مہرین کی ضد کے آگے ماما جان اور بابا جان نے ہار مان لی تھی اس لیے وہ دونوں زریاب کے گھر مہرین کے حوالے سے بات کرنے گئے۔
"تمہیں کیا لگتا ہے زریاب کیا وہ لڑکا ہماری مہرین کے لیے صحیح ہے؟" وہ پریشانی کی حالت میں اس سے ارحم کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔
" انکل میں ارحم کو صحیح سے نہیں جانتا مگر یونیورسٹی میں سب اس کو بہت پسند کرتے ہیں۔" اس نے ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
"تو کیا تم ارحم کو بلکل نہیں جانتے؟ آخر یہ سب کیسے ہوا؟ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مہرین اتنی آپے سے باہر کیوں ہو رہی ہے؟ کیا تم نے کبھی مہرین کے بارے میں نہیں سوچا؟" ماما جان اداسی سے بولیں مگر بابا جان ان کی اس بات ہر انہیں اپنی گہری نگاہوں سے دیکھنے لگے۔
"آنٹی مجھے نہیں پتا ان دونوں کے درمیان کب یہ شروع ہوا مگر آپ مہرین کو موقع دیں وہ جو بھی سوچے گی اپنے لیے اچھا ہی سوچے گی۔ اور جہاں تک میری بات ہے میں نے مہرین کو پرپوز کیا تھا مگر اسے یہ بات پسند نہیں آئی اس لیے ہم صرف دوست ہی ہیں۔" وہ بہت مشکل سے یہ الفاظ کہہ سکا تھا۔
"ہاں بیٹا ہم تو بس چاہتے ہیں وہ جہاں بھی رہے بس خوش رہے وہ ہماری ایک ہی بیٹی ہے۔ بہت پیار کرتے ہیں ہم سب اس سے اور ہمیں بس یہ دکھ ہے اس نے تمہارا انتخاب نہیں کیا جبکہ تم اس کے پجپن کے دوست ہو مگر اب جو بھی ہو اچھا ہی ہو۔" ماما جان کے لہجے میں اداسی بھی تھی اور پریشانی بھی اور بابا جان بھی کافی ناخوش تھے۔
"آمین! میری بھی یہ دعا ہے وہ جہاں بھی رہے خوش رہے۔" زریاب نے دبے سے لہجے میں کہا۔
"تم اپنا خیال رکھنا زریاب ہم پھر آ کر ملیں گے ضرور ۔" ماما جان وہاں سے اٹھتے ہوئے بولیں۔
" بلکل آنٹی اپنا خیال رکھیے گا۔" وہ ان کو دروازے تک چھوڑنے آیا۔
ان کے جانے کے بعد زریاب نے خود کو بہت مشکل سے سنبھالا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے صوفے کی طرف بڑھا اور زور سے نیچے گرتے ہوئے اس پر لیٹ گیا۔ آنکھوں میں نمی، دل بوجھل سا ہو رہا تھا۔ساری زندگی آپ کسی ایک شخص سے محبت کریں اور وہ یوں دور جانے لگے تو لگتا ہے دل کی دھڑکن تو ہے مگر دل کی دھڑکن میں وہ آواز نہیں جس سے زندگی ہونے کا پتہ چلتا ہے شاید وہ وہی کیفیت تھی۔
****
ارحم کے پیرنٹس کا فون آیا تھا اور وہ لوگ فون پر کافی شائستگی اور اطمینان سے بات کر رہے تھے۔
"جی ہم والیمہ یہاں امریکہ میں کر لیں گے اور آپ لوگ اپنا شادی کا فنکشن یہاں کراچی میں کر لیں۔ ارحم ہمارا ایک ہی بیٹا ہے اور ہمارے لیے یہ اعزاز ہو گا کہ مہرین ہماری بہو بنے۔" ارحم کی والدہ مہوش نے بہت احترام سے مہرین کے بابا جان سے گفتگو کی۔
" وہ بات بلکل ٹھیک ہے مگر ارحم آپ کا ایک ہی بیٹا ہے اور آپ لوگ اس کے نکاح میں شامل نہ ہوں یہ سب مناسب نہیں رہے گا۔" بابا جان نے عرض کی تو مہوش نے مطمئن ہو کر جواب دیا:
" آپ لوگ فکر نہ کریں ہم یہاں ہو کر بھی ارحم کے ساتھ ہوں گے ہماری کوئی ایسی مجبوری ہے کے ہم وہاں نہیں آ سکتے-"
"ٹھیک ہے مہوش صاحبہ میرے خیال سے جیسے ہی وہ دونوں گریجویٹ ہوتے ہیں ہم ان کے نکاح کی رسومات ادا کر کے اور رخصتی کر کے معاملات نمٹا دیں گے آپ سے بات کر کے اچھا لگا بھائی صاحب کو سلام کہے گا۔" یہ کہہ کر انہوں نے فون رکھ دیا۔
ماما جان ٹی وی دیکھ رہی تھیں اور بابا جان فون رکھ کر وہی ان کے ساتھ آ کر بیٹھ گئے۔
