مہرین سے ملنے کے بعد ایک بے چینی اور اضطراب نے زریاب کو اپنے حصار میں جکڑ لیا۔ کہاں گئى اس کی وہ کھلکھلاتی ہنسی؟ کہاں گئ وہ مہرین جو موویز کی دیوانی ہوا کرتی تھی؟ اسے لگا تھا کے مہرین نے تو جیسے جینا ہی چھوڑ دیا ہو۔ زریاب مہرین کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ وہ اپنے خیالات سے نکلنے کے لیئے ایک art exhibition میں آگیا۔وہ ساری پینٹنگز کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ ہی رہا تھا کے ایک تصویر کے سامنے کھڑی عروسہ کو دیکھ کر اس کے قدم رک گئے۔ وہ بھی زریاب کی طرح شاید اپنے خیالات میں گم تھی اور بہت دکھی نظر آرہی تھی۔ زریاب کے ذہن میں وہ والا دن آیا جب اس نے عروسہ کو ڈانٹا تھا اور اس کے بعد وہ شاید اب تک اس کی کلاس میں نہیں آئى تھى۔
” مس عروسہ؟“ زریاب نے عروسہ کو مخاطب کرا جو کسی گہری سوچ میں گم تھی۔ وہ اس کی آواز پر پیچھے مڑی تھی۔
”زریاب؟ “ اس نے زریاب کو 'زریاب' کہہ کر مخاطب کیا۔ اس کی اس بے تکلفی پر وہ چونکا ضرور تھا مگر اس نے اس کی اس بات کو اگنور کیا۔
”آپ یہاں؟“ زریاب نے سوال کیا۔
"جی میرا دل گھبرا رہا تھا اس لیۓ دل بہلانے کا میں یہاں آگئی۔" وہ اسے بتانے لگی پھر پلٹ کر کودیوار پر لگی پینٹنگ کو دیکھنے لگی۔ دونوں کے درمیان خاموشی کی ایک لہر چھا گئی۔ زریاب اس سے نا آنے کی وجہ جاننا چاہتا تھا۔
"آپ اس دن کے بعد سے آئى نہیں؟" وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
"آپ نے اس دن مجھے کچھ زیادہ ہی بول دیا تھا۔" وہ بے زاری سے گویا ہوئی۔
"میں نے ایسا کیا کہہ دیا؟" وہ زچ ہو کر بولا۔
"یہی تو بات ہے کہ آپ کو پتا ہی نہیں آپ نے کیا بولا۔" ایک عجیب سی اداسی اس کے چہرے پر نمایاں ہو گئی۔
"آپ بتائیں میں معافی مانگ لیتا ہوں۔" زریاب نے دبے لہجے میں کہا۔
"رہنے دیں۔" عروسہ نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔ پھر کچھ دیر کے لئے وہ دونوں خاموش ہوگئے۔
"کیا آپ چاہتے ہیں میں وہاں واپس آجاؤں؟" عروسہ نے مسکراہٹ سجا کر اس کی طرف دیکھا۔ زریاب کو اس کی باتیں حد درجہ عجیب اور بے معنی لگتی تھیں۔ وہ مہرین اور شرمین کے بعد کوئی تیسری لڑکی تھی جس سے اس نے باتیں کرنا شروع کی تھیں ورنہ مہرین کے جانے کے بعد وہ کسی اور لڑکی سے بات تو کرنا تو دور کی بات اس کا چہرہ تک دیکھنا نہیں گوارا کرتا تھا۔
"میں اپنے سارے اسٹوڈنٹز کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں اس لئے آپ کو واپس پا کر مجھے بے انتہا خوشی ہوگی۔" اس نے بڑے تحمل سے عروسہ کو جواب دیا۔ عروسہ کو اس کی یہ فکرمندی اور سنجیدگی بے انتہا پسند تھی اس لئے وہ ناچاہتے ہوئے بھی اس کے اسٹوڈیو میں واپس آگئی۔
******
مہرین روز گھر میں بور ہونے کے بجائے اکثر زریاب سے ملنے باہر چلی جایا کرتی تھی۔ زریاب اور وہ کسی میوزیوم میں آئے ہوئے تھے۔ زریاب نے مہرین کو بہت منتیں دے کر وہاں بلایا تھا۔
"شکر ہے آپ آگئیں۔" اس نے دلفریب مسکراہٹ سے مہرین کی طرف دیکھ کر کہا۔ مہرین نے بال کھولے ہوئے تھے اور ساتھ میں ہمیشہ کی طرح سلیولیس شرٹ اور لانگ اسکرٹ پہن رکھی تھی مگر بال اب اس کے کندھے کی بجائے کمر کو چھو رہے تھے۔
” ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟“ مہرین نے خالی میوزیم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"کیا تم اسلام آباد کے اس مشہور میوزیم میں پہلے کبھی نہیں آئیں؟" زریاب نے خاصی حیرانی سے مہرین سے پوچھا۔
