خُسروی میں ہے نہ شاہی میں نہ دارائی میں
جو منرہ ہے تری چوکھٹ کی جبیں سائی میں
اے مرے ذوقِ جنوں اسمِ مقدس اُن کا
کندہ کردے دلِ بیتاب کی گہرائی میں
عزت وعظمت و توقیر و عروج وشہرت
کون سی چیز نہیں عشق کی رُسوائی میں
کوئی محبوب دوعالم نہیں ہے ثانی
گونجتی ہے یہ صدا عرش کی پہچائی میں
ہوش والوں کی میّسر کہاں وہ کیف و سُرور
جو میرے رب نے بھرا لغزشِ سودائی میں
پھر سے اُبھریں گے سرِ دہر قلندر ہوکر
غرق ہوجائیں گے جو جویمِ مولائی میں
ملک الموت کے بھی ہاتھ نہ آئے گا نصیر
کھوگیا جو رُخِ محبوب کی رعنائی میں