گھر میں کافی خاموشی تھی کیونکہ عاشر چار دن کے لیے اسلام آباد گیا ہوا تھا اور مہرین شرمین کے ساتھ شاپنگ کے لیے نکلی ہوئی تھی۔
"کیا بات ہوئی جہانزیب؟" زرمینہ نے ٹی وی کی آواز کو آہستہ کیا اور جہانزیب کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔
"ارحم کی والدہ سے میری بات ہوئی ہے وہ چاہتے ہیں کہ نکاح اور رخصتی ہم یہاں پاکستان میں ہی کر دیں اور باقی رسومات وہاں وہ لوگ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ کریں گے۔" وہ ماما جان کو اپنی ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتانے لگے۔
"تو کیا نکاح ہم ان کے بغیر کریں گے؟" وہ حیرانی سے پوچھنے لگیں۔
"ہاں مجھے وہ لوگ مناسب لگے ہیں اور میں نے تحقیق کروائ ہے ارحم کی فیملی کے متعلق اور وہ بلکل ٹھیک ہے۔ اور پھر ہماری بیٹی کی پسند ہے اور وہ لوگ کافی بار فون کر چکے ہیں اس لیے بس ہم ان سے پوچھ کر نکاح کی تاریخ طے کروا دیتے ہیں۔"
بابا جان نے ماما جان کو بتایا تو وہ کسی الجھن کا شکار ہو گئیں۔
"میری تو دعا ہے بس مہرین خوش رہے۔" وہ ایک سانس لے کر بابا جان کی طرف دیکھنے لگیں ۔
****
شیزہ کی بہن عالیہ کے منگیتر کی آج دعوت تھی۔ دانیال اور عاشر باہر لاؤنج میں بیٹھے تھے اور ساری لڑکیاں اندر ڈرائنگ روم میں بیٹھی تھیں۔ عالیہ شیزہ سے تین سال بڑی تھی اور اس کی منگنی پچھلے سال ہی بہت اچھی اور پڑھی لکھی فیملی کے لڑکے فارس سے کر دی تھی تو یوں سال گزرنے پر آج فرح ملک نے سوچا کہ پورے خاندان کو اکھٹا کر کے دعوت پر بلوا لیا جائے۔
اور عاشر بھی وہی آیا ہوا تھا تو انہوں نے سوچا کہ اس کی بھی ملاقات سب سے ہو جائے گی۔
"اور بھئ عاشر صاحب یہ بتائیں کہ BBA کرنے کے بعد کیا ارادہ ہے؟" دانیال حسن نے پاس ہی بیٹھے عاشر سے پوچھا جس کی نگاہیں شزہ کو ڈھونڈنے میں مصروف تھیں۔
"جی؟ ہاں میں BBA کے بعد لندن جا کر کسی کمپنی میں جاب کا سوچ رہا ہوں مگر ابھی تو وقت ہے کافی اس لیے پڑھائی پر ہی فوکس کر رہا ہوں۔" وہ اپنے ماموں کو بتانے لگا۔
دل اور دماغ اس کا شاید کہیں اور تھا اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہاں سے آٹھ کر چلا جائے کہیں دور جہاں صرف شیزہ کا سایہ ہو۔ جہاں شیزہ کے وجود کی روشنی ہو اور وہ اس روشنی کو اپنی زندگی میں شامل کر لے مگر وہ کہاں اتنی دور سے اسے یوں مل جاتی۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ شیزہ کی محبت اسے اپنے حصار میں جکڑ لے گی۔
"تو عاشر آپ اکیلے رہتے ہیں اپنے والدین کے ساتھ؟" فارس بھائی نے بڑے خوشگوار لہجے میں پوچھا۔
"نہیں! میرے ساتھ مہرین ہوتی ہے بابا جان کی بیٹی۔" یہ الفاظ کسی کانٹے کی طرح اس کے منہ سے نکلے تھے۔
"اچھا مہرین جن کا نام ہے؟" فارس نے پوچھا۔
دل تو اسکا کر رہا تھا کہ وہ کہے اس کا نام مہرین نہیں چڑیل ہے مگر الفاظ منہ میں ہی رہ گئے اور اس نے حامی میں ہی گردن ہلا دی۔
کھانے کے وقت سب لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے ہوئے شیزہ نے ساری ٹیبل سیٹ کی تھی جبکہ عالیہ تو شرم کے مارے کمرے سے باہر ہی نہیں آ رہی تھی۔
عاشر نے ایک نظر شیزہ کو دیکھا جس نے لمبی سی چوٹی بنائی ہوئی تھی اور جامنی رنگ کا شلوار قمیض پہن رکھا تھا اس کی صاف رنگت اور جان لیوا مسکراہٹ عاشر کو مزید دیوانہ بنا رہی تھی۔
"عاشر یہ کوئلہ کڑھائی لو نا شزہ نے بنائی ہے-" نانی جان نے عاشر کی طرف پیالہ بڑھاتے ہوئے کہا تو وہ مسکرانے لگا۔
" یعنی شاید جلی ہوئی ہے۔" عاشر نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
