اوپر
دیکھتے ہی فزا کی سانس اٹک گئی ۔۔
بیہ۔۔!
:
بیہ:
ہاں کیا ہے ۔۔
فزا: اگے نہیں ؟
بیہ:
کیا آگے نہیں ۔۔؟؟
فزا کی مریل آواز سنکر بیہ پلٹ آئی اور فزا کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو دونوں کا خون ہی خشک ہوگیا ۔۔۔
بیہ چلائی :
بھاگ فزا بھاگ۔۔
اوپر کفہ میں مکڑیاں چپکی ہوئی تھی اور انکی خاصیت آواز سنکر متحرک ہونا تھی جیسے ہی فزا اور بیہ ہلیں ساری مکڑیوں نے انکے پیچھے دوڑ لگادی اور فزا بیہ تیزی کے تمام رکارڈ توڑتی سیدھی کفہ سے باہر اگریں ۔۔۔
بیہ تو سیدھی گری تھی مگر فزا کے چونکہ پہلے ہی پاؤں میں کافی چوٹ لگی ہوئی تھی تو وہ بری طرح گھائل ہوگئی اور اسکا خون زمین پر پھیل گیا۔۔۔
جو کہ بالکل نہیں ہونا چاہئیے تھا۔۔
ریچا صرف خطرناک ہی نہیں حیوان بھی تھی اور اسے قید کرنے کیلیئے طلسمی مکڑیوں کا سہارا لیا گیا تھا مگر اس حصار کی ایک شرط تھی جو اگر ٹوٹ جاتی تو ریچا آزاد ہوجاتی اور انسانی خون زمین پر بہے جارہا تھا کہ اچانک قید میں بیٹھی ریچا زمین ہلنے سےچونک اٹھی۔۔
یہ کیا ہورہا ہے۔۔
اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اور جب سمجھ آیا تو قہقہہ لگا کر ہنس پڑی ۔۔
اخر میری قید کا اختتام ہوہی گیا۔۔۔!!
آج سے میں آزاد ہوں ۔۔ازاد ۔۔۔!
اب میں سب سے پہلے اپنی پیاس بجھاؤں گی جو صرف تازہ شکار سے ہی بجھ سکتی ہے اور تازہ شکار ۔۔۔؟
مطلب انسان۔۔۔!!!!...
ریچا بلکھاتے ہوئے بستی کی طرف چل دی جہاں ایک کسان اپنے کھیتوں میں گٹھریاں باندھنے میں مصروف تھا ۔۔
کون ہے ۔۔۔؟
جھاڑیوں میں سرسراہٹ سنکر کسان جیسے ہی قریب پہنچا ریچا اس پر سوار ہوگئی اور اپنی خونی پیاس بجھا کر اسے دھکا دیکر اپنا منہ صاف کیااور مسکراتی بلکھاتی روپ بدل کر واپس ہوا ہوگئی۔۔
فزا جیسے ہی گاؤں میں پہنچی وہاں بھگڈر مچی ہوئی تھی ۔۔
کیا ہوا سب بھاگ کیو ں رہے ہیں ؟؟
فزا نے پاس کھڑے حلوہ پوری والےبھائی سے سوال کیا ۔۔۔
کچھ نہیں بہنا سنا ہے حملے ہونا شروع ہوگئے ہیں ۔۔
تم بھی گھر جاؤ اور بغیر کسی ضرورت کے باہر مت انا۔۔۔
یہ کھ کر وہ اپنی دکان بند کرنے لگے۔۔
فزا:
ارے لیکن بھیا جی ہم دونوں سیدھا اسی طرف سے آرہے ہیں ۔۔ہمیں تو ایسا کچھ نہیں دکھا،۔۔۔؟؟وہاں۔۔
بیہ:
ہاں اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو ہمیں بھی تو دکھنی چاہئیے تھی نا۔۔۔
وہ سب ہم نہیں جانتے ۔۔۔
مگر لوگوں کو بھورا کسان کی لاش ملی ہے اس کے اپنے کھیتوں میں وہ بھی اس حالت میں کہ اسکی لاش نیلی ہوئی پڑی ہے جیسے مانو جسم کا پورا کا پورا خون ہی خشک ہوگیا ہو۔۔۔
دکاندار کانوں کو ہاتھ لگاتا بھاگ لیا توفزا اور بیہ بھی گھر کی طرف روانہ ہوگئیں ۔۔۔
کسان کے مرنے کی خبر پورے گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی اور اسی طرح ماوی تک بھی جا پہنچی۔۔۔
کیا۔۔۔؟؟
ماوی:
یہ خبر کسی بھی طرح روس کے کانوں تک نہیں پہنچنی چاہئیے ۔۔!