"میں اسلام آباد کی کسی جگہ پر بھی اب تک نہیں گئی اور یہ Lok Virsa Museum میں پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔" اس نے چاروں طرف اپنی نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔
"چلو اب تم میرے ساتھ ہو تو میں تمہیں یہ میوزیم دیکھاتا ہوں۔ تم جانتی ہو میں تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں؟" اس نے مہرین سے پوچھا۔
"کیوں؟" اس نے تجس سے پوچھا۔
"کیونکہ مجھے یاد ہے تمہیں مٹی سے مجسمہ بنانے کا شوق تھا۔ تم چاہتی تھی کہ تم زندگی کے ہر رنگ کو محسوس کرکے اپنے اندر ایک تصویر بناؤ اور پھر اسے مجسمہ کی شکل دو۔ تمہیں شوق تھا نا اس سب کا؟" زریاب نے مہرین کی آنکھوں میں جھانک کر کہا تو وہ آنسوں روک نہ سکی اور پھر آنسوں صاف کرتے ہوئے اس نے سر ہلا کر کہا۔
"ہاں مگر تب زندگی میں رنگ و بہار تھے اور اب صرف خزاں۔ ان سب چیزوں کا اب کوئی فائدہ نہیں۔" ایک کرب کی لہر اس کے چہرے پر صاف نمایاں تھی۔
"کیا ہو گیا ہے مہرین؟ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے تمہاری زندگی میں۔ تم میرے ساتھ ہو جب تک میں کوئی فضول بات نہیں سننا چاہتا تمہارے منہ سے اور یہاں سے پھر ہم ایک جگہ جایئں گے وہ بہت بڑا سرپرائز ہے تمہارے لئے۔" زریاب نے مہرین کو بتایا تو وہ بڑی مشکل سے صرف مسکرا سکی۔
"کتنے سرپرائز دو گے تم مجھے؟ کسی دن شادی کا بھی دے ہی دينا بہت ارمان ہے مجھے تمہاری شادی کا۔" اس نے ہنس کر کہا۔
”وہ وقت پتا نہیں کب آئے۔ ہائے ہمارے نصیب۔۔۔۔“ وہ سر پر ہاتھ مارتے ہوئے بولنے لگا تو مہرین بے ساختہ ہنس دی۔
*******
ماما جان اور بابا جان کھانے کے بعد مہرین کو فون ملا رہے تھے۔ مگر گھر پر شاید اس وقت کوئى موجود نہیں تھا۔ ایک گھنٹے بعد مہرین نے فون اُٹھایا تھا۔
”اسلام وعليکم! “ مہرین نے فون اٹھاتے ہوئے کہا۔
”وعليکم السلام! “ فون پر آواز ماما جان کی تھی جنہیں صرف مہرین کی فکر تھی۔
” کیسی ہیں آپ؟ بابا جان کیسے ہیں؟“ وہ فکر مند ہو کر پوچھنے لگی۔
"ہم ٹھیک ہیں بابا جان بلکل ٹھیک ہیں بس تمہارى ياد ميں ہر وقت پریشان رہتے ہیں۔" ماما جان نے اسے آگاہ کیا۔
"میں بھی آپ لوگوں کے بغیر اداس ہوں۔ میں کراچی آنا چاہتی ہوں۔" وہ اس گھر سے فرار حاصل کرنا چاہتی تھی۔
” ارے! ابھی تو ہم مل کر آئے ہیں تم ابھی مت آؤ۔
جب آنا عاشر کے ساتھ آنا۔" یہ سنتے ہی مہرین کا دل بیٹھنے لگا، اسے لگا جیسے اس کا دم گھٹ رہا ہوں۔
"وہ تو اب دیر سے ہی آئے گا کراچی۔" مہرین گویا اکیلے جانا چاہتی تھی۔
”تو آپ تب آجائے گا۔“ ماما جان نے ایک بار پھر وہی بات دوہرائی۔ مہرین اب انہیں کیا بتاتی کے عاشر اس کے درمیان کیا تعلق ہے۔ وہ مہرین کی شکل تک دیکھنے کا روادار نہیں تھا بلکہ وہ مہرین کو خود اپنی زندگی سے نکال دینا چاہتا تھا اور اس میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا یہ سب مہرین کا کیا ہوا اسی کے آگے آرہا تھا۔
"ٹھیک ہے مگر آپ خیال رکھے گا اپنا اور بابا جان کا بھی خیال رکھے گا۔" اس نے فون بند کیا اور پھر افسردہ ہونے کی وجہ سے باہر لان میں بیٹھ گئی۔ مگر تب بھی اسے عجیب سی گھبراہٹ محسوس ہوئی تو وہ ٹی وی لگا کر بیٹھ گئی۔ وہ عاشر کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ عاشر سے رحم دلی کی امید کرنا فضول ہے اس کے دل میں کدورت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جو شاید کبھی ختم نہ ہو۔ اس کی زندگى میں زریاب جیسا دوست واپس آگیا تھا مگر اب بھی وہ خود کو اکیلا محسوس کر رہی تھی۔ وہ اپنی زندگی سے ماضی کو مٹا دینا چاہتی تھی مگر بار بار وہی خیالات آتے تھے جو اسے جینے نہیں دیتے تھے۔
