رُوح کی بے چینی بھی مٹی ہے ، دِل نے سکوں بھی پایا ہے
تیری خاکِ پا کاذرّہ تیرے نگر میں آیا ہے
ریگِ رواں کے رُوپ میں برسوں مارا مارا پھرتا رہا
اُس کے نصیب کہ اب صرصر نے درپہ ترے پہنچایا ہے
جاہ وجلال وحُسن وجمال ومنال و اہل وعیال
تیری چاہ کی راہ میں اُس نے ہر شے کو ٹھکرایا ہے
تجھ سے دُوری اور مہجوری جاں لیوا مجبوری تھی
اذنِ حضوری پاکر اُس نے کیفِ دوعالم پایا ہے
گم گشتوں سے بھری دُنیا میںکب تھا رہا احساس گناہ
تیری ہوائے قُرب نے اُس کا سویا ضمیر جگایا ہے
اب نہ کرے گااُس کو پریشاں حرص وہوا کاکوئی طوفاں
تیرے دامنِ لُطف نے اُس پر ڈالا ایسا سایہ ہے
تیرے رُو برو کہہ سکے کچھ بھی اتنی مجال کہاں اُس کی
دیدہ گریاں میں وہ چھپائے سیلِ عقیدت لایا ہے