شکور:
مگر دیدی ایسا کیسے ممکن ہے مالک باہر جائینگے لوگوں سے ملینگے تو۔۔۔؟؟
ماوی :
تم اسکی فکر مت کرو ایک ہی حادثہ ہوا ہے ابھی اور اسے تو میں بھی ہینڈل کرسکتی ہوں ۔۔۔تم بس چلنے کا انتظام کرو۔۔۔
شکورا:
جی بہتر ۔۔۔
ماوی :
آپ لوگ بالکل فکر مت کریں ہم پوری کوشش کرینگے کہ یہ جس کا بھی کام ہے اسے جلد سے جلد سزا دی جائے۔۔۔
یہ تو ناگ ونشیوں کا ہی کام ہے ۔۔
بھائیوں یہ دیکھو اسکے گلے پر دانت سے کاٹنے کا نشان بھی ہے۔۔۔
ایک گاؤں والے نے انکی توجہ نشان کی طرف دلائی تو سبھی لوگ ڈرنے لگے اب ہجوم میں چے مگوئیاں ہونا شروع ہوچکی تھیں۔۔۔
چاچا:
ایسی بات نہیں ہے حادثہ تو کہیں بھی ہوسکتا ہے اور اسکا بالکل بھی یہ مطلب نہیں کہ اگر گاؤں میں کچھ ہو تو قصور سیدھا ناگ ونشیوں پر ڈال دیا جائے۔۔۔
بتاؤ بھائی اس حادثے سے پہلے کتنی سالوں سے ان کے ساتھ مل کر رہتے آئے ہیں ۔۔۔کچھ ہوا بولو۔۔
نہیں نا ۔۔۔رہے کس کے ساتھ؟؟
یہی ناگ ونشیوں کے ساتھ اب اگر کچھ ہوا ہے تو مل کر دیکھتے ہیں ایسے آپس میں لڑنا ٹھیک نہیں۔۔
بیدی چاچا ماوی ،روس کی طرف سے کھڑے ہوکر گاؤں والوں کو اعتماد میں لینے لگے۔۔۔
بات میں تو دم ہے ۔۔تو روس خودکیوں نہیں آیا ۔۔۔
گاؤں کے لوگ کافی پریشان تھے۔۔
ماروی:
انہیں کوئی خبر نہیں ۔۔
یہ معاملہ میں نے خود سنبھالنے کا فیصلہ کیا تھا روس کو تو بھنک بھی نہیں اس بات کی۔۔۔
لو بھائیوں بات سنو انکی ۔۔۔۔۔
حویلی والے سارے جہان کی خبر رکھتے ہیں اور ہونے والے راجا صاحب اپنی رعایا کی حالت سے ہی ناواقف موج کر رہے ہیں۔۔۔!!
شاید اس آدمی کو لڑائی کروانا بڑا پسند تھا جبھی تو ہر سوال کا الٹا جواب موجود تھا اس کے پاس۔۔
ماروی :
چلیں جو بھی بات ہے ہم معاملہ جانچے گے آپ لوگ پریشان مت ہوں میں جب تک کچھ پہرے دار گاؤں کے باہر حفاظت کیلیئے بھجوادیتی ہوں۔۔۔اپ لوگ مطمئن رہیئے دوبارہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔!
