محبت کے یوں جس نے دریا بہائے
دل اُن کا بھی چھینا جو سرلینے آئے
یہ بندہ نوازی کے جوہر دکھائے
کہ خود کھائے جو اور جواہر لٹائے
خوشی اپنی ، غیروں کے غم میں بھلادی
دیا درد جس نے ، اُسے بھی دوا دی
وہ پیغامِ امن واماں دینے والا
ضعیفوں کو تاب تواں دینے والا
وہ صدق وصفا کو زباں دینے والا
زبانِ خُدا سے اذاں دینے والا
بہت عظمتِ زندگانی بڑھادی
رگوں میں لہو کی روانی بڑھادی
محمد ، وہ گم کشتہ قوموں کا ہادی
وہ عالم میں علم و عمل کا منادی
وہ پیغبر عزم و خود اعتمادی
شریعت ہے جس کی بہت سیدھی سادی
نہ دُنیا پرستی ، نہ رہبانیت ہے
معیشت بد اماں یہ روحانیت ہے