******
"بیٹا ہم دو دنوں کے لئے اپنے گاؤں جایئں؟" بانو نے بہت التجا کرتے ہوئے مہرین سے گزارش کی۔
"مگر عاشر کا کام تو آپ کرتى ہیں بانو۔۔۔وہ میرے ہاتھ سے کیا ہوا کوئی بھی کام قبول نہیں کرے گا۔"
مہرین نے افسردگی سے کہا۔
بانو کے بیٹے کی طبیعت بہت خراب تھی اس لیئے وہ کچھ دنوں کے لئے اپنے گاؤں واپس جانا چاہتی تھیں۔
"ہاں اس لیے میں نے اس کے سارے کام کر دیئے ہیں بس آپ فکر نہ کریں میں جلد ہی واپس آجاؤں گى۔" بانو اپنا سامان ہاتھ میں اٹھاتے ہوئے کہنے لگیں۔ مہرین کو سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کرے تو کیا کرے اور اب معملہ ان کے بیٹے کی طبعیت کا تھا اس لئے وہ زبردستی انہیں روک بھی نہیں سکتی تھی۔
"ٹھیک ہے بانو آپ جائیں۔ مگر جلد واپس آجائے گا پلیز یہاں اکیلے میرا دم گھٹتا ہے۔" اس کے لہجے میں افسردگی اور بے بسی تھی۔
"ہاں میرے بچے میں بہت جلد واپس آؤں گی آپ فکر نہ کریں۔" انہوں نے مہرین کو اطمینان دلایا اور پھر اپنے گاؤں جانے کے لئے روانہ ہوگئیں۔
بانو کے جانے کے بعد وہ گل خان کے ساتھ کسی قریبی اسٹور سے کچھ سی ڈیز لے آئى۔ اسے اپنا دل بہلانے کا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آیا۔
اس نے سی ڈی لگائی اور صوفے پر بیٹھ کر آرام سے Vikings دیکھنے لگی۔ عاشر کب آیا اور کب اس نے کھانا کھایا یا نہیں کھایا اسے خبر نہ ہوئی۔ وہ اس شو میں اتنی مگن تھی کہ اس کو آس پاس کا کچھ نہیں دیکھائی دے رہا تھا۔ وہ ابھی دوسری قسط لگانے کے لیئے اٹھی ہی تھی کہ ایک زور دار آواز نے اس کو چونکایا۔
"بانو! بانو!" عاشر زور زور سے آواز دے رہا تھا مگر گھر میں اس وقت مہرین کے سوا کوئی نہیں تھا۔
"بانو!" اس نے اوپر سے ایک بار پھر آواز دی مگر مہرین نے اسے اگنور کیا اور اپنا ٹی وی شو دوبارہ لگا کے بیٹھ گئی۔ وہ ابھی اس ٹی وی میں مگن ہی تھی کہ ایک بہت ہی تیز خوشبو نے اسے اپنے حصار میں جکڑ لیا۔ وہ شاید عاشر کے وجود کی خوشبو تھی جو پورے گھر میں پھیل گئی تھی۔ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی پیچھے مڑ کر دیکھا تو عاشر کو کھڑا کر وہ ٹھٹک ہی گئ۔ آج سے پہلے اس نے عاشر کو کبھی اس حلیہ میں نہیں دیکھا تھا۔ تھری پیس سوٹ وہ بھی بلیک کلر کا اس کے ساتھ بلیک ٹائی اور بلیک بوٹس، بالوں میں جیل اور چہرے پر سنجیدگی مہرین کو اس کی طرف کھینچ رہی تھی۔ وہ بغیر پلک جھپکے اس کی طرف دیکھے جا رہی تھی مگر عاشر اپنی نظریں ٹی وی لاؤنج کے ہر کونے کی طرف دوڑا رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں مہرین اپنے حواسوں میں واپس آئی۔ اس نے جلدی سے اپنا چہرہ دوسری طرف پلٹا اور ٹی وی کی آواز مزید تیز کردی۔ عاشر کا وجود اس کے ذہن کو پریشان کر رہا تھا۔ وہ بس یہ جانتی تھی کہ عاشر اس وقت اسے دنيا کا سب سے اچھا انسان لگ رہا تھا۔
” بانو! یہاں ہے آپ؟“ وہ اب بھی مسلسل بانو کو آوازیں دے رہا تھا۔ اس نے کوئى آٹھ نو بار مزید آوازیں دیں تو مہرین سے برداشت نہ ہوا اور وہ کھڑی ہوگئی۔ اس نے تو جیسے چیخ چیخ کہ پورے گھر کو سر پر اٹھا لیا تھا۔
”بانو گھر پر نہیں ہیں۔“ مہرین نے بنا کوئى تاثرات دیتے ہوئے اسے بتایا۔
” کیا مطلب نہیں ہیں؟“ اس نے حیرانی سے پوچھا۔
"مطلب کے وہ دو دن کے لئے اپنے گاؤں چلی گئی ہیں۔ اگر کوئی کام ہے تو مجھے بتا دو۔" اس نے جیسے عاشر کو آفر کی۔ عاشر تو مہرین سے بات کرنا تو دور کی بات اس کے چہرے کی طرف دیکھنا تک گوارا نہیں کرتا تھا۔
"کس سے پوچھ کر گئ ہیں وہ؟" وہ مزید تلخ ہوا۔
