ہے بے رنگی کے آئین ہمیں نقشہ شکلِ انساں کا
تعالیٰ شانہ، یہ روپ ہے کس حُسن پنہاں کا
مورخ اگلے وقتوں کا ہے عشق ، اس سے کوئی پوچھے
کہ حق کے بعد ازل میں نورتھا کس روئے تاباں کا
کہوں ایمان کی ، سو بار اٹھالوں سر پہ قرآں کو
نہ یزداں کا کوئی ثانی، نہ اس محبوبِ یزداں کا
وہ قاتل کُفر وظلمت کا ، وہ ماحی شرک و بدعت کا
وہ حامی اپنی ملّت کا ، وہ تاسخ دیگر ادیاں کا
لقب اُمّی ومثلِ لوحِ محفوظ اس کے سینے میں
بھرا علم اوّلیّن و آخریں ، پیدا وپنہاں کا
فصاحت کلمہ پڑھی تھی لبِ جاں بخشش حضرت کا
زبان شستہ گویا نسخہ تھا اعجازِ قرآں کا
ہر اک موج اس کے دریائے عطا کی چشمئہ کوثر
گلِ خود روگلستانِ کرم میں باغ رضواں کا
شبِ معراج میں حق نے بلایا اُس کو پاس اپنے
کیا سوطرح کا پاس اپنے محبوب، اپنے مہماں کا