زباں صلِ علیٰ ، صلِ علیٰ ہے
بے مہری ایّام سے مفلس ہیں تو کیا ہے
ہم جس کے بھکاری ہیں وہ دربار بڑاہے
جس ذرّہ ناچیز کو اُس درسے ہونسبت
نکہت میں وہ گل ہے تو لطافت میں صبا ہے
ہر صبح ترے ذِکر کی خوشبو سے معطّر
ہر شام نے اِس دل پہ ترا نام لکھاہے
اے بادِ صبا! پھر کوئی پیغامِ محبت
پھر چشم تصور نے اُنہیں یاد کیا ہے
آمد ہو کہ آورد اُسی در کی عنایت
مِدحت کا سلیقہ بھی اُسی دَرکی عطا ہے
مِدحت کے یہ اشعار ہوئے جس کی فضامیں
اِک عام ساکمرہ ہے مگر خلد نما ہے