"میں نے بھیجا ہے انہيں۔۔۔ ان کے بیٹے کی طبیعت ٹھیک نہیں تھى تو میں نے انہيں بھیج دیا ان کے گاؤں۔" مہرین بڑے اطمینان سے عاشر کو بتانے لگی۔
"مہرین کس سے پوچھ کر آپ نے انہيں بھیجا ہے؟" اس کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔
”کیا مطلب پوچھ کر؟ ان کے بیٹے کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور وہ میری منتیں کر رہی تھیں تو میں کیا کرتی؟“ مہرین نے صفائی دینے کی کوشش کی تو وہ مزید چڑ گیا۔
"وہ میرے لیئے کام کرتی ہیں میں انہيں یہاں لایا تھا اس لیئے انہیں جانا ہے یا نہیں یہ فیصلہ مجھے کرنا چاہیئے تھا۔" اس کا جتاتا ہوا انداز مہرین کو ایک پل کے لیئے خاموش کروا گیا۔
"ٹھیک ہے مگر تم اتنی سی بات کو بلاوجہ بڑھا رہے ہو۔" اس نے ناراضگی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔
”ہاں بات بڑھانے کا بھی ہنر آپ سے ہی سیکھا ہے۔ مگر فلحال میرے پاس اتنا وقت نہیں کے میں آپ سے بحث کروں۔“ اس کا لہجہ کافی سرد تھا۔ مہرین کو عاشر کے یہ جملے سخت ناگوار گزرے تھے۔ مہرین پہلے کی طرح اس سے لڑتی جھگڑتی نہیں تھی بلکہ خاموش ہو جائے کرتى۔
” ٹھیک ہے آئندہ اگر کوئی مر بھی رہا ہوگا تو میں اسے اس گھر میں ہی رکھوں گی۔“ اس نے لب بھینچ کر کہا اور وہاں سے جانے لگی۔ عاشر کو آفس کی پارٹی میں جانا تھا اور وہ پہلے ہی کافی لیٹ ہو چکا تھا۔ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے لبوں کے نیچے والی حصے کو دانتوں سے پیسا تھا۔
"گھڑی کہاں ہے میری؟" وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مہرین سے پوچھنے لگا۔ مہرین نے بغیر جواب دئیے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ پھر وہ تیز قدموں کے ساتھ اوپر کی طرف گئ۔ اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کی ٹیبل پر ایک نظر دوڑائی۔ لیپ ٹاپ کے برابر میں ہی اس نے پڑی ہوئی گھڑی کو اٹھایا اور نیچے چلی گئی۔ عاشر مسلسل گھڑی کو دیکھ رہا تھا جس میں اس وقت نو بج رہے تھے۔ اس نے فوراً ہی گھڑی عاشر کے ہاتھ میں تھما دی۔ عاشر نے ایک سرسری سی نظر اس کے چہرے پر ڈالی اور پھر جلد ہی وہاں سے نکل گیا۔ مہرین نے ایک گہرا سانس بھرا اور پھر آنکھيں موند لیں۔
******
شیزہ نے فیصلہ کیا تھا وہ اب اپنی زندگی مزید برباد نہیں کرے گی بلکہ وہ اپنے والد کے ساتھ مل کر ان کا بزنس سنبھالے گی۔ وہ اپنا دھیان کہی اور بٹانا چاہتی تھی مگر ہر پل اس کو عاشر کی یاد ستاتی تھی۔ وہ کیسے بھول سکتی تھی اسے؟ بچپن سے جسے چاہا تھا اس ایک شخص کو مگر زندگى نے یہ کیسا کھیل کھیلا تھا کہ وہ ہو کر بھی اس کا نہ ہو سکا۔ وہ دن جب اس نے اس کے ہاتھوں میں اپنے نام کی انگوٹھی پہنائی تھی۔ اگر رونے سے غم کم ہو جاتا تو شاید اس کے ٹوٹے دل کو قرار آ جاتا مگر یہ کیسا امتحان تھا کہ رو رو کر بھی اس کے دل کو چین نہیں آرہا تھا۔ وہ عاشر کو زندگى میں ایک بار اور دیکھنا چاہتی تھی۔ سالوں کی محبت وہ پل بھر میں کیسے مٹا سکتی تھی۔ وہ سارا دن آفس میں صرف عاشر کو سوچتی رہتی۔ اس کو یقین تھا کہ وہ مہرین کے ساتھ یقیناً خوش نہیں ہے۔ وہ کیسے اپنی سارى زندگى اس عورت کے ساتھ گزار سکتا تھا جسے نے عاشر کو ہر مقام پر تکلیف پہنچائی۔
” میں عاشر کے پاس جاؤں گی۔“ اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا تھا۔
ہم عشق میں نہ جانا غم ہی سدا رہے گا
دس جون جو ہے یہ مہلت سو یہاں یاد رہے گا
دل ہی کے غم میں گزاری اپنی تو عمر ساری
بیمار عاشقی یہ کس دن بھلا رہے گا
(میر تقی میر)
********
عاشر جو ڈرایئو کرکے پارٹی کے لیے گیا تھا وہ پورے وقت صرف شیزہ سے ہونے والی ملاقات کو سوچ رہا تھا۔