ارے روس کہاں جارہا ہے ۔۔۔؟؟
یادو اسکے پیچھے دوڑا چلاایا۔۔۔
کچھ خاص نہیں ایک دوست کا شو ہے وہاں پر کچھ دنوں سے شو کررہا ہوں وہیں جارہا ہوں۔۔
یادو:
تو ٹھیک ہے نا میں بھی چلتا ہوں ۔۔۔
روس مسکرادیا :
ارے تم۔۔۔
کیوں کیا پروبلم ہے۔۔۔؟؟
یادو اپنے بال ہاتھ سے سیٹ کرتے ہوئے مسکرایا۔۔۔
اچھا چلو ۔۔دونوں باہر نکلنے لگے تھے کہ اچانک ڈاکیئے سے ٹکر ہوگئی۔۔۔
معاف کرنا صاحب جی۔۔
یہ لیٹر بھیجے گئے ہیں محل کے اڈریس پر۔۔۔۔
لگتا ہے میرے فیز ہیں۔۔۔
روس نے یادو کو گردن ہلاکر بتایا۔۔
آہ تیرے فینز۔۔۔
چل زرا ہم بھی جانتے ہیں آج تیرے فیمز کو۔۔
یادو نے چٹھی اسکے ہاتھ سے لیکر جیب میں رکھ لی اور آگے بڑھ گیا۔۔۔
گاڑی میں پہنچ کر چٹھی نکالی اور اسے پڑھنا شروع کیا۔۔
مہربانی نوازش شکریہ ۔۔۔
کیا کہوں کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔
اپکو بتانا چاہتی ہوں کہ میرے گھر والے سبھی دیوانے ہیں آپکے آپکا شو آپکا لیکچر کچھ بھی ایسا نہیں جو میرے گھر میں موضوع نہیں ہو۔۔
سب انتظار کرتے ہیں آپکا ۔۔
پتا نہیں آپ کسے سیلیکٹ کرینگے ملنے کیلیئے۔۔۔۔اگے گول گول دائرے کیڑے مکوڑے بنے تھے۔۔یادو گھوم کر روس کو گھورنے لگا..
ابے کس قسم کے فین ،پنکھے رکھے ہوئے ہیں۔۔۔
اداس ہوگیا میں توچٹھی پڑھ کر۔۔۔یادو منہ بنانے لگا۔۔۔
روس:
کون ہے نام تو لکھا ہوگا کچھ۔۔
یادو؛
ہاں ۔۔۔صورب فزی ۔۔
نائس نیم۔۔
کیا نائس تجھے تو سب ہی اچھا لگتا ہے۔۔۔
اچھا رک رک روک گاڑی۔۔۔
کیا ہوا ۔۔
زرا گردن گھما کر خود دیکھ لے۔۔۔
ہاں یہ بھیڑ کیسی ہے ۔۔۔روس تیزی سے گاڑی سے اترا اور بھیڑ کی جانب بڑھا۔۔
کیا بات ہے کیا ہورہا ہے یہاں۔۔۔ہٹو!
روس جی روس جی ہماری مدد کریئے ۔۔نجانے کون ہمارے گاؤں کے لوگوں پر حملے کررہا ہے۔۔
حملہ کہاں ہوا ہے۔۔۔؟؟
روس حیران پریشان رہ گیا۔۔
یہ دیکھیں ۔۔۔گاوں والوں نے لاش تک پہنچنے کیلیئے جگہ بنائی۔۔۔
یہ تو ۔۔۔لاش اچھی طرح دیکھ کر یادو نے روس کی طرف دیکھا اور دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔
آپ لوگ پریشان مت ہوں جب تک ہم پتا نہیں لگالیتے کہ یہ سب کون کررہا ہے ۔۔
آپ لوگوں کو ہمارا ساتھ دینا ہوگا۔۔۔
جی آپ جو کہینگے ہم تیار ہیں۔۔
سبھی گاؤں والے ایک اواز بن کربولے۔۔
روس:
تو آپ لوگ جب تک سب ٹھیک نہیں ہوجاتا اوپر پہاڑی پر فالوقت اپنی رہائش کی تیاری کرلیں میں تھوڑی دیر میں آدمی بھجواتا ہوں۔۔۔
