ریچا:
اس روس کو بڑا شوق ہے امن کے جھنڈے لہرانے کا ۔۔
بڑا انصاف کا پجاری بنا پھرتاہے۔۔
ریچا مسلسل ٹہلتے ہوئے پیچ تاپ کھائے چلی جارہی تھی۔۔
بس ایک دفعہ نکل جاؤں اس قید سے پھر دیکھتی ہوں کیسے بچاتا ہے اپنے ان لاڈلے انسانوں کو۔۔۔!!
ریچا بے تحاشہ بے چین ٹہلے چلی جارہی تھی۔۔
لیکن میں یہاں سے نکلونگی کیسے؟؟؟
اففف۔۔کیا مصیبت ہے۔۔۔۔
کتنی پٹیا پڑھائی تھیں اس ہرش کے بچے کو۔۔۔۔۔
مگر مجال ہے جو۔۔۔۔
ایک زرا سا کام بھی ڈھنگ سے کرلیا ہو اس نے کبھی۔۔!
ریچا ہرش کی سستی پرکلس کر رہ گئی ۔۔۔
ریچا ۔۔
ایک دم سےغار میں کوئی گونج سی پیدا ہوئی۔۔
ریچا سلاخوں کے پاس پہنچ کر اس پاس نظر دوڑانے لگی مگر کچھ ٹھیک سے دکھ نہیں رہا تھا ۔۔
ریچچا...... ۔
ریچا کو دوبارہ کسی نے پکارا
اور اس بار سامنے چلاایا۔۔
(وہ مہیر تھا ریچا کا ساتھی اور ان بہن بھائیوں کی تباہی کا اصل ذمہ دار جو ریچا کو ہتھیار بناکر اسکے بھائی روس کے خلاف استعمال کررہاتھا اور افسوس کی بات یہ تھی کہ ریچا اس بات سے مکمل انجان مہیر پر اندھا اعتماد کررہی تھی اوراس گمراہ راستے پر چل پڑی تھی جو اسے صرف تباہی تک لے جانے والا تھا)۔۔
مہیر:
یہ کام اگر اتنا آسان ہوتاتو میں تمہیں کب کا باہر نکال چکا ہوتا ریچی ۔۔
مگر تھوڑا سا انتظار اور کرلو۔۔
بس پھر ہمارا راج ہوگا اس ریاست پر۔۔
صرف ہمارا۔۔
مہیر یہ کہتا ہوا ریچا کے پاس چلا آیا۔۔۔
مہیر۔۔۔تم۔۔؟
ریچاخوشی سے دمک اٹھی۔۔
ہاں ریچا۔۔
میں کئی بار پہلے بھی اس جگہ پر آچکا ہوں بس تم سے چھپا رہا۔۔۔۔۔
مگر تم سے ملنے کی ہمت نہیں کر پاتا تھا پر آج ۔۔
آج میں خود کو روک نہیں پایا ریچا۔۔۔۔۔۔۔
کچھ بتانا تھا تمہیں۔۔۔۔
اور تم سے ملنا بھی ضروری تھا۔۔
تمہیں تو معلوم ہی ہوگا ناگوں کے راجا اور پورےراج ونش کیلیئے آنے والی چاندنی رات کتنی اہمیت رکھتی ہے اور چاند کےکچھ خاص پلوں میں ناگ منڑی کا ہو نا انکے لیئےکتنا ضروری ہے اور اگر ایسا نا ہوا تو۔۔
مہیربات ادھوری چھوڑ کر ریچا کی طرف مسکرا کر سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے گویا ہوا تو ریچا ایک دم چہک کر بولی۔۔
ریچا : تو۔۔۔
تو پھر ہماری جیسی شکتیوں کو آزاد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔۔۔۔۔۔۔
اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ روس نے
ہمیشہ کی طرح اپنی اچھائی سے مجبور ہوکر اپنے راج ونش کی سب سے بڑی امانت۔۔۔(وہ ناگ منڑی)..
