اے ماہِ عرب اے ماہِ عجم، تو حس کا سہارا ہوجائے
یہ ساری خُدائی کیا شے ہے اللہ بھی اُس کا ہوجائے
کیا کہئے ترے پھر آنے سے پہلے گلزارِ جہاں کیا جائے
گل فرشِ کف پابن جائیں ، کلیوں کا بچھونا ہوجائے
سوبار مدینے کوجائوں ، کب شوق کی سیری ہوتی ہے
دل نذرِ مدینہ کر آئوں یادل ہی مدینہ ہوجائے
اندیشہ بزم بحید کیا، ناشکری رحمت کیا معنی
انسان اگر بخشش چاہے ، تقصیر سراپا ہوجائے
مذہب اس کا، ایماں اس کا ، خالق اس کاقرآن اس کا
پیوند لگی کملی والا جس کا بھی سہارا ہوجائے
اے محشر ہم اس دُنیا میں جنت کی دُعائیں کیا مانگیں
جب چاہیں مدینہ دیکھ آئیں جنت کا نظارہ ہوجائے