نعت میں کیسے کہوں ، اُن کی رِضا سے پہلے
میرے ماتھے پہ سینہ ہے ثنا سے پہلے
نور کانام تھا عالمِ امکاں میں کہیں
جلوہ صاحبِ لولاکَ لما سے پہلے
اُن کادر، وہ درِ دولت ہے ، جہاں شام وسحر
بھیک ملتی ہے فقیروں کو صدا سے پہلے
اب یہ عالم ہے کہ دامن کاسنبھلنا ہے محال
کچھ بھی دامن میں نہ تھا اُن کی عطا سے پہلے
تم نہیں جانتے شاید، مِرے آقا کامزاج
اُن کے قدموں سے لپٹ جائو سزا سے پہلے
چشمِ رحمت سے ملا اشک ندامت کا جواب
مشکل آسان ہوئی قصدِ دُعا سے پہلے
اور تو کچھ نہیں مانگا مِرے مولا تجھ سے
اِک جھلک روضہ اقدس کی ، قضا سے پہلے
میری آنکھیں مِرا رستہ جو نہ روکیں اقبال
میں مدینے میں ملوں راہ نما سے پہلے