دُنیا میں نہیںجو بھی طلبِ گارِ محمد
بند اس پہ ہیں عُقبیٰ میں اَسرارِ محمد
اللہ رے شیرینی گفتارِ محمد
فردوسِ نظر گیسوئے خمدارِ محمد
کا فورہوئے تجھ سے ضلالت کے اندھیرے
اے صبحِ جہاں تابئی افکارِ محمد
ہاتھوں کی سعادت ہے کہ لکھے رہیں اوصاف
اشرف ہے زباں کے لئے تذکارِ محمد
ہو عشقِ محمد تو بہ ہر عالمِ وامکاں
مومن کے لئے عام ہے دیدارِ محمد
اے شاقی کوثر مِری تسکین تُمی ہو
یہ بندہ عاصی تو ہے مے خوارِ محمد
طیبہَ تو شہید آپ کیاآیا کا وطن ہے
آتا ہے کبھی یاد چمن زارِ محمد