وہ کیوں آئی تھی اس دن اس کے آفس میں؟ کیا اس نے شادی نہیں کی؟ کیا وہ اسے نہیں بھولی تھی؟ وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا۔
وہ پارٹی میں دیر سے پہنچا۔ کمپنی کے سارے لوگ ہی وہاں پہلے سے عاشر کا انتطار کر رہے تھے۔ یہ پارٹی اس کی کمپنی کے سارے ورکرز نے اس کی کامیابی کے سلسلے ميں رکھی تھی۔
”بڑی دیر کر دی آپ نے آتے آتے؟“ عدیل نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔ اس نے عاشر کو گلے سے لگایا اور پھر سب نے باری باری اسے اس کی کامیابی پر مبارک باد دی۔
” کیک کاٹیں؟“ مریم نے پوچھا جس پر اس نے سر ہلا دیا۔ یہ اس کی زندگى کی پہلی خوشی تھی مگر اس خوشی میں شریک ہونے والا کوئی بھی اس کا اپنا نہیں تھا۔ ہاں اگر، اس کی شادی شیزہ کے ساتھ ہوئی ہوتی تو وہ ضرور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اسے یہاں اپنے ساتھ لاتا۔ مگر اس کی زندگى میں مہرین اس کے لئے صرف ایک پاؤں کی زنجیر تھی جسے وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی زندگی سے الگ نہیں کر سکتا تھا۔
ابھی وہ کھڑا کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ عدیل نے اس کے کندھے پر زور سے ہاتھ مارا۔
”اتنی بڑی خوشی ملی ہے تمہيں اور تو یہاں کھڑا خیال یار میں پاگل ہو رہا ہے۔“ عدیل نے مذاق کرتے ہوئے عاشر سے کہا۔
”خوش تو ہوں اب کیا بھنگڑا ڈالوں؟“ وہ طنزیہ انداز میں بولا۔
”ہاں ڈال بھی سکتے ہو۔ کیونکہ آپ کی سابقہ محبوبہ آپ کی زندگى میں واپس آچکی ہیں۔" اس نے گویا عاشر کو اس دن ہونے والا واقعہ یاد دلایا تھا۔
"یار پلیز! ابھی میں یہ باتیں نہیں سننا چاہتا۔ سکون سے ایک رات گزارنے دو مجھے۔“ وہ جھنجھلا کر بولا۔
"تم نے اپنی زندگی خود جہنم بنائی ہوئی ہے۔ اپنے اس تنگ ذہن کو کھولو اور سوچو آگے کے بارے میں۔۔۔۔" عدیل نے عاشر کو سمجھانے والے انداز میں کہا۔
”کیا کروں میں؟ انہيں طلاق دے کر بابا جان کا وعدہ توڑ ڈالوں؟ یا اس عورت کو قبول کر لوں جس نے کبھی میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ جس نے زندگى میں مجھے صرف تکلیفیں دیں۔“ وہ بولتے بولتے رک گیا۔
”کیا وہ اتنی بری ہے کہ تم اس کی طرف دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتے؟“ عدیل نے اس کے مردہ دل کو زندہ کرنا چاہا تھا۔
”ہاں وہ اتنی ہی بری ہے۔ میں نہیں کر سکتا انہيں قبول۔۔“ وہ اب تک خود کو ماضی سے نہیں نکال سکا تھا۔
”میں تمہارا دوست ہوں وہ بھی بچپن سے اور تمہارى رگ رگ سے واقف ہوں۔ میں تمہیں یوں درد و تکلیف میں تڑپتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیئے بار بار تمہيں سمجھاتا ہوں۔" اس نے پیار سے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا۔
"میں اکیلے یوں اس طرح خوش ہوں۔" عاشر نے زبردستی مسکرا کر کہا۔ اتنی دیر میں کسی نے پیچھے سے عدیل کو آواز دی۔
”کھانا کھانے چليں؟“ عاشر نے مڑ کر عدیل کی طرف دیکھا جو مسکرا رہا تھا۔
"عاشر یہ ہیں میری وائف ثمرا۔ ثمرا یہ ہے عاشر میرا دوست میرا یار اور میرا کھڑوس باس۔" عدیل نے مزاحیہ انداز میں عاشر کا تعارف کروایا جس پر وہ ہنس دیا۔
”بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔ عدیل کافی ذکر کرتے ہیں آپ کا۔“ ثمرا نے بتایا۔
"اچھا! اچھے لفظوں میں یا برے؟“ عاشر نے مسکرا کر کہا۔ اس سے پہلے ثمرا کچھ بولتی عدیل بول پڑا۔
”ارے ظاہر سی بات ہے اچھے الفاظوں میں۔“ عدیل نے جھٹ عاشر کی تعریف کی۔
