مل گئی رحمت مجھے اور کتنی سستی مل گئی
نعت وہ لکھی کہ اُن کی سرپرستی مل گئی
ایک ہی ساغر سے سارے ہوگئے سرشار ومست
اُن کے صدقے میںہمیں عرفاں کی مستی مل گئی
اِس کو کہتے ہیں نوازش ہائے پہیم کا طفیل
اک غلامِ بے نوا کو بلا دستی مل گئی
دل میں میرے روزِ محشر کا خیال آئے توکیوں
شافعِ روزِ جزا جب مجھ کو ہستی مل گئی
پتھروں کو پوجتے رہتے ہمیشہ ہم، مگر
صدقہ شاہِ مدینہ حق پرستی مل گئی
کارِ عصیاں لے چلے تھے ہم کو دوذخ کی طرف
وہ تو کہیے ، راہ میں رحمت برستی مل گئی
ہوگئے منکر یہاں جو جسم کی معراج کے
بالعوض اِس کے، انہیں عقبیٰ کی پستی مل گئی
اُن کی قسمت کا بیاں مسرور ممکن ہی نہیں!
جن کو رہنے کے لئے طیبہَ سی بستی مل گئی