ہر بات اک صحیفہ تھی اُمّی رسول کی
الفاظ تھے خُدا کے ، زباں تھی رسول کی
وحدانیت کے پھول کھلے گرم ریت سے
دی سنگِ بے زباں نے گواہی رسول کی
بہودی وفلاح کے جگنو نکل پڑے
تاریکیوں میں جب کھلی مٹی رسول کی
پرچم تھے نقشِ پاکے ستاروں کے ہاتھوں میں
گزری جو کہکشاں سے سواری رسول کی
سیڑھی لگائے عرشِ خُداپر نبی کی یاد
چلتی ہے سانس تھام کے انگلی رسول کی
دیکھیں گے میرے سر کی طرف لوگ حشر میں
چمکے گی تاج بن کے غلامی رسول کی
کھلتے یہں درکچھ اور مظفر شعور کے
کرتا ہوں جب میں بات خُدا کی ، رسول کی