"اچھا چليں اب کھانا کھاتے ہیں ویسے بھی اچھے کھانے بہت کم میسّر ہوتے ہیں۔" عدیل نے ثمرا کی طرف اشارہ کیا۔
"بہت برے ہیں آپ۔" ثمرا خفا ہوئی تو عدیل نے پیار سے اس کا کندھا تھاما جس پر وہ بے اختیار مسکرا دی۔
******
عزوسہ آج بہت غور سے زریاب کو سن رہی تھی۔ وہ بڑے اطمینان سے کینوس پر لکیریں کھینچ رہا تھا۔ اس نے پندرہ منٹ میں ہی سمندر کا حسین اور پُرکشش اسکیچ بنا ڈالا۔ عروسہ تو بغیر پلک جھپکے ٹک ٹک اس اسکیچ کو دیکھے چلی جا رہی تھی۔
"That's amazing"
وہ تعریف کئے بنا نہ رہ سکی۔
"تعریف تو تب وصول ہوگى جب آپ بھی اس طرح نفاست کے ساتھ ایک اسکیچ مجھے بنا کر دیں۔" زریاب نے گویا عروسہ سے فرمائش کی۔
"جی۔۔۔ میں؟ مجھ سے تو چڑیا کا بچہ تک نہیں بنتا۔" اس نے بے فکری کے انداز میں کہا تو زریاب نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
”آپ دو ہفتے سے یہاں آئى ہیں اور آپ نے کچھ نہیں سیکھا؟“ وہ جیسے اس وقت زچ ہوا۔
”سر میں بناؤں؟“ ایک اور اسٹوڈنٹ نے آفر کی۔
"نہیں عروسہ کل اسکیچ بنا کر لائے گی۔“ اس نے عروسہ کو مخاطب کیا۔
”اس سے نہیں ہو پائے گا۔“ ایک اور لڑکی ہنس کر بولنے لگی۔
”اس دنیا میں کوئی چیز ناممکن نہیں ہے۔ ہر چیز کو حاصل کیا جا سکتا ہے اگر اس میں حاصل کرنے والے کی چاہ اور خلوص ہو۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ہميں مایوس نہیں کریں گی۔“ زریاب نے کہا تو عروسہ صرف ہاں ہی کہہ سکی۔ ابھی وہ کچھ ڈسکس کر ہی رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
اس نے دروازہ کھولا تو مہرین کو سامنے پا کر مسکرا ديا۔
”آئیے اندر تشریف لائیں۔“ وہ اس کا استقبال کر رہا تھا۔
”تھینکس۔“ وہ بلش کرتے ہوئے اندر آئى۔
مہرین کے اندر آتے ہی سب اسے باغور دیکھنے لگے۔ عروسہ نے مہرین کے چہرے کو دیکھا تو وہ اسے کافی جانا پہچانا سا لگا۔ وہ سوچوں میں گم ہو کر سوچنے لگى۔ اسے پھر ایک دم یاد آیا وہ اسکیچ جو زریاب کے آفس میں دیوار پر لگا ہوا تھا۔ وہ سمجھ گئ تھی کہ یہ وہی لڑکی ہے جس سے زریاب محبت کرتا ہے۔
” یہ ہیں مہرین میری بہت ہی گہری دوست اور یہ اب سے ميرے ساتھ مل کر آپ سب کو اسٹل آرٹس سکھائیں گى۔“ زریاب نے مختصر سا تعارف کروایا۔
”اسلام وعليکم میں آپ سب کے کام کو دیکھوں گى اور پھر آپ کی غلطیاں بھی بتاؤں گی۔ امید ہے کہ آپ سب تعاون کریں گے۔“ مہرین نے بہت ہی دھیمے لہجے میں کہا تو سب نے اس کے استقبال میں تالیاں بجائیں۔
*******
شیزہ آفس میں کام کر رہی تھی جب دانیال حسن اس کے آفس میں آئے تھے۔
”اسلام وعليکم ڈیڈ۔“ شیزہ نے انہيں اندر آتا دیکھ کر کہا۔
”وعليکم السلام! کیسا چل رہا ہے کام؟ “ دانیال حسن نے اس کے پاس آکر سوال کیا۔
”ابھی شروع کیا ہے تھوڑا مشکل ہے مگر مجھے لگتا ہے میں سیکھ لوں گی۔“ اس نے بڑے اطمینان کے ساتھ انہيں بتایا۔
”ڈیڈ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں آپ سے ایک فرمائش کرنا چاہ رہی تھی۔“ اس نے بہت مشکل سے وہ الفاظ ادا کیئے۔
”کیسی فرمائش بیٹی؟“ دانیال حسن نے تجس سے پوچھا۔
”کیا آپ مجھے اجازت دیں گے؟“ وہ بات واضح نہ کرسکی۔
”میرے بچے میں آپ کو ہر بات کی اجازت دوں گا مگر آپ بتائیں تو صحیح۔“ وہ جننا چاہتے تھے کے آخر معملہ کیا ہے۔ پہلے تو شیزہ کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کس طرح یہ بات بولے مگر کچھ دیر خاموش رہ کر وہ آخرکار بول پڑی۔
”میں چاہتی ہوں کے آپ کے آفس میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ عاشر کے آفس میں بھی کام کروں تاکہ مجھے تھوڑا سا تجربہ بھی ہو جائے اور مجھے سیکھنے کو بھی ملے جائے۔“ اس کی بات سن کر دانیال حسن کچھ لمحوں کے لئے ساکن ہو گئے۔ یہ کیسی گزارش کی تھی شیزہ نے؟ وہ سمجھ نہیں سکے۔