جی بہت بہتر صاحب ۔۔
بہت شکریہ ۔۔
روس:
جی پلیز شکریہ مت کہیں۔۔۔
روس کے ماتھے پر فکر مندی سے گہری لکیریں کھنچی صاف دکھائی دے رہیں تھیں۔۔۔
یادو:
کون کرسکتا ہے ایسا کیا خیال ہے۔۔؟
اور کون ہوسکتا ہے۔۔روس نے کہتے کے ساتھ ہی گاڑی کو آگے بڑھایا تھا اور اب اسکا رخ ڈیڈ زون کی طرف تھا۔۔۔
اچھا کیا بھائی جو تم یہاں چلے ائے۔۔۔
میں بہت خوش ہوں ریچا کے میری بہن آزاد ہوگئی ہے۔۔
اوہ ۔۔
ریچا کھکھلاکر ہنس دی تو ہرش بھی مطمئن سا ہوگیا۔۔
سب اچھا لگ رہا تھا کہ جبھی ریچا ایک ڈرنک تیار کیئے لے ائی۔۔
یہ کیا لے آئی ہو۔۔؟؟
ارے یہ کیا بات ہوئی۔۔
پہلی بار آئے ہو بہن کے گھر بات تو ماننی ہی پڑے گی۔۔پی لو اسے۔۔۔ریچا نے مان سے رعب جماتے ہوئے ڈانٹا۔۔
ہرش اس وقت بگڑا ہوا ہرش نہیں تھا بلکہ وہ تو کوئی اور ہی تھا جو اپنے پن کی خوشبو پاکر خوشی سے پھولےنہیں سمارہا تھا۔۔۔
مگر یہ ہے کیا ۔۔؟؟
ہرش نے مشروب میں جھانکنے کی کوشش کی مگر ریچا نے کوشش ناکام کرتے ہوئے ڈرنک اسکے ہونٹوں سے لگادی اور ہرش کو پینی پڑی۔۔
یخ ۔۔کیسی ڈرنک ہے یہ۔۔۔؟؟
کچھ نہیں تمہیں پسند نہیں تو مت پیو ۔۔۔
ریچا جو کام کرنا چاہتی تھی وہ کرچکی تھی یہی سوچتی وہ ہولے سے مسکرادی۔۔
کیا کہنا چاھ رہی ہو میری شادی ؟؟
ہاں تارا تمہاری مگر ۔۔۔
فزااسے اداس سی لگی ۔۔
تم تو خوش بھی نہیں لگ رہیں۔۔ ؟؟
میں نہیں کرنے والی یہ شادی وادی ۔۔۔
تارا بھی مچل گئی۔۔
فزا:
ارے نہیں نہیں۔۔میں بہت خوش ہوں ۔۔
لگ تو نہیں رہی ۔۔؟؟
تارا خفگی بھری نگاہوں سے تکتے ہوئے بولی اور فزا اپنے انسوں چھپانے لگی۔۔
تارا:
اے فزا ادھر دیکھو میری طرف کیا بات ہے۔۔۔
شام تک تو ٹھیک ہی تھیں کیا ہوگیا ۔۔
تارا نے گھبرا کر اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹائے جو فزا منہ پر ہاتھ رکھے مسلسل روئے جارہی تھی۔۔۔
یہ کچھ نہیں بتائگی۔۔
صورب اچانک کہیں سے نمودار ہوا۔۔
تارا: کیوں ایسی کیا بات ہے؟؟
صورب:
تمہاری شادی کے ساتھ تمہارے سسرال والوں نے وٹے سٹے کی جگہ سٹے سٹے کی شرط رکھ دی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ گاؤں سے باہر تو چاچا لڑکی دینگے نہیں اس لیئے ایک ساتھ دونوں بیٹے نبٹ جائیں۔۔۔
صورب منہ بناتے ہوئے بولا۔۔
جب سے سنا ہے بس روئے جارہی ہے۔۔!!
