چاہتے ہیں میرے بام و در چاندنی
میرے گھر بھی ہو رشکِ قمر چاندنی
لے کے رخسارِ شہ سے اثر چاندنی
ضو لٹاتی ہے شام و سحر چاندنی
دیکھ کر حسن خیر البشر چاندنی!
ہوگئی اور پاکیزہ تر چاندنی
میری دنیا بھی نورٌ علیٰ نور ہو
اے میرے چاند پھیلا ادھر چاندنی
چومتی ہے مدینے کے دیوار و در
لوٹتی ہے مزے رات بھر چاندنی
ہائے طیبہ کے جلوئوں کا دلکش سماں
ہائے بطحا کی دیوانۂ گر چاندنی
میں طلب ار ہوں ان کے انوار کا
بخش سکتی ہے جن کی نظر چاندنی
میں نے دیکھی ہے ماہِ عرب کی ضیاء
ہوگی راتوں مری قبر پر چاندنی
کہکشاں اُنکے قدموں کی اک دھول ہے
مرے خواجہ کی ہے راہگذر چاندنی
جلوہ ریز و ضیا گیر وضو بار ہے
گنبد پاک پر تاسحر چاندنی
آج آیا مزا نعت کے نور کا
آج دیکھی ہے مظہرؔ کے گھر چاندنی