چہرے کواُن کے چاند کہوں یہ بھی ہے غلط
خورشید نیمروز لکھوں یہ بھی ہے غلط
میں اور پھر خموش رہوں یہ بھی ہے غلط
یکتا تھا بے مثال تھا چہرہ حضور کا
بس اتنا جان لیجئے مبغ تھا نور کا
معصوم تھیں شکیل تھیں آنکھیں حضور کی
انصاف کی دلیل تھیں آنکھیں حضور کی
ہاں رحمتوں کی جھیل تھیں آنکھیں حضور کی
دُنیا کو جو شعور کا رستہ دکھاگئیں
انساں کو جو رحیم کا جلوہ دکھا گئیں
وہ لب مثالِ لعلِ بدخشاں ، نہیں نہیں
یاپھر گلاب صورتِ خنداں ، نہیں نہیں
پاکیزہ اُن لبوں کے یہ عنواں ، نہیں نہیں
کافی ہے بس یہی کہ وہ لب تھے حضور کے
جن سے سُنے جہاں نے صحیفے غفور کے
انجم وہ جسم پاک خُدا کی شمیم تھا
وہ رحمتِ تمام ، عکس رحیم تھا
سرکارِ انبیاء کا سراپا عظیم تھا
بس جان ِ کائنات تھا حق کا ظہوروہ
القصہ مختصر کہ مجسم تھا نور وہ