بارش تھم چکی تھی۔ دھلی دھلی فضا اور اس پر ہلکی ہلکی دھوپ کی چمک دل کو باغباغ کر رہی تھی۔ بابا جان نے چائے کا کپ لبوں سے لگا کر آنکھیں موند لیں۔ آج دونوں بچے انہیں یونہی بہت یاد آنے لگے تھے۔ پر زندگی نے کسی اور ہی راستے کا انتخاب کیا تھا وہ راستہ جس نے بابا جان کوصبر کر جانے پر مجبور کر دیا تھا۔
گھر کی دیواروں میں بابا جان کو آج بھی عاشر کی آوازیں گونجتی سنائی دیتی تھیں۔ عاشر کے جانے کے بعد بھی اس گھر کے نقشے میں کچھ نہ بدلا تھا۔ سب کچھ تو وہیں تھا پھر بھی کچھ تو تھا جو بدل چکا تھا جس نے اس گھر کے گھیرے بابا جان پر تنگ کر دیے تھے۔ ہاں وہ وقت تھا…۔ بے لگام وقت …۔۔کبھی لوٹ کر نہ آنے والا وقت…
"آپ نے ابھی تک چائے نہیں پی ۔۔ کب سے یونہی رکھی ہے۔" ماما جان خفگی سے بولیں۔
"کیا ہوا ہے؟ آپ کچھ پریشان سے لگ رہے ہیں۔" زرمینہ بیگم نے جہزیب حسن کے چہرے پر لکھی اداسی پڑھ لی تھی۔
"مجھے مہرین کی فکر ہے۔ اس نے جو غلطی کی ہے اسکی سزا وہ کب تک یوں کاٹتی رہے گی۔۔ پتہ نہیں وہ وہاں کس حال میں ہے بس وہ کسی طرح سے واپس آجائے۔"
زرمینہ بیگم خاموش ہو گئیں اور وہ کہتیں بھی کیا۔۔ مہرین کی ضد ہی کی وجہ سے ہی آج یہ حالات پیدا ہوئے تھے۔ وہ خود تو اس درد سے گزر رہی تھی پر ان تین سالوں میں اسکے والدین بھی ایک لمحہ چین سے نہ گزار پائے تھے۔
•••
لندن میں آج بھی سردی کی شدید لہر تھی۔ اس سخت سردی میں اتنی دیر آفس میں رہنا محال تھا۔عاشر کو یہاں آئے ایک سال گزر چکا تھا پر یہاں آکر بھی وہ بےسکون تھا۔ بابا جان اور ماما جان اسکے خیالوں میں رہتے تھے۔ دل اب بھی انکا سوچ کر اداس ہو جاتا تھا۔ پر وہ اس گھر میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بھی نہیں بھولا تھا۔ وہ مقام جو اسے مہرین نے دے رکھا تھا اسکے لئے موت سے بھی بدتر تھا۔
"سر!۔۔۔ سر!" عاشر چونکا تھا۔ مس جین کب سے عاشر سے مخاطب تھیں "آدھے گھنٹے بعد آپکی میٹینگ ھے۔" اس نے انگریزی میں بتایا۔ سنا تھا وقت زخموں پر مرہم کی طرح ھوتا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جاتا ھے ماضی کے زخم مندمل ہونے لگتے ہیں۔ پریہ کیسا ماضی تھا جو مٹائے نہ مٹتا تھا۔۔۔بھلائے نہ بھولتا تھا۔ عاشر نے گہرا سانس لیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا ۔ اس نے اپنے ماضی کو بھولانے کی کوشش کی مگر وہ تلخ یادیں مٹانا اتنا آسان نہیں تھا۔
•••
جاوید حسن اور عباد حسن سالار حسن کے دو ہی بیٹے تھے۔
