تشریف لائے آپ تو رنج و محسن گئے
جتنے ادھورے کام تھے ، سارے ہی بن گئے
پُر پیچ گھاٹیوں میں کوئی خم نہیں رہا
باطل کا زور ٹوٹ گیا، دم نہیں رہا
اونچے سروں کو آپ نے نیچا دکھا دیا
سرتابیوں کااُن کو نتیجہ دکھادیا
اُجڑی ہوئی حیات کو تابندگی ملی
دُنیائے بحروبر کو نئی زندگی ملی
سورج سے رنگ ، چاند سے رونق عیاں ہوئی
پہلے سے بڑھ کے اور حسیں کہکشاں ہوئی
تاروں کو زَرنگار بنایا تو آپ نے
ذرّوں کو شاہکار بنایا تو آپ نے
جینے کے ہم کو سارے قرینے سکھادیئے
کیا کیا کہاں کہاں ہیں دفینے ، بتادیئے
ہمسائے کے خیال کی تاکید کی گئی
ایفائے عہد کے لئے تائید کی گئی
پتھر بھی اپنے پیٹ پہ باندھے تھے آپ نے
آگے بڑھائے بوجھ کو کاندھے تھے آپ نے
اِس دور کے لئے بھی دُعائیں حضور ہوں
سر سے ہمارے دُور بلائیں حضور ہوں