"ارے! اتنی اچھی تو ہے کھا کر تو دیکھو ۔" عالیہ نے فوراً شیزا کا ساتھ دیتے ہوئے کہا۔
" نانی جان جو لوگ کڑوے ہوتے ہیں انہیں ہر چیز ہی کڑوی لگتی ہے۔" شیزا تو تپ گئ۔ اتنی محنت اور لگن سے اس نے یہ کوئلہ کڑھائی بنائی تھی اور عاشر نے سب کے سامنے اس کی بنائی ہوئی ڈش کو جلا ہوا کہہ دیا۔
"بہت اچھی بنائی ہے بھئ شیزا اب تو لگتا ہے کہ کوئلہ کڑھائی کھانے کے لیے آپ کے گھر ہی آنا پڑے گا-" فارس نے بھی ہنس کر کہا۔
" شکریہ! فارس بھائی!" وہ خوشی سے بولنے گی تو عاشر بھی ہنس دیا۔
شیزہ کا تو موڈ ہی آف ہو گیا تھا اس لیے وہ سب کے لیے چائے بنانے کچن میں چلی گئ ۔ باقی سب پھر سے باتوں میں مصروف ہو گئے۔
عالیہ اپنی ساس کے ساتھ تھی جو اس کی بلائیں لے کر ہی نہیں تھک رہی تھیں۔ عاشر بھی رضا کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گیا۔ دونوں ہی فٹ بال کے دیوانے تھے مگر بات تب بگڑ جاتی تھی جب عاشر میسی کی تعریفوں کے پہاڈ کھڑے کر دیتا تھا اور رضا رونالڈو کا فین تھا اس لیے دونوں کی کافی بحث ہوتی تھی۔ عاشر ابھی بات کر ہی رہا تھا کہ فون پر کال آنے لگی کال عدیل کی تھی اس لیے وہ وہاں سے اٹھ کر باہر آ گیا۔
"ہاں بول! " عاشر نے آہستہ سے کہا۔
"کیسا ہے بھئ تو؟ إسلام آباد جا کر تو ہمیں بھول ہی گیا ہے۔" عدیل نے شوخ انداز میں کہا۔
"ابے یہاں پر کام بہت ہوتا ہے۔" وہ ہنس کر کہنے لگا۔
"ابے محبت کے کونسے کام کر رہا ہے تو؟ اب بتا شیزہ سامنے ہے کیا؟" وہ ایک پھر عاشر کا مذاق اڑاتے ہوئے بولا۔
" مجھے کیا پتا کہاں ہے وہ؟" وہ یہ بات ابھی بول ہی رہا تھا کہ پیچھے سے شیزہ نے آکر اسے مخاطب کیا:
" چائے! " وہ بہت خشک لہجے میں بولی۔ عاشر کا تو جیسے دل ہی حلق میں آ گیا۔ اس نے کپ ہاتھ میں لیا اور فون بند کر دیا - اتنی دیر میں وہ وہاں سے چلی گئ تھی۔
عاشر نے شزہ کی ناراضگی پر اسے منانے کے لیے ایک کاغذ پر غزل لکھ ڈالی۔
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے
پیامبر نہ میسر ہوا، تو خوب ہوا
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
میری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
جو دیکھتے تیری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
نہ پوچھو عالم برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے
(خواجہ حیدر علی آتش)
پھر یہ کاغذ اس نے لپیٹ کر رضا کو دے دیا -
"یہ آپ کے عشق کے پیغام کیا میں پہنچاؤں گا؟" رضا نے غصے سے کہا۔
" فلحال تو تم ہی ہو ہمارے پیامبر ۔" رضا نے ہنس کر کہا۔
"یہ لیں شیزہ آپی آپ کے نام خط -" وہ یہ کہہ کر چلا گیا-
شزہ نے خط جو کھولا تو حیدر علی آتش کی غزل پڑھ کر مسکرا دی۔ سارا غصہ پل میں ختم ہو گیا۔
*******
عاشر اسلام آباد سے کراچی آ گیا ۔ وہاں ملنے والی خبر نے اسے چونکا دیا تھا۔
"اگلے ہفتے مہرین اور ارحم کا نکاح اور رخصتی ہے اور ساری تیاریاں تم نے دیکھنی ہیں عاشر۔" بابا جان نے اسے بتایا تو وہ منہ کھولے انہیں دیکھنے لگا۔
"تو کیا آپ لوگ راضی ہیں؟" وہ کچھ الجھن کا شکار تھا۔
"ہاں ہم نے بہت سوچا اور ہر طرح سے تحقیق کروائ ہے ہمیں ارحم کی فیملی اور اس کا سوشل بیک گراؤنڈ اچھا لگا اس لیے ہم نے انہیں ہاں کر دی ہے اور ساتھ میں نکاح کی تاریخ بھی طے کر دی ہے۔" بابا جان نے اسے بتایا تو وہ آگے سے کچھ نہ بول سکا۔
"یہ تو بہت خوشی کی بات ہے کیا ہمیں مٹھائی اور کارڈ وغیرہ نہیں بھجوانے چاہیے؟" وہ بابا جان سے پوچھنے لگا۔
