جلوے ہر سمت رُخِ احمد مختار کے ہیں
دونوں عالم میں اُجالے مری سرکاری کے ہیں
روضۂ پاک کے اترے ہوئے پردوں کی قسم
سائے جنت میں بھی آقا تیری دیوار کے ہیں
چن کے لے جاتی ہے فردوس کے باغوںکی بہار
پھول مرجھائے ہوئے جو تیرے گلزار کے ہیں
دس بستہ کھڑے رہتے ہیں ملک در کے قریب
پاسباں جن و ملائک تیرے دربار کے ہیں
جن کو بازارِ قیامت میں خریدے گا خدا
اللہ اللہ وہ سودے تیرے بازار کے ہیں
کیا کریں لیکے بھلا کوثر و تسنیم کے جام
رند پیاسے تو تیرے شربتِ دیدار کے ہیں
چار یاران نبی ہیں چمن دین کے پھول
اور یہی پھول ہیں گلشن میں جو بے خار کے ہیں
قبر میں حشر میں، پل پر، سر میزانِ عمل
ہر جگہ ساتھ حضور اپنے گنہگار کے ہیں
سب تصدق ہے یہ سکاری کی مداحی کا
شہر عالم میں منورؔ تیرے اشعار کے ہیں