اِس شان، اِس ادا سے ثنائے رسول ہو
ہر شعر شاخِ گلُ ہو تو ہر لفظ پھول ہو
سرکار میں یہ نذر محقر قبول ہو
ایسی تعلّیوں سے ہو معراج کا بیاں
سب حاملانِ عرش سنیں آج کابیاں
یہ رُت کچھ اورہے ، یہ ہوا ہی کچھ اور ہے
اب کی بہار ہوش رُبا ہی کچھ اور ہے
روئے عروسِ گُل میںصفا ہی کچھ اور ہے
چھبتی ہوئی دلوں میں ادا ہی کچھ اور ہے
گلشن کھلائے بادِ صبانے نئے نئے
گاتے ہیں عندلیب ترانے نئے نئے
ہر سمت سے بہار نوا خوانیوں میںہے
نیسانِ جودِ رب گہر افشانیوں میں ہے
چشمِ کلیم جلوے کی قربانیوں میں ہے
غُلِ آمِد حضور کا روحانیوں میں ہے
اِک دُھوم ہے ، حبیب کو مہماں بلاتے ہیں
بہرِ بُراق خُلد کو جبریل جاتے ہیں