ایسا مہکا ہے یاد کا گلشن،
ہرنفس خوشبوئوں کا ہے مسکن
ہر قدم رہ نما ہو ذکر اُن کا،
جب روانہ ہو فکر کا توسن
جس گھڑی آپ کا ظہور ہوا،
آدمی کا تھا آدمی دشمن
حکمرانی تھی نفس کی ہر سو،
روحیں خصتہ تھیں ، جاگتے تھے بدن
گرم تھے لوٹ مار کے بازار،
ایک دُوجے سے لوگ تھے بدظن
بیٹیاں زندہ گاڑ دیتے تھے،
اونچی رکھتے تھے اس طرح گردن
رات تو رات، دن بھی تھے تاریک،
ظلمتیں کھاگئی تھیں سب چانن
کیسی چھب سے وہ نور اُتراتھا ،
ایک عالم کو کر گیا روشن
تہنیت کی فضا تھی ہر جانب،
ہر طرف تھیں ہوائیں نغمہ زن
پتھروں سے اُبل پڑے چشمے،
حھاڑ جھنکاڑ تھے کہ سرو سمن
انہیں کیا کیا نہیں ستایا گیا،
پر جبیں ہر کھبی نہ آئی شکن
آپ کی بات روشنی کی دلیل ،
آپ کی ذات نور کامخزن
آپ لائے ہوا جہاں ہر سو ،
حبس ساحبس تھا گھٹن سی گھٹن
رکھ کے عہدِ جدید کی بنیاد ،
ختم کردیں سبھی رسومِ کہن
نفرتوں کو مٹا دیا یکسر،
پیار سینوں میں کردیا روشن
ایک دُنیا دُکھی تھی قرفوں سے ،
کر دیے دُور سارے رنج ومحن
روشنی روشنی دماغ ہوئے،
آئنہ آئنہ چلی وہ کرن
آپ کے نام کی کریں تسبیح،
بحرو کہسار وباغ و دشت ودمن
آپ کی شان ہوبیاں کیسے ،
کیا ہے اوقات میری کیا مرافن
سیدھا سادہ ہے راستہ اُن کا ،
موڑ جس میں کوئی ہے اُلھجن
ہیں عجب لوگ جاں نثار اُن کے،
چوم لیتے ہیں بڑھ کے دارودسن
وہ کہیں چین سے نہیں ٹکتے،
جن کو حرمین کی لگی ہو لگن
بخت پر تیرے اے نبی کے شہر ،
رشک کرتی ہے وادی ایمن
یونہی کرتا رہا طوافِ حرم،
کاش اُترے کبھی نہ میری تھکن
کاش اُن پر نثار ہوجائے،
میری اولاد ، میرا تن من دھن
آپ کے دم ہی سے نصیب ہوئی،
زندگی میں ہے جس قدر سودھن
کام بس ایک ہے سر محشر ،
تھام لینا ہے آپ کا دامن
آپ کے بعد اب وہ بات کہاں ،
آپ کے ساتھ ہی تھے سب سلون
پھر ترستی ہی رہ گئی دُنیا ،
پھر نہ آئی حیات پر وہ پھین
نعت کے شعر ہوں کہ حمد منیر،
سب ہے اُس در سے خیر کے کارن