فزا:
تارا تم کچھ نہیں کروگی یہ شادی تو ہونی ہی ہے۔۔تمہیں معلوم ہے چاچا نے کتنی منتیں مان رکھی تھیں کہ تمہاری شادی اسی گاؤں میں ہوجائے اور تم ان سے کبھی دور نا ہو۔۔تو میری بھی تو کبھی نا کبھی شادی ہونی ہی ہے تو ہوجانے دو۔۔
مگر فزا۔۔
تارا آگے بڑھی۔۔۔
یار مجھے معاف کردے میری وجہ سے ۔۔۔۔
تارا کچھ کھ نہیں پائی بس روتی ہوئی جھٹکے لیتی فزا سے لپٹ گئی۔۔۔اور دوسری طرف صورب بس بت بناکھڑا دیکھ رہا تھا۔۔۔
دونوں بہنوں کی شادی طے ہوچکی تھی ایسے حالات تھے مگر روس کا ساتھ تھا اور پھر ایسے موقع بار بار سامنے نہیں آتے تو شادی کی تیاریاں ہوناشروع ہوگئی تھیں اور کل انکا نکاح ہونا طے پایا تھا۔۔۔
حالات کچھ ٹھیک نہیں تھے تو اسلیئے ناگ ونشیوں کے خاندانی جگہے پر انکی دعوت کا اہتمام کروادیا گیا تھا۔۔۔
روس:
شادی اتنی جلدی اور وہ بھی ان حالات میں نیور۔۔۔
یادو:
روس مان جا بیٹا یہی بہتر ہے کیونکہ اگر داجی نے آکر منایا نا تو پھر کچھ گارنٹی نہیں کہ تو روتا ہوا ہی دلہا بنے گا۔۔
کہاں پھنسا دیا۔۔۔
مجھے شادی نہیں کرنی۔۔۔روس اپنی انگلیاں بالوں میں پھنسائے بیٹھا تھا ۔۔
یادو کو اسے ایسا بیٹھے دیکھ کر ہنسی اگئی۔۔۔
چل تیار ہوجا شادی کا سوٹ پہن کر راجا۔۔
تیری رعایا کو بعد میں دیکھ لینگے۔۔۔
ارے کچھ سنا تم نے اپنے روس کی بھی شادی ہورہی ہے ۔۔۔چاچا خوشی سے چھلانگ لگاتے دوڑے چلے ائے۔۔۔
وہ بھی اسی جگہ جہاں ہماری بیٹیوں کا نکاح ہے۔۔۔
چاچی:
سچ ۔۔؟؟
یااللہ مجھے تو یقین ہی نہیں ارہا۔۔۔
اتنا اچھا حکمران نیک دل سب کو نصیب کرے ۔۔۔امین۔۔
چاچا:
چلو تیاری کرلو کل اپنی بیٹیوں سے زیادہ ہم روس کے ساتھ وقت گزاریں گے ۔۔۔
پاپا:
ہاں بالکل۔۔۔
چاچی:
تو بچیوں کو کون سنبھالے گا۔۔۔؟؟
چاچا:
ارے وہ خود بڑی ہیں ماشااللہ خود دیکھ لینگی۔۔۔
دونوں مجنوں دوست ہاتھ میں ہاتھ ڈالے جنونی ہوئے جارہے تھے اور انہیں دیکھ کر چاچی بس سر پر ہاتھ مار کر رہ گئیں۔۔۔
دوسرے دن۔۔۔
ساری تیاریاں ہوچکی تھی حال میں ایک عجیب ہی طرح کی کھچڑی پکی ہوئی تھی ۔۔
کون کسکا رشتے دار ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اور سونے پر سہاگا راجکمار عرف ہونے والے راجا کی شادی کی تقریب بھی ساتھ ہونا قرار پائی تھی ۔۔
ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور ہمارے بزرگ روس کے فین اوٹوگراف لینے اور سہرابندی میں مست مگن ہوئے جارہے تھے ۔۔
کون عورتیں آئیں گھونٹ ڈالے فزا دھڑکتے دل اور بھیگی پلکیں جھپکتی انکے ساتھ نکاح کیلیئے چل پڑی۔۔۔
تارا خود دلہن بنی ہوئی تھی اور بیہ !؟
بیہ کو تو کچھ خبر ہی نہیں تھی پہلے تو کبھی ایسے غائب نہیں ہوئی۔۔یہاں اس پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی اور بیہ اس سے انجان نجانے کہاں بھٹک رہی تھی ۔۔۔؟؟
فزا نکاح نامے پر دستخط کرنے جارہی تھی کہ اچانک ایک نام سنکر اسکے ہاتھ کانپ اٹھے۔۔۔
٬"کیا اپکو روس زالی سے نکاح قبول ہے"؟؟۔۔۔
روس اس نام کی اہمیت کیا تھی اس کے نزدیک یہ بات تو کچھ پل پہلے ہی فزا جان پائی تھی اور اب اسے اسی نام کے نکاح میں دیا جارہا تھا۔۔
ضرور کچھ گڑبڑ تھی مگر کیا فزا آج بھی ایمانداری دکھا پائیگی اور اگلے ہی پل فزا نے قبول ہے قبول کرلیا تھا۔۔
کہ جس کے نصیب میں جو لکھ دیا جاتا ہے وہ اس کے پاس چلا آتا ہے۔۔اور یقیناً روس بھی میرا نصیب ہیں۔۔۔
میرے لیئے انکا نام کا ہوناہی کافی ہے۔۔۔
مبارک مبارک کے شور میں ہلچل سی مچ گئی ۔۔ارے دلہنیں تو بدل گئیں۔۔ارے کون سی ۔۔کس کی بدلیں۔۔؟اور جو نام سامنے آیا وہ تھا؟؟؟؟؟
جی ہاں !روس۔۔۔۔
ریچا:
ارے واہ جشن کا ماحول ہے ۔۔۔!