کچھ مشکل میں پھنسے لوگوں کی پکار پر قربان کردی تھی اور اب۔۔۔۔۔؟
ریچا مسکرائی۔۔
جب وہ منڑی ہی یہاں موجود نہیں ہے تو یہ کوچ زیادہ دیر تک ٹک نہیں پائیگا۔۔۔ ہاہاہا۔۔
ریچا خوشی سے رقص کرنے لگی۔۔
تو ہماری قید ختم ہو جائے گی ۔۔
ریچا خوشی سے گنگناتے ہوئے مہیر کے سامنے ٹہر گئی۔۔
مہیر :ہاں۔۔بالکل ایسا ہی ہوگا!
مگر اس بار اپنا کام ہمیں پوری ہوشیاری سے کرنا ہوگا کیونکہ پچھلی بار کی طرح غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔۔
ریچا:
اور پھر شروع کرونگی میں خون کا ایسا خونی کھیل کہ روس دیکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پائیگا۔۔۔
ریچاانکھوں میں خونی چمک لیئے آنے والے وقت
کی پلاننگ کرنے لگی کہ اب اس سے مزید انتظار کرنا دشوار ہوتا جارہا تھا ۔۔۔
تازےخون کی مہک اسے تڑپائے جارہی تھی اور اب اسے شدت سے اس گھڑی کا انتظار تھا جب چاندنی رات میں وہ آزاد ہوجاتی۔۔
روس کیا کر رہے ہو اکیلے؟؟
ماوی دھیرے سے دروازہ کھولتی روس کے کمرے میں چلی آئی جہاں روس سامنے کتابوں کا ڈھیر لگائے ایک کتاب میں گم بیٹھا دکھائی دیا۔۔
روس :
کچھ نہیں ۔۔
بس اپنے دوستوں کے ساتھ کچھ وقت گزار رہا تھا اب تو ان کے علاؤہ رہ ہی کون گیا ہے۔۔
روس نے مسکرا کر کتاب رکھی اور ماوی کو سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔
(ایک وقت تھا جب روس کا ایک جگری دوست بھی ہوا کرتا تھا جو اسکی طرح نرم دل اور لوگوں کی مدد کرنے میں پیش پیش رہا کرتا تھا۔۔
جس کے ہونے سے روس کو تھوڑا سہارا تھا مگر ایک دن کسی دور کے علاقے سے مدد کیلیئے چٹھی ا پہنچی تو روس کی جگہ اس کا دوست انکی مدد کرنے کیلیئے روانہ ہوگیا مگر روس نے اسے تنہا نہیں جانے دیا۔۔۔
جاتے جاتے روس نے اسکے ساتھ اپنی ایک قیمتی چیز بھی ساتھ کردی تھی کہ وہ کسی مشکل میں نا گھرے اور صحیح سلامت لوٹ ائے۔۔
جی ہاں وہ چیز۔۔
کچھ اور نہیں راج ونش کی پہریدار اور شان ناگ منڑی تھی ۔۔اور اس دن کے بعد آج تک دونوں نگینوں کی خبر تک نہیں مل پائی تھی۔۔)۔۔
ماوی:
کیوں کرتے ہو یہ سب۔۔۔
روس ۔۔ کیوں چھوڑ نہیں دیتے یہ سب ؟
تمہارے اپنے تمہارا ساتھ کبھی نہیں دینگے کیا تم جانتے نہیں انہیں۔۔
کیسے جی پاؤگے یوں گھٹ گھٹ کے۔۔
ارے انکے جیسا بےحس میں نے آج تک نہیں دیکھا۔۔۔
ماوی روس کو نڈھال دیکھ کر کہے بنا نا رہ پائی۔۔
روس:
ماوی۔۔۔ماوی۔۔
ماوی۔۔
میری بات دھیان سے سنو۔۔
وہ میرے اپنے ہیں میرا برا کبھی نہیں چاہیںنگے ۔۔۔
بس۔۔۔۔۔۔
ابھی تھوڑا ناراض ہیں مجھ سے۔۔۔
اور ایسی کوئی بات نہیں۔۔
روس نے مسکراتے ہوئے ماوی کی بےچینی بھانپ لی تھی اسلیئے اسے تسلی دینے لگا۔۔
(روس جانتا تھا کہ ماوی اسکی فکر کرتی ہے اور اسے اپنا بھائی مانتی ہے)..