" ہاں بھئ گھر کی پوری سجاوٹ اور ساری چیزوں کو اب آپ دیکھے گے ۔" بابا جان نے بہت پیار سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
"جی! بلکل بابا جان!" اس نے بابا جان کی بات کی تائید کی۔
مہرین تو اس بات پر خوشی سے پاگل ہو گئی تھی اس کے دل خوشی سے جھوم رہا تھا خوشیاں اس کے دروازے پر دستک دینے کو تھی۔ اس کی زندگی میں پہلی بار اتنی بڑی خوشی آئی تھی تو وہ کیوں نہ خوش ہوتی؟
اس کے کمرے میں ہر طرف کتابیں بکھری ہوئی تھیں اور جابجا سامان پھیلا ہوا تھا ۔ اس نے ارحم کے ساتھ جا کر کاغذات بنوا لیے تھے ارحم کے پاس امریکہ کی نیشنیلٹی تھی اور مہرین سے نکاح کے بعد وہ مہرین کو وہاں کا ویزا اور کاغذات اپروو کروانا کافی آسان تھا ۔ کاغذات تیار تھے جو کہ بابا جان، ارم اور مہرین نے بنوائے تھے۔ ابھی وہ ایک مووی لگائے بیٹھی تھی کہ فون پر کال آنے لگی اسے مووی کے دوران فون اٹھانا زہر لگتا تھا۔
"ہیلو!" اس نے کافی چڑ کر بولا۔
"ہیلو وائف ٹو بی۔" دوسری طرف سے آواز ارحم کی تھی۔
"جی فرمائیے۔" اس نے سنجیدگی سے کہا۔
"یہاں میں تمہاری یاد میں مر رہا ہوں اور ایک تم ہو صاف مجھے اگنور کر رہی ہو۔" وہ اس کی سنجیدگی پر غصے سے بولا۔
میں مووی دیکھ رہی تھی اور تم نے مجھے ڈسٹرب کر دیا۔" اس کا جواب ابھی بھی ویسا ہی تھا۔
" اچھا نا تم خوش ہو نا مہرین؟ " وہ پیار سے پوچھنے لگا۔
" ہاں خوش ہوں تبھی تو تم سے بات کر رہی ہوں۔"مہرین نے آنکھیں گھما کر کہا۔
" مجھے تمہاری بے پرواہی پر ایک شعر یاد آ گیا ۔"وہ پھر سے اسے کہنے لگا۔
" فرمائیے۔" مہرین بولی۔
"یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجیے--------"
اس سے پہلے کہ وہ اپنی لائن ختم کرتا مہرین نے 'خدا حافظ' کہہ کر کال کاٹ دی۔
ارحم کو اس کے رویے پر شدید غصہ آیا مگر اس نے اپنے غصے کو ضبط کر لیا۔
*******
گھر میں ہر طرف چہل پہل تھی ۔ مہرین کے نکاح میں اب صرف دو دن تھے۔ جہاںزیب کا گھر آج خوشیوں سے بھرپور تھا۔ یوں تو وہ نکاح بہت بڑے ہال میں کرنا چاہتے تھے مگر مہرین کہ ضد پر انہوں نے گھر پر ہی نکاح اور رخصتی ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا۔
شرمین اور مہرین نے ماما جان کے ساتھ جا کر بھر پور شاپنگ کی۔
مہرین نے اپنی مرضی کا ڈریس لینے کی ضد کی تھی۔ ارحم کے والدین نے اسے ریڈ کلر کا لمبا سا فراک اور ساتھ میں خوبصورت سا سیٹ بھی بھیجا تھا۔ مگر مہرین کو وہ پسند نہیں آئے تھے۔ اس لیے اس نے اپنی مرضی سے گولڈن کلر کا میکسی ٹائپ فراک خرید لیا تھا جس پر ہلکا ہلکا سا نازک ڈیزائن تھا۔ زرمینہ نے اپنے سارے سیٹ مہرین کو دے دیے تھے اور بابا جان نے اسے شادی کے تحفے کے طور پر اس کے اکاؤنٹ میں بھاری رقم ٹرانسفر کروا دی تھی۔ جس پر وہ بہت خوش تھی۔
شرمین نے شاپنگ میں ماما جان اور مہرین کی کافی مدد کی۔ دوسری لڑکیوں کی طرح مہرین کو مال میں گھومنے کی عادت بلکل نہیں تھی مگر اب اسے مجبوری کی بنا پر شاپنگ سینٹر آنا پڑا تھا۔
گھر میں صفائی کا کام چل رہا تھا اور اسکا سارا زمہ عاشر نے سنبھالا ہوا تھا۔
"بہت اچھا گھر سجایا ہے آپ نے عاشر!" باباجان عاشر کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکے۔
"ارے! یہ تو بس شروعات ہے کل تک سارا کام مکمل ہو جائے گا انشاءاللہ۔" وہ باباجان کو بہت خوشی سے بتانے لگا۔
"چلیں یہ تو بہت اچھی بات ہے۔" باباجان نے اسکی تعریف کی اور اندر کمرے کی طرف بڑھے جب مہرین اور ماماجان اکٹھے گھر میں داخل ہوئیں۔
