حرم کی دید سے تاریک سینوں نے جِلاپائی
یہی اک شمعِ ایمانی ہے زیرِ چرخِ منیائی
قرارِ دیدہ و دل ہے ، متاعِ اہل ایماں ہے
سکون و امن کا آئینہ ہے جلووں کی زیبائی
مِرا اشک ندامت بن گیا تفسیر جاں ورنہ
حضور سّیِد کونین کس کو تابِ گویائی
نہ کوئی اس کا ثانی ہے، نہ کوئی ہے مثیل اُس کا
اسی کی ذات اقدس پر ہے نازاں شانِ یکتائی
خیالوں میں مدینے کا ہر اک ذرہ فروزاں ہے
نگاہوں میںحرم کی یاد سے ہے محفل آرائی
بس ہے وادی طیبہَ کی خوشبو میرے سانسوں میں
رہے گی تاابدجس معطر شام تنہائی
مری آنکھوں نے بھی دیکھا ہے وہ فردوس کا متظر
مری بھی ہوگئی دربار اقدس میںپذیرائی
تصور میں حرم کی سرز میں ہے جس پہ قرباں ہے
مہک کلیوں کی ، گلشن کی ضیا ، پھولوں کی زیبائی
کہاں حافظ ، کہاں نعت جناب رحمت عالم
ہے ممنونِ عنایت میرے فکر و فن کی پہنائی