” ہاں وہ تو صحیح ہے مگر کیا تم اس کے ساتھ کام کر سکوگی؟“ دانیال حسن گویا شیزہ سے اس کے آگے کے بارے میں جاننا چاہ رہے تھے۔
”ہاں میں کر لوں گی۔ مجھے بس آپ کا ساتھ اور اعتبار چاہیئے۔“ اس نے محبت سے ان کا ہاتھ تھاما۔
"ہاں بیٹا آپ جائیں اور جو آپ چاہیں کر سکتی ہیں۔ آپ کو اجازت ہے۔" انہوں نے اس کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
*********
مہرین نے خود کو مصروف کر لیا تھا۔ وہ ہر روز دوپہر کو نکل جایا کرتی تھی اور پھر کہیں نا کہیں گھوم کر زریاب کے اسٹوڈیو میں جاکر وہاں اس کی مدد کرتی تھی۔ اسے ارٹس سے ویسے ہی رغبت تھی۔ بچپن سے ہی اسے مجسمے بنانے کا شوق تھا اس لیئے وہ اپنے شوق کو دوبارہ اجاگر کرنا چاہتی تھی۔ اس نے اس دن کے بعد عاشر سے بات نہیں کی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ مزید کوئى اور لڑائی جھگڑا ہو۔ وہ خود اس سے دوری برت رہی تھی مگر خود کو عاشر کے وجود سے دور کرنا اس کے لیئے کسی اذیت سے کم نہیں تھا۔ آج وہ دونوں ناشتے کی ٹیبل پر ساتھ ہی بیٹھے تھے مگر عاشر اسے نظر انداز کرکے ناشتہ کر رہا تھا۔ ٹیبل پر اس کی ایک فائل رکھی تھی جس پر اسے آج آفس کے سارے لوگوں کے ساتھ ڈسکس کرنا تھا۔ مہرین کی نظریں عاشر کے چہرے پر جمی تھیں جو بڑے آرام سے بغیر کوئی تاثرات دیئے ناشتہ کر رہا تھا۔ عاشر نے اپنے چہرے پر مہرین کی نظروں کو محسوس کیا تھا۔ وہ بڑی مشکل سے آخرى لقمہ نگلنے لگا تھا کہ اس کا فون بجنے لگا۔ اس نے ایک سرسری سی نظر مہرین کے سپاٹ چہرے پر ڈالی اور پھر موبائل اٹھا کر باہر چلا گیا۔ وہ شاید اتنی جلدی میں تھا کہ اس نے اپنی بچی ہوئی چائے تک پینا گوارہ نہیں کیا اور بغیر فائل اٹھائے نکل گیا۔ بانو تو دو دن بعد ہی آگئی تھی۔ انہوں نے ہی آج صبح دونوں کے لیے ناشتہ تیار کیا تھا۔ وہ جلدی میں اپنی فائل بھول چکا تھا۔ مہرین کی نظر جیسے ہی اس کی فائل پر پڑی وہ بھاگتی ہوئی اس کے پیچھے گئ مگر وہ بہت پہلے ہی آفس کے لیئے نکل گیا تھا۔ مہرین نے ایک گہرا سانس لیا اور واپس پلٹ گئ۔ دوسری گاڑی ریپیرنگ کے لیئے گئ ہوئی تھی اس نے پھر دوسری گاڑی آنے کا انتظار کیا۔
عاشر فائلز چیک کر رہا تھا جب دروازے پر ہونے والی دستک نے اسے چونکایا۔
”کم ان!“ اس نے بنا دیکھے اندر آنے کو کہا۔
”اسلام وعليکم عاشر بھائی! “ آواز یقیناً جانی پہچانی تھی اس لیئے سر اٹھا کر چند لمحوں کے لئے دیکھنے لگا۔
”وعلیکم السلام شیزہ! “ اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے شیزہ کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ دیکھتے ہی اس کے دل میں ایک بے چینی سی ہونے لگی تھی۔ ہاں جذبات اب ویسے نہیں تھے جیسے پہلے ہوا کرتے تھے مگر دل آج بھی اس کو دیکھ کر تڑپ اٹھتا تھا۔
”کیا میں کچھ دیر یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟“ اس نے دبے لہجے میں پوچھا تو عاشر نے جواب میں سر ہلا دیا۔
”کیسے ہیں آپ؟ مہرین آپی کیسی ہیں؟ “ اس نے بیٹھتے ہی سب سے پہلا سوال اس کے متعلق کیا۔
"میں اور وہ ٹھیک ہیں۔ تم سناؤ یہاں کیسے آنا ہوا؟" اس نے بے فکری سے پوچھا۔
"میں بس ایک کام سے آئى تھی یہاں۔" اس نے ہچکچا کر کہا۔
”ہاں بولو۔۔۔ کیسا کام؟“ اس نے فائلز بند کی اور اس کی طرف متوجہ ہوا۔ شیزہ اس وقت بہت نروس تھى کیونکہ وہ آج پہلی بار اس کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس کا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا۔ ہاتھ پسینے میں بھیگے ہوئے تھے۔
