رہِ حیات کا دشوار ہو رہا ہے سفر
عرب کے راج دلارے ادھر بھی ایک نظر
کشاں کشاں ل یے چاتا ہے مجھ کو جذبۂ عشق
نہ ابتداء پہ نظر ہے نہ انتہاء کی خبر!
چمک اٹھے میری قسمت جو مجھ کو مل جائے
دیارِ خلد کے بدلے عرب کی راہ گذر
نہ جانے جھوم کے گزرے گی کب وہ بادِ مراد
نجانے بیٹھا ہوں کب سے غبارِ رہ بن کر
یہ دن بھی دیکھ رہے ہیں ہم اپنی غفلت سے
کہ ہنس رہا ہے زمانہ ہماری حالت پر
چمن کے رُخ پر عیاں ہے ترا ہی رنگِ جبیں
زبانِ خلق میں کہتے ہیں جس کو نورِسحر
شعاغِ نور وہ پھوٹی ح را کے سینے سے
ازل سے پھرتے تھے جس کی لگن میں شمس و قمرؔ