"السلام علیکم! "مہرین نے بہت خشک لہجے میں باباجان کو سلام کیا۔
"وعلیکم السلام، ہو گئی آپکی شاپنگ؟ "وہ، اسکے ہاتھ میں تھیلوں کو دیکھتے ہوئے بولے۔
"جی ہو گئی۔" یہ کہہ کر وہ فورا ً اندر چلی گئی۔ عاشر نے ماماجان کے ہاتھ سے شاپنگ بیگ لے کر نوکر کو تھمائے۔ اور پھر سب کیساتھ لاؤنج میں بیٹھ گیا۔
"آپ لوگوں کیلیے چاۓ لاؤں؟ اور عاشر نے تو کل سے کچھ کھایا بھی نہیں ہے کچھ کھا پی لو عاشر! "بانو لاؤنج میں آتے ہی بولیں۔ بانو نے ہی بچپن سے عاشر کو پالا تھا۔جب سے زہرہ اسکو اس گھر میں لے کر آئیں تھیں تو تب سے بانو ہی اسے دیکھتی تھیں۔ اسی لیے عاشر سے انہیں انسیت بھی تھی۔
"جی کھا لوں گا۔ اور چاۓ آپ رہنے دیں آج میں آپ سب کیلیے چاۓ لاؤں گا۔" یہ کہتے ہوئے وہ اٹھا۔
سامنے سے آتی مہرین نے جب دیکھا کہ عاشر گھر کے کام کر رہا ہے تو وہ طنز کرنے سے باز نہ آئی۔
"آہ! تو آج عاشر صحیح معنوں ميں بیٹا ہونے کا حق ادا کر رہا ہے۔" وہ بہت آہستہ سے چلتے ہوئے صوفے کے دوسرے کونے پر ٹکی۔
"بھئ عاشر تو ہے ہی ہمارا بیٹا۔ ہماری ہر بات مانتا ہے۔ الله ایسا بیٹا ہر کسی کو دے۔" باباجان بھی عاشر کی تعریف کرتے تھک نہیں رہے تھے۔
"ہاں ایسا بیٹا ہر کسی کو دے اور میری جیسی بیٹی کسی کو بھی نہ۔" وہ طنزیہ تلخ مسکراہٹ کی ساتھ بولی تو سب خاموشی سے اسے دیکھنے لگے۔
"آپ ہماری بیٹی ہیں ہمارا خون ہیں ہمارا غرور ہیں۔ الله آپ جیسی بیٹی بھی ہر کسی کو دے۔ ایسی باتیں مت کیا کریں۔" باباجان بہت ہی درد و تکلیف سے بولے۔ اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتی عاشر نے اپنے ہاتھوں سے چاۓ اسکے سامنے پیش کی۔
"شکریہ! "سب نے آج پہلی بار مل کر چاۓ پی تھی۔
خوشیوں سے بھرا گھر آج مہرین کے دل کو خوش کر رہا تھا۔ وہ پرانے سارے غم بھلا کر نئی زندگی کی شروعات کرنا چاہتی تھی۔
"بھئ مہرین عاشر کو شکریہ بولنا اب آپکا فرض ہے اس نے سارے گھر کی سجاوٹ اور پینٹنگ خود کروائی ہے۔" ماماجان پیار سے عاشر کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔
دل میں تو عاشر کو اس نے کوئی دس ہزار گالیاں دے ڈالی تھیں۔ اسے خدشہ نہیں بلکہ یقین تھا کہ اسکے جانے کے بعد عاشر اس گھر پر قابض ہوجاےگا اور شادی کے بعد اسکی بیوی بھی اس گھر میں بسنے لگےگی اور اسکے باپ کی تمام دولت اسی کے نام ہوجاۓگی۔
"جی شکریہ عاشر صاحب۔۔!!" اسنے بہت ہی روکھے انداز میں کہا تو عاشر نے غصّے میں لب بھینج لئے۔
********************
گھر میں سب لوگ جمع تھے۔ جہانزیب کے تقریباً سب ہی رشتےدار اس تقریب میں شامل تھے۔ پورا گھر روشنی اور قمقموں سے جگمگا رہا تھا اور ہر طرف گلاب کے پھول بکھرے ہوئے تھے۔ ڈرائنگ روم سے لیکر لاؤنج تک پھولوں کی سجاوٹ تھی۔ آج سے پہلے اس گھر میں اتنی روشنی اور خوشی نہیں دیکھی گئی تھی۔ گھر کے احاطے میں موجود گارڈن کو شادی کے حساب سے سجایا گیا تھا۔ سامنے ہی اسٹیج ترتیب دیا گیا تھا جسے نہایت نفاست، جدت اور خوبصورتی سے آرائش کیا گیا تھا۔
عاشر سفید شلوار قمیض زیب تن کئے ہوۓ تھا اور ساتھ ہی ہلکی داڑھی اور بالوں میں جیل اسکی شخصیت نکھار رہی تھی اور کالے جوتوں میں تو وہ بہت ہی حسین لگ رہا تھا۔
"بھائی ساری ڈیشز ایک بار دیکھ لیں اور وہ اس جگہ پر لائٹس نہیں ہے پلیز لگا دیں۔" وہ ورکر کو بتا رہا تھا۔ دانیال حسن اور رضا بھی دو دن پہلے ہی کراچی آگئے تھے مگر نانی جان ساتھ میں نہیں آئیں تھی کیونکہ ان کے پاؤں میں شدید تکلیف تھی۔