دونوں بھائیوں میں بہت پیار تھا۔ والد کے انتقال کے بعد دونوں بھائیوں نے کاروبار کو سنبھالا تھا۔ یہ انکی انتھک محنت کا ہی نتیجہ تھا جسکی وجہ سے حسن انٹرپرائزز کا شمار شہر کی کامیاب ترین کمپنیز میں ہونے لگا۔ کم عمری میں بیوہ ہونے کے باوجود آمنہ حسن نے اپنی اولاد کی اعلی پرورش میں کوئی کمی نہ کی تھی۔ جاوید حسن بڑے بھائی ہونے کی وجہ سے عباد حسن سے بےپناہ محبت کرتے تھے بدلے میں عباد حسن بھی بڑے بھائی کا ہر حکم خوش اسلوبی سے مکمل کیا کرتے۔ آپس میں قائم اس بے لوث محبت کو دیکھ کر پورا خاندان ان پر رشک کھاتا تھا۔
جاوید حسن نےاپنی والدہ آمنہ حسن کی پسند کے مطابق فرح مرتضیٰ سے شادی کی تھی اور خدا نے انہیں جہزیب جیسے فرمانبردار بیٹے سے نوازا تھا۔ والدہ کے انتقال کے بعد عباد حسن خود کو تنہا محسوس کرنے لگے تھے۔ جاوید حسن انکا اکیلا پن بھانپ چکے تھے اورچاہتے تھے کہ جتنی جلدی ہو سکے عباد بھی شادی کے بندھن میں بندھ جائیں۔ کچھ عرصے بعد عباد حسن نے عامر ملک (جوکہ ایک مشہور سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ عباد حسن کے بزنس پارٹنر بھی تھے) کی اکلوتی بیٹی حرا ملک سے شادی کی خواہش ظاہر کی جسے جاوید حسن نے دل سے قبول کر لیا۔ شادی کے بعد حرا ملک نے اسلام آباد سیٹل ہونے پر اصرارکیا جسے جاوید حسن رد نہ کرسکے۔اور یوں عباد حسن نے بھائی کی اجازت سے اسلام آباد میں الگ بزنس کی شروعات کی۔
•••
اٹھارہ سال الگ گزارنے کے باوجود دونوں بھائیوں میں محبت آج بھی قائم تھی۔ جاوید حسن سے ملنےعباد حسن اور حرا ملک آج پورے ایک سال بعد کراچی آئے تھے اور اس بار ان کے ہمراہ دونوں بچے زہرا حسن اور دانیال حسن بھی تھے۔
"آئیے ۔۔!آئیے۔۔! کیسے مزاج ہیں؟" جاوید حسن نے گرم جوشی سے بھائی کو گلے لگاتے کہا جبکہ پاس کھڑی زہرا پر نظر پڑتے ہی انکی مسکراہٹ مزید پھیل گئی۔
"ارے! کتنی بڑی ہو گئی ہے ہماری بیٹی۔" زہرا جواباً مسکرائی۔ زہرا کو حسن و جمال اپنی ماں سے ورثے میں ملا تھا پر مزاج میں ماں باپ دونوں سے مختلف تھی۔ ضدی ہونے کے ساتھ ساتھ بدلحاظ اور بدتمیز اور انا تو جیسے گھول کر پی رکھی تھی۔ مگر عباد نے سختی سے اسے سمجھایا تھا کہ وہ تایا جان کے سامنے اسطرح کی کوئی حرکت نہ کرے۔
"آپ لوگ لمبا سفر کر کے آئے ہونگے۔" فرح اندازہ لگا چکی تھیں۔
"جی فرح بھابھی ہم تھوڑا آرام کریں گے۔" عباد حسن نے کہا۔ فرح نے گھر کے ملازموں سے انکا سامان رکھوانے کو کہا اور خود انہیں ان کے کمرے دکھانے میں مصروف ہو گئیں۔ سیڑھیاں چڑھتی زہرا کے قدم دیوار پر لگی اس خوبصورت شخص کی تصویرکو دیکھ کر وہیں جم گئے۔ وہ کبھی دو سالوں میں ایک بار ان سے ملنے اسلام آباد آیا کرتا تھا مگرخود سے آکر اس نے کبھی بات نہیں کی تھی۔ جہانزیب حسن اتنا دور ہونے کے باوجود اسکے دل کی اتنے قریب ہوجائیگا اسے یقین نہیں تھا۔
"بیٹا زہرا آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں؟ آپ