ماوی:
اچھے سے جانتی ہوں تمہارے ان نام کے اپنوں کو جب سے تم نے ریچا کو سزا دلوائی ہے نا جب سے یہ ہرش تو تمہارا جانی دشمن بن گیا ہے۔۔۔
نظریں دیکھی ہیں تم نے اسکی۔۔۔
ماوی روس کو اصل حقیقت باور کراتی ہوئی بولی۔۔۔
روس :
سب کچھ جانتا ہوں۔۔۔
اورعلم بھی ہے مجھے۔۔۔۔
اسی لیئے ریچا کو قید کیا ہے میں نے ۔۔!!
اس لیئے نہیں کہ وہ اپنی من مانی کرتی پھر رہی تھی بلکہ اس لیئے کہ اسکی جان کو خطرہ تھا اور ہے۔۔۔
روس نے گہری سانس بھرتے ہوئے ماروی کو اپنے اس راز میں شریک کرلیا۔۔
ماوی :
خطرہ مگر کیسا خطرہ روس ۔۔؟
ماوی حیران رہ گئی۔۔
بری صحبت کا شکار ہوکر وہ تو خود ایک بےقابو جانور بن گئی تھی ۔۔۔
اور سچ کہوں تو مجھے تمہارے لیئے بہت برا لگتا ہے جتنا زہر تمہارے بہن بھائیوں نے تمہیں رشتے کے نام پر دیا ہے نا ۔۔
اتنی کرواہٹ تو تم میں ہوگی بھی
نہیں جتنی مجھ میں بس گئی ہے انکے یہ بے حسی اور گھٹیا کام دیکھ دیکھ کر۔۔
ماوی اچانک ہوئے اس انکشاف سے کچھ چونک سی گئی۔۔
مگر مجھے کوئی گلا نہیں ۔۔!
روس نے ٹھنڈی اہ بھرتے ہوئے ماوی کو دیکھا۔۔
بس افسوس ہے تو اسی بات کا کہ ہمیشہ میرے اپنوں نے مجھے اپنا حریف مانا،
دشمن سمجھتے رہے اور میں جتنا انکے پاس جانے کی کوشش کرتا ہوں اتنا ہی مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔۔۔
روس کی آنکھوں میں اچانک اداسی امڈ آئی۔۔۔
اور روس ماوی کو اس وقت اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرتے ہوئے ایک ٹوٹا ہوا رشتوں کے آگے بے بس شخص دکھائی دیا۔۔
ماوی:
میں بھی تمہارے ساتھ ان سات سالوں
سے ہر کام میں شریک رہتی آئی ہوں
اور تمہاری بڑی بہن جیسی ہوں۔۔
تم مجھ سے کچھ بھی کھ سکتے ہو۔۔روس۔۔
ماوی کے لہجے میں بھی اداسی نمایاں تھی ۔۔
(حقیقت ہے جب اپکا کوئی اپنا پریشان ہو اداس ہو تو بھلا پھرآپ خودکیسے جشن منا سکتے ہیں)۔۔
ماوی روس جیسے مضبوط انسان کو جب رشتوں کی کم ظرفی کے باعث ہارا ہوا دیکھتی تو اس کے دل میں رشتوں کیلیئے نفرت اپنی جڑیں اور مضبوط کرلیا کرتی تھیں۔۔
اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ اس صاف دل رکھنے والے شخص کی خوشیاں وہ کہیں سے ڈھونڈ لائے اور اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دے۔۔
مگر وہ بےبسی سے بس دیکھتی رہ جاتی تھی۔۔۔