خوشیاں منائی جارہی ہیں ہمارے بغیر ۔۔۔ریچا کی آواز گونجتے ہی سب کو سانپ سونگھ گیا۔۔۔
گاؤں کے لوگ کہاں ہیں یادو دیکھ کر اوو۔۔۔اسے میں سنبھالتا ہوں۔۔
روس سہرہ اتارتے ہوئے ریچا کی طرف بڑھا ۔۔۔
کیا لینے آئی ہو یہاں۔۔۔؟؟
ریچا:
کچھ نہیں مجھے وہ منڑی واپس لوٹا دو ۔۔میں ان سب کو جانے دونگی۔۔
روس:
ریچا کیا تمہیں سچ میں لگتا ہے کہ میرے ہوتے ہوئے تم انکا کچھ بگاڑ پاوگی۔۔۔؟؟روس مسکرادیا۔۔
ریچا:
بھائی۔۔!
کتنے بھولے ہو اپ۔۔۔کہیں دکھ رہی ہے آپکی رعایا یہاں۔۔۔
وہ میرے قبضے میں ہیں اور اگر اپکو وہ لوگ زندہ چاہئیے تو میری بات ماننی ہوگی ورنہ۔۔۔؟؟
تم ایسا کچھ نہیں کروگی۔۔!
روس بہت ضبط سے کام لیتے ہوئے دہاڑا۔۔۔
ریچا:
ایسا ہی ہونے والا ہے۔۔۔بہتر یہی ہوگا۔۔اپکے لیئے بھی اور آپکی بیوی کیلیئے بھی۔۔۔
جی ہاں سویٹ بھابھی جی۔۔۔
روس کے اسے بے یقینی سے دیکھنے پر ریچا نے اسکے خدشے کی تسکین کردی ۔۔۔
روس:
بیوی۔۔۔؟؟
ریچا چھوڑ دو سب کو ۔۔۔مجھے مجبور مت کرو۔۔۔!
