اشک بہتے ہوئے رخسار تک آپہنچے ہیں
عرض لے کر تری سرکار تک آپہنچے ہیں
رحم اے رحمتِ کونین دُھائی تیری
دستِ تعزیر گنہگار تک آپہنچے ہیں
اُس نے بخشش کی مدینے میں لگای ہے سبیل
اور پیاسے بھی درِ یار تک آپہنچے ہیں
اَب کڑی دُھوپ کا ڈر ہے نہ کھٹن منزل کا
ہم ترے سایہ دیوار تک آپہنچے ہیں
وہ تری شانِ کریمی ، یہ مرا عجز بیاں
چند جُملے لبِ اظہار تک آپہنچے ہیں
مثردہ اے اشک رواں ، قلب تپاں ،دردِ نہاں
اے خوشا! مطلع انوار تک آپہنچے ہیں