حضور آئے تو چمکیں فکرِ انسانی کی تنویریں
حضور آئے تو ٹوٹیں جبر و محکومی کی زنجیریں
جمے ذہنوں کا زنگ اُترا، تجھے چہرے پہ نور آیا
حضور آئے تو انسانوں کو جینے کا شعور آیا
تمدّن آیا ، تہذیب آئی ، امن آیا، قرار آیا
حضور آئے تو عالم پر بہارآئی ، نِکھار آیا
یتیموں اور فقیروں کو پتا ہیں مل گئیں آخر
حضور آئے تو ذرّوں کو نگاہیں مل گئیں آخر
اُخوت اور مساوات و محبت کا نظام آیا
حضور آئے تو یہ توقیرِ ہستی کا مقام آیا