ارے تمہارے دوست کو کچھ کرنا بھی آتا ہے یا نہیں کھڑا کھڑا باتیں سنے جارہا ہے ۔۔۔
بیہ بیزار دور کھڑی روس کو ڈانٹ کھاتا دیکھتی بیزار ہوگئی۔۔۔
فزا فزا کہا ہے؟؟
اسکا دھیان ایک دم فزا پر گیا۔۔۔اور اسنے گھوم کر روس کے پاس کھڑی ریچا کا بغور جائزہ لیا اور چیخی ۔۔۔
روس یہ ریچا نہیں ہے ۔۔۔
یہ سننا تھا کہ روس نے ریچا کی کلائی پکڑ کر گھمائی اور اسکا ٹیٹو چیک کیا جہاں کچھ اور ہی دکھائی دے رہا تھا۔۔
روس:
۔ہرش ۔۔۔ہرش ۔۔
ہرش جس نے ناگ منڑی شادی کی افراتفری میں اپنی جیب میں رکھ لی تھی اس بات سے انجان تھا کہ اسکے بھائی نے راج گدی کیلیئے اپنا نہیں بلکہ ہرش کا نام لکھوایا تھا جو نکاح سے پہلے یونین منظور کرچکی تھی اور روایت کے مطابق اگر یونین لیڈر کچھ غلط کام کرتا ہے تو اسکی تمام شکتیاں اس سے چھین لی جاتی ییں۔۔
اور اس وقت ہرش روس کے ہاتھوں سے پھسلتا ہوا نیچے کی طرف لڑھکتا چلاگیا۔۔۔
ہرش ہرش تو نے ایسا کیوں کیا ۔۔۔ہرش ۔۔۔؟؟
روس چلائے جارہا تھا جبکہ ہرش بند ہوتی بوجھل پلکیں لیئے روتے ہوئے روس کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
جبھی یونین گروپ پاس پہنچ گئے اور کہا ۔۔
یہ بچ سکتا ہے اگر کوئی اور اسکی جگہ سیٹ سنبھال لے۔۔۔مطلب آپ راجا صاحب۔۔۔؟
یہ سننا تھا کہ روس نے آنسوں صاف کیئے اور غنودگی میں ڈوبے ہرش کو دیکھکر یادو کا نام مینشن کروادیا۔۔
اس اچانک ہوئے فیصلے پر پوری یونین حیران رہ گئی وہیں دوسری طرف ریچا فزا پر حملہ کرنے والی تھی کہ اچانک لگنے والے تمانچے نے اسے کئی گز دور دھکیل دیا۔۔۔
تیری اتنی ہمت۔۔۔
ریچا غصے سے بےقابو ہوتی اپنے اصلی روپ میں لوٹ آئی اور وہی بیہ نے بھی ناگن روپ دھار لیا۔۔
کافی دیر لڑائی کے بعد بیہ کی پونچھ ریچا کے شریر کے آرپار ہو گئی اور ریچا کٹی پتنگ کی طرح زمین پر ڈھے گئی۔۔
تم ناگن ہو۔۔۔
فزا منہ کھولے کھڑی تھی۔۔
بیہ:
کیوں نہیں ہوسکتی کیا۔۔؟؟
جی جا جی ناگ ہوسکتے میرے !
پر میں کیوں نہیں۔۔۔؟؟
فزا؛
مگر گھر والوں کو کیسے بتاونگی ۔۔۔؟؟
بیہ،:
انہیں بتانے کی ضرورت نہیں۔۔
فزا:
کیوں ۔۔؟؟
کیونکہ ہم جانتے ہیں۔۔۔
چاچا اور گاؤں والے اچانک سامنے اگئے۔۔وہیں دوسری طرف تارا کھڑی نظریں چُرا رہی تھی۔۔۔
بیہ تارا کے سامنے پہنچ گئی اور اسے نظریں چراتے ہوئے دیکھنے لگی۔۔۔
اسے دیکھو ایسے ڈر رہی ہے جیسے میں ابھی اسے پتھر کا بنا دوں گی ۔۔۔
تارا جھٹ سے بولی۔۔۔بالکل نہیں ناگن کی بچی۔۔۔
یہ سنتے ہی بیہ اور چاچا،پاپا ،فزا سبھی قہقہ لگاکے ہنس پڑے۔۔۔
سب ٹھیک ہوچکا تھا ۔۔
ہرش اٹھا اور سر جھکائے اٹھ بیٹھا کچھ کہنا چاہتا تھا مگر زبان نے ساتھ نہیں دیا ۔۔
اس نے جونہی روس کی سمت دیکھا تو روس اسے پہلے سے اپنی طرف متوجہ ملا ۔۔۔
روس آگے آیا اور ہرش کو گلے لگا لیا ۔۔۔۔
انمول رشتے کبھی آپکا ساتھ نہیں چھوڑتے چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔۔۔ہرش یہ بات سمجھ گیا تھا۔۔۔
روس جانے لگا تو اسے سامنے ایک بچہ کھڑا اپنی سمت دیکھتا دکھائی دیا۔۔۔
روس:
بیٹا آپ کون۔۔۔؟؟
صورب ۔۔۔۔۔!
