جان ودل وُمّ اَب وفرزند قربانِ شہِ شہانِ عالم
بلکہ مقدور ہوتو دیجے نذرانہ میں ارمغانِ عالم
وہ نور حقیقت آفریں ہے عنوانِ فسانہ ہائے تخلیق
مرہونِ جمالِ مصطفی ہے نگینی داستانِ والم
حیرت سے ہیں یوں تو مہر برلب اور فرطِ خلوص سے مودّب
تو صیفِ رسول کو ہیں لیکن بیتاب سُخن ورانِ والم
یہ عقدہ کھلا ہے آج سب پر، عاصی ہوں کہ عابدِ حق آگاہ
ایمان ہے نجات کی ضمانت ،کفران میں ہے زیان عالم
شاہانِ بلند مرتب ہیں دربارِ نبی میں دست بستہ
دہلیزِ نبی پر سر نہادہ سر مست قلندرانِ عالم
فطرت شب غم کی وسعتوں میںتسکینِ عام ہے
تنویر سے جس کی ہیں ازل سے روشن رُخ وقلب وجانِ عالم