"بہت مبارک ہو آپ کو جہانزیب بھائی۔ اللّه نصیب اچھے کرے۔" انہوں نے مبرک باد دیتے ہوئے کہا۔
"بہت شکریہ دانیال بس نکاح شروع ہونے والا ہے سب کو بلا لو۔" بابا جان نے رضا کو آواز دے کر کہا تو وہ پھرتی سے وہاں سے نکل کر ہر جگہ جا کر لوگوں کو بلا نے لگا۔
مہرین نے گولڈن کلر کا ڈریس پہنا ہوا تھا جس کی ہاف سلیوز تھی۔ دوپٹہ سر پر تھا اور میک اپ اس نے بہت لائٹ سا کیا ہوا تھا۔ آج وہ اتنی حسین لگ رہی تھی کہ ماما جان کو ڈر تھا کہ کہیں ان کی ہی نذر نہ لگ جائے اسے۔ بڑی آنکھیں، گلابی ہونٹ، کھڑا نقشہ کیا کمی تھی اس میں۔ اس پر گولڈن کلر کا ڈریس وہ تو قیامت ڈھا رہی تھی۔
ارحم بھی لائٹ براؤن رنگ کی قمیض شلوار میں بہت اچھا لگ رہا تھا۔
نکاح سے پہلے زریاب کا فون آیا تھا مہرین کے پاس اور وہ سب چھوڑ کر بھاگتی ہوئی اس کا فون اٹھانے لگی۔
"ہیلو! زریاب تم کیوں نہیں ہو یہاں؟ پلیز ایسا تو مت کرو۔" اس نے بہت روتے ہوئے کہا۔
"مہرین مبارک ہو تمھیں اور میں نہیں آسکا اس کے لیۓ تم مجھے معاف کر دینا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ کر خوشی تمہارے مقدر میں ہو۔" وہ بہت گہرے سانس لے کر یہ بات مکمل کر سکا تھا۔
"تو کیا تم نے مجھے معاف نہیں کیا؟" وہ ناراضگی سے بولی تو اس کا دل بیٹھنے لگا۔
"مہرین جن سے محبت کرتے ہیں انکے ہر گناہ کو ہم ثواب ہی سمجھتے ہیں۔ تم نے تو جو بھی کیا وہ اپنے لیۓ کیا مگر میں نے جو کیا وہ تمہاری محبت میں کیا۔ جن سے محبت ہوتی ہے ان کو دور جاتا دیکھا نہیں جاتا اور میں اس امتحان سے گزرنا نہیں چاہتا۔ اپنا خیال رکھنا۔" یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا اور مہرین بس اور کچھ نہ کہہ سکی۔
شیزہ نے نارنجی رنگ کی فراک اور ساتھ میں چوڑی دار پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ وہ پھول لے کر آرہی تھی کہ عاشر سے اس کی ٹکر ہوگئی اور عشر نے اسے سہارا دے کر بازوں سے پکڑا تو وہ شرم سے پانی پانی ہوگئی۔
"دیکھ کر چلا کرو!" وہ ہنس کر بولا تو وہ سارے پھول وہیں چھوڑ کر بھاگ گئی مگر یہ سارا منظر ماما جان نے اپنے دماغ میں نقش کر لیا تھا اور ان کی ہنسی نکل گئی۔
نکاح کی تقریب شروع ہوگئی تھی اور سب وہاں موجود تھے۔ نکاح ختم ہونے کے ببعد مہرین اور ارحم کو ساتھ ہی اسٹیج پر بیٹھا دیا تھا۔
سب عش عش کر رہے تھے کے کیا آسمان زمین کی جوڑی ہے۔
رخصتی کے وقت بھی سب مہرین کے ساتھ ہی تھے مگر ماما جان کے آنسوں نہیں رک رہے تھے۔
"ارحم یہ ہم نے تمہیں اپنے جگر کا ٹکڑا دیا ہے اس کا بہت خیال رکھنا۔ اس کو ذرا سا بھی درد ہوتا ہے تو روح کانپ جاتی ہے میری۔" بابا جان نے مہرین کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔
"جی بلکل۔" اس نے سر جھکا کر کہا۔
عاشر مہرین کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بولے تو مہرین نے اسے خود بلا لیا۔
"مجھے پتا ہے کے تم بہت خوش ہو میرے جانے سے اور یہ بھی کے مجھ چڑیل سے جان چھوٹ رہی ہے مگر عاشر بابا جان کا خیال رکھنا تم۔ انہیں کچھ نہ ہو بس ہمیشہ ان کے ساتھ رہنا اور جو بھی کچھ کیا اس کے لیۓ شکریہ۔" یہ بات کہہ کر وہ ارحم کا ہاتھ تھام کر وہاں سے چلی گئی اور بابا جان تو اسکے جاتے ہی گھر کو ویران سمجھ بیٹھے تھے۔ اس کی کمی کو تو عاشر نے بھی محسوس کیا تھا۔