بیٹا آپ یہاں اکیلے کیوں کھڑے ہیں ۔۔۔؟؟
صورب:
مجھے اپکو کچھ لوٹانا ہے۔۔
روس حیران ہوا۔۔
ہاں بیٹا کیا لوٹانا چاہتے ہو اپ۔۔
صورب نے لیپ ٹاپ سامنے کردیا۔۔۔
ارے یہ تو میرا ہے۔۔!
صورب:
جی۔
میری بہن کو جنگل میں ملا تھا۔۔
بہت شکریہ بیٹا آپ کیا کھاوگے؟چوکلیٹ ۔۔
ہرش اس کیلیئے چوکلیٹ لے او۔۔۔!
روس نے پاس کھڑے ہرش کو مخاطب کیا۔۔
صورب:
نہیں مجھے کچھ اور چاہئیے۔۔۔۔
روس:
ہاں۔۔ کیا چاہیئے اپکو ۔۔روس کو وہ بچہ کافی انٹرسٹنگ لگا۔۔۔
صورب:
کیا میں اپکو جا جی جا کھ کر بلا سکتا ہوں؟؟
اسکی عجیب فرمائش سنکر ایک پل کیلیئے روس خاموش رہ گیا ۔۔۔
اب کیا کہتا مگر ہرش نے اسکی مشکل آسان کردی۔۔
اسکی بہن ہے فزی فزا ۔۔۔جس سے نکاح ہوا ہے آپکا بھائی۔۔روس ایک دم چونک اٹھا۔۔۔
بیوی۔۔اتنے جھمیلوں میں اسے تو وہ بالکل ہی بھول بیٹھا تھا۔۔کہ اچانک اسے کچھ یاد ایا۔۔صورب فزی۔۔۔
تم صورب اور تمہاری بہن۔۔؟
صورب: میری بہن فزی۔۔۔
اچھا کیا تم لوگ خط بھی لکھتے تھے مجھے؟روس نے اپنا شک دور کرنا چاہا۔۔
صورب:
فزی بھی لکھتی تھی۔۔
روس مطمئن ہوگیا اور بولا۔۔
مجھے تم جی جا جی بلا سکتے ہو ۔۔۔
یہ سننا تھا کہ صورب خوشی سے کھکھلاکر اور فزی فزی کرتا بھاگ گیا۔۔
عجیب بچہ ہے۔۔۔روس مسکرا کر رہ گیا۔۔۔
کہاں جارہا ہے ۔۔؟؟؟
روس کو سامان پیک کرتا دیکھ یادو اس کے سر پر پہنچ گیا۔۔
روس:
اپنی بیوی کے پاس۔۔
یادو:
کیا مگر تو اسے یہاں بھی تو بلا سکتا ہے۔۔؟
روس:
نہیں مجھے جو چاہیئے وہ اس محل میں نہیں مل سکتا اب مجھے جانا ہوگا۔۔اور شادی کر لینا۔۔
روس نے گلے ملتے ریک کے پاس کھڑی بیہ کی طرف اشارہ کرتے یادو کو چپت لگائی اور جیسے ہی جانے کیلیئے مڑا تو سامنے ہرش کو کھڑا پایا۔۔
خوش رہ بھائی ۔۔جی لے اپنی زندگی ۔۔ہرش کا یہ کہنا تھا تینوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔۔۔
فزا کافی اداس تھی صبح سے عجیب وحشت سی ہورہی تھی بلکہ صبح سے کیا جب سے نکاح ہوا تھا سکون کے بجائے ایک بے چینی فزا کے ساتھ ہولی تھی۔۔
پتا نہیں روس اسے اپنائیں گے بھی یا نہیں۔۔۔طلاق تو نہیں دے دینگے۔۔۔؟؟
عجیب عجیب خیالات دماغ میں اتے رہتے تھے کہ اچانک دروازے پر ہوئی دستک سے فزا چونک گئی اور جاکر دروازہ کھول دیا۔۔
کون تھا اس کے سامنے ۔۔
خیال تھا مگر نہیں مسکراتے ہوئے روس کو دیکھ کر فزا بھی مسکرادی اور خدا کا شکر بجا لائی کہ جس نے اسے یہ انمول تحفہ بن مانگے ہی دے دیا تھا۔۔۔
___ THE END___ .