اے شاہ مدینہ مجھے توفیق ثنا دے
ہیں لفظ تہی دست ، اِنہیں نعت بنادے
ہو جائیں درودُوں سے دِل وجاں مرے روشن
تاریک ہے دل اسمِ محمد کی ضیاء دے
مہکیں مرے ادراک کے گلشن کی فضائیں
زم زم سے دُھلی وادی طیبہ کی ہوا دے
صحرا کی طرح میں نے گزاری ہے بڑی عُمر
اے شافعِ محشر مجھے گلزار بنادے
ذکر شہِ کونین زباں پہ رہے ہر دَم
تارِ رگِ جاں کومری تسبیح بنادے
پہنچوں میں لئے جسم کا کاسہ ترے دَرپر
مجھ سائلَ ختہ کوبھی چوکھٹ پہ جگہ دے
روزن کی طرح واہیں علی ہجر میںآنکھیں
طیبہ ہوا بھی مجھے قربت کامنرادے