"میں کیا چند دن یہاں کام کر سکتی ہوں؟
صرف دو ہفتے؟ کسی بھی کام کے لیئے اگر آپ کے پاس کوئی جگہ خالی ہو۔ مجھے تھوڑا تجربہ چاہیئے اس لیئے میں یہاں آئی ہوں۔" اس نے وضاحت دی۔ عاشر پہلے تو کسی گہری سوچ میں پڑھ گیا مگر چند منٹوں بعد ہی اس نے اس کی درخواست کو قبول کر لیا۔
”ہاں ایک جگہ خالی ہے وہ بھی جونیئر مینجر کی اگر تم چاہو تو کام کر سکتی ہو۔" عاشر نے اسے بتایا جس پر وہ مسکرا دی۔ کہاں تو وہ اسے جی بھر کے دیکھا کرتا تھا مگر کہاں اب اس نے ایک دفعہ بھی نظر اٹھا کر شیزہ کی طرف نہیں دیکھا۔
”تھینکس میں ہر کام خوش اسلوبی سے انجام دینے کی کوشش کروں گی۔“ شیزہ نے عاشر کو یقین دلاتے ہوئے کہا۔
********
اس کی کمپنی کی بلڈنگ کافی بڑی اور اونچی تھی۔ اس نے جلدی سے گاڑی کو پارک کیا اور آفس میں چلی آئی۔ اندر آتے ہی اس کی نظر اس کے آفس کی دیواروں اور کمروں پر پڑی جو فائلز سے بھری ہوئی تھیں اور ہر طرف لوگوں کا ہجوم تھا۔ اسے اندر آتے ہی عجیب سے ہچکچاہٹ محسوس ہوئی تھی۔ نہ جانے کیوں اس کے قدم اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کہاں جائے کس جگہ پر جا کر وہ فائل عاشر کے حوالے کرے۔ وہ انہی سوچوں میں گم تھی کے سامنے والے ریسپشن پر بیٹھی لڑکی نے اسے اپنی طرف بلایا۔
"میں آپ کو کب سے یہاں کھڑا دیکھ رہی ہوں۔ کس سے ملنا ہے آپ کو؟" اس نے مہرین سے جاننا چاہا۔
"مجھے عاشر احمد سے ملنا ہے۔" وہ تیکھے لہجے میں بولی۔
"کس سلسلے میں میم؟" اس نے جیسے مہرین سے سوالات شروع کئے۔
"مجھے ان سے صرف دو منٹ کا کام ہے۔" مہرین آخر کار تلملا گئی۔
"آپ کیسے جانتی ہیں انہیں؟" وہ لڑکی سوال کر کر کے تھک نہیں رہی تھی۔
"جانتی ہوں اسے کیونکہ میں بیوی ہوں اس کی۔" یہ جملہ سنتے ہی وہ لڑکی سپاٹ چہرہ لئے کچھ لمحے اسے گھورنے لگی۔ وہ پھر چند لمحوں کے بعد ہی اپنے حواسوں میں آئی۔
"سوری میم! مجھے نہیں معلوم تھا کے سر کی شادی بھی ہو چکی ہے۔ آپ فرسٹ فلور پر تشریف لے جائیں۔" اس نے بڑے خلوص سے کہا تو مہرین مزید کچھ کہے بغیر وہاں سے چلی گئی۔ پورے راستے اس کے دماغ میں ایک ہی سوال تھا کے کیا اس نے اس لڑکی کو بتا کر غلطی کی ہے؟ اس نے کیوں بولا کے وہ اس کی بیوی ہے؟ اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے کیسے۔ وہ خود کو کوس رہی تھی جب اس کی ٹکر ایک شخص سے ہوئی جو اسے پہلے سے ہی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہا تھا۔
"آپ مہرین ہیں؟" وہ شخص اسے ابھی تک گھور رہا تھا۔
"جی اور آپ؟" مہرین نے اس سے پوچھنا چاہا۔
"ارے آپ مہرین بھابھی ہیں؟ آپ یہاں؟" وہ شخص کون تھا وہ پیچان نہیں سکی تھی۔
"آپ کون ہیں؟"
"میں عدیل! عاشر کا جگری یار ہوں۔" اس نے اپنا تعارف کروایا۔
"اچھا عاشر کا آفس کہاں ہے؟" اس نے نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
"ارے بھابھی آپ پہلی بار مل رہی ہیں پہلے ذرا بات چیت کر لیں؟" وہ شوخ ہو کر بولا تو مہرین نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے دوسری طرف نظر دوڑائی۔
"نہیں شکریہ میں جلدی میں ہوں عاشر کو یہ فائل دینی ہے۔" یہ کہتے ہوئے وہ عاشر کے آفس کی طرف بڑھی۔ وہ بغیر دستک دیئے اس کے آفس میں چلی آئی مگر سامنے دیکھنے والے منظر نے اس کو ہکا بکا کر دیا۔ عاشر اور شیزہ آمنے سامنے بیٹھے تھے اور ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے یہ دیکھ کر مہرین کو لگا جیسے وہ سانس لینا ہی بھول گئی ہو۔
"مہرین آپ؟" عاشر نے ایک دم حیرانی سے مہرین کی طرف دیکھا۔