*********
مہرین کی رخصتی کے بعد ہی وہ امریکا چلی گئی تھی۔ وہاں جا کر وہ ارحم کے ساتھ بہت خوشی سے رہنے لگی۔ ارحم کے والدین الگ اسٹیٹ میں رہتے تھے اور ارحم الگ اس لئے وہ ہفتے میں ملنے اس سے آجایا کرتے تھے۔ مہرین روز بابا جان سے بات کیا کرتی تھی اور ارحم بھی بہت پیار سے مہرین کے ساتھ رہتا تھا۔ مہرین نے وہاں جاب کرنا شروع کر دی تھی مگر ارحم جاب نہیں کرتا تھا۔ شروع میں تو سب صحیح چل رہا تھا مگر بعد میں ارحم مہرین سے کھچنے لگا۔ وہ ہر روز مہرین سے پیسے مانگتا تھا کبھی کسی کام سے کبھی کسی کام سے۔
یہاں تک بابا جان کے دئے ہوئے پیسے بھی ختم ہونے لگے۔ مہرین کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ اس سے پیسے کیوں مانگتا ہے۔ اس نے یہ بات اس کے پرنٹس کو بتائی تو وہ بات ٹال گئے۔ رات کو دیر سے آنا اس نے سارے وعدے دو مہینے میں توڑ ڈالے۔
"مہرین ڈارلنگ، مجھے پیسے دینا یار آج کام ہے۔" وہ صبح صبح اس سے یہ بات کہنے لگا۔
"میرے پاس نہیں ہے۔" وہ غصے سے بولی۔
"کیا مطلب نہیں ہیں؟ مجھے چاہیے۔" وہ بھی بولا۔
"I said I don't have it"
وہ نہایت حقارت سے بولی۔
"مجھے نا سننے کی عادت نہیں مائے لوو۔" وہ ہونٹ بھینچ کر بولا۔
"اگر اتنا مسلہ ہے تو کما لو جا کر! " اس سے اب برداشت نہیں ہورہا تھا۔
ارحم نے اس وقت غصہ ضبط کیا اور چلا گیا۔
یہ ہر روز کا جھگڑا بن گیا تھا کے دونوں کی روز لڑائی ہوتی تھی یہاں تک گلی گلوچ۔ وہاں بابا جان کو شک تھا کہ مہرین پریشانی میں ہے۔
مہرین کو بہت بعد میں پتا چلا تھا کے وہ ڈرگ لیتا ہے اور بہت شراب بھی پیتا ہے۔ ایک دن وہ نشے کی حالات میں آکر مہرین سے پیسے مانگنے لگا۔
"تم میں شرم و حیا ہے کہ نہیں؟ بیوی کے پیسوں پر عیش کرتے ہو اور باقی سارے پیسے عیاشی کرتے ہو گھٹیا انسان۔ میں نے تم سے محبت کی تم جیسے دو کوڑی کے انسان سے! " وہ چیخی اور ساری چیزیں پھیکنے لگی۔
"شٹ اپ!" ایک زور دار تھپڑ اس نے مہرین کو لگایا اور پھر اس نے نشے میں اس کو ایک اور مارا تو اسنے اس کا ہاتھ روک لیا۔
"میں کوئی کمزور عورت نہیں ہو ارحم مجھے کمزور مت سمجھنا۔ تم مرد عورت کو اپنی پوجاری سمجھتے ہو جو مرا تو مار کھا لی۔ اگر دن بولا تو دن اگر ڈانٹ دیا تو ڈانٹ دیا جب جی چاہا پیار کیا ورنہ نہیں۔ مگر میں! میں وہ عورت نہیں ہو جو اپنا گھر بچانے کے لیۓ تمہاری مار کھاؤں۔ عورت عزت ہوتی ہے چاہے وہ ماں ہو یا بیٹی اور میں بھی کسی کی بیٹی ہوں یہ مت بھولو۔ مرد وہ مرد نہیں ہوتا جو عورت پر ہاتھ اٹھائے۔ وہ مرد خود کمزور ہوتا ہے اور جو ایک بار ہاتھ اٹھا لے وہ بار بار ہاتھ اٹھاتا ہے اس لیۓ میں ابھی اس وقت یہاں سے جارہی ہوں تمھیں چھوڑ کر سمجھے تم اور اب ساری باتیں کورٹ میں ہونگی۔" یہ کہہ کر وہ اس کے گھر سے چلی گئی اور ارحم سر پکڑ کر کتنی ہی دیر روتا رہا۔
*****
کیس وہاں پر ایک سال تک چلا اور مہرین نے سارے پیسے اس کیس پر لگا دئے اور آخر کر اس نے ارحم سے طلاق لے لی یہ بات بابا جان اور ماما جان تک پوھنچ گئی تھی اور کتنے ہی آنسوں بابا جان کی آنکھوں سے گرے تھے۔ مہرین کچھ ویزا کے مسلے کی وجہ سے پاکستان نہیں آسکی اور عاشر نے پڑھائی کے دوران لندن کے لیۓ اپلائی کر دیا تھا۔
تین سال بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(حالیہ)
مہرین کو ویزاکے لیۓ پیسے چاہیے تھے جو کے بابا جان نے عاشر سے لے کر اسے بھیج دئے تھے۔ عشر BBA کرنے کے بعد امریکا چلا گیا تھا اور وہاں اس نے عدیل کے ساتھ مل کر ایک کمپنی انویسٹ کی تھی جو کے اتنی کامیاب ہوئی کے عشر لاکھوں پیسے کمانے لگا اور پھر بابا جان کی کمپنی کو اس نے ان کے بہت اصرار پر اپنی کمپنی میں مرج کر لیا اس لئے نام وہی حسن انٹرپرائس ہی تھا۔ ایک سال اس نے وہاں بہت مشکل سے گزارا تھا وہ بھی بابا جان اور ماما جان کے بغیر۔
