نگاہ روشن ، سروردل میں ، انہی کی چاہت کانور دل میں
ہوں کس قدر خوش نصیب ہمدم کہ بس رہے ہیں حضور دل میں
پیغمبروں کے عظیم رہبر ، وہ رحمتوں کے حسین پیکر
وہ مشعل نور حسنِ یزداں ، اپنی کے پرتو کا طور دل میں
لبوں پہ اُن کا جو نام آیا ، توغنچہ دل بھی مسکرایا
سکوں مِلا جانِ مضطرب کو، بہت مچا تھا فتور دل میں
بلند ترہے وہ ذاتِ اقدس ، مری نمازوں سے بھی مقّدس
مقام اُن کا سمجھ نہ آئے ، نہ جب تلک ہو شعور دل میں
خیال اُن کا بہار ساماں ، جمال اُن کاچمن بداماں
بیاں کروں تو میں کیسے اختر عقیدتوں کا وفور دل میں