مہرین بھی اپنی سزا کاٹ کر واپس پاکستان آرہی تھی۔ دل تو جیسے ٹوٹ گیا تھا اور اب صرف سانس باقی تھی۔ ارحم کے ناسور اس کے دل کو چھلنی کر گئے تھے اور اپنی سزا کو وہ بہت کم سمجھتی تھی۔
عاشر ایک سال لندن میں رہ کر کراچی آگیا تھا اور مہرین بھی اگلے ہفتے ہی واپس آرہی تھی۔
"اسلام و علکیم! بابا جان!" وہ دروازے پر کھڑے ہوکر زور سے کہنے لگا۔
"آگیا بھئی ہمارا بیٹا!" بابا جان جو اخبار پڑھ رہے تھے یک دم کھڑے ہوئے اور عاشر کو گلے سے لگا لیا۔
کچھ دیر وہ اسے یوں ہی گلے سے لگائے آنسوں بہاتے رہے۔
"آجاؤ بیٹا تھک گئے ہوگے۔" ماما جان اس کے سر پر پیار کرتے ہوئے بولیں۔
"جی میں آتا ہوں اور آپ کو ایک اچھی بات بھی بتاتا ہوں۔" وہ سارا سامان رکھ کر کمرے میں چلا گیا اور کمرے کو دیکھ کر اسے وہ ساری یادیں واپس آگئیں۔ وہ ساری یادیں جو ماضی سے جڑی تھیں وہ ساری تلخ یادیں وہ نہیں بھولا تھا۔
کھانے کے دوران اس نے ماما جان اور بابا جان کو اپنی کمپنی کا اور اپنے گھر کا بتایا۔
"تو کیا اب تم وہاں رہو گے؟ اسلام آباد میں؟ ہم سے الگ؟" ماما جان نارضگی سے بولیں۔
"جی وہاں رہوں گا مگر ہر ہفتے یہاں ہونگا آپ کے پاس۔" وہ ہنس کر بولا۔
عاشر پھر اسلام آباد کے لیۓ نکل گیا تھا اور وہاں عدیل کے ساتھ کمپنی کے کام دیکھنے لگا۔ بابا جان نے اسے اگلے ہفتے کراچی بولیا تھا اور اس سے گزارش کی تھی کے وہ مہرین کو لینے ایئر پورٹ چلا جائے جس پر وہ دل سے تو راضی نہیں تھا مگر دل پر پتھر رکھ کر وہ اسے لینے چلا گیا۔
آج تین سال بعد وہ پاکستان واپس آئی تھی۔ بلیو جینس اور وائٹ ٹی شرٹ میں کھڑی وہ کسی کا انتظار کر رہی تھی۔ اسنے کالا چسمہ بھی لگایا ہوا تھا۔ وہ واپس آکر یہاں بہت سکون اور خوشی محسوس کر رہی تھی۔ اپنی من مانی کی سزا اسے مل چکی تھی۔
اسے انتظار کرے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا مگر لینے کے لیئے ابھی تک کوئی نہیں آیا۔
یک دم پیچھے سے کسی نے اسکا نام لیا۔
"مہرین؟" کسی نے پیچھے سے آواز دی۔
جب پیچھے مڑ کر اسنے دیکھا تو وہ اس شخص کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ لمبا قد، بلیک ٹائی اور بلیک سوٹ اور بوٹس میں کھڑا وہ شخص اسکے لیۓ کسی جھٹکے سے کم نہیں تھا۔ دو منٹ تک وہ حیران تھی کہ کیا یہ عاشر ہے۔
اسکی شکل دیکھ کر ایک بار پھر وہ غصّے میں آگئی۔ وہ بار بار گھڑی کو دیکھ رہا تھا۔
"اہ عشر آئ سی۔ کافی سال بعد ملاقات ہورہی ہے۔" وہ آنکھیں گھما کر بولی۔
"جی کافی سال بعد میں تو سمجھا تھا اب مرنے کے بعد ہی ہوگی۔" وہ بھی طنزیہ بولا۔
"بہت چمک رہے ہو؟ میرے باپ کی دولت پر ان تین سالوں پر بہت راج کیا ہوگا تم نے اسے لیۓ اتنا چمک رہے ہو۔" وہ پھر طنز کا تیر چلاتے ہوئے بولی۔
"شکر ہے انکی دولت چمک رہی ہے لٹ نہیں رہی۔" وہ بھی چپ نہیں رہا۔
اس سے پہلے وہ مزید زہر اگلتی وہ بولا
"میرے پاس آپ کی طرح فضول وقت نہیں ہے چلیں۔" وہ آگے نکلتے ہوئے بولا۔
"بہت زیادہ اکڑ رہے ہو تم اپنی اوقات مت بھولو۔ اب سامان اٹھاؤ اور چلو۔" اس نے حکم ہوئے کہا۔
"میں اپنی اوقات نہیں بولا اور نا ہی آپ بھولیں۔ اور میں آپ کا نوکر نہیں ہوں۔ اپنا سامان اٹھائیں اور وہاں گاڑی کھڑی ہے آجائیں ورنہ ٹیکسی یہاں بہت مل جائیں گی۔" یہ کہہ کر وہ وہاں سے نکل کر پارکنگ ایریا میں چلا گیا۔ اور مہرین حیرانی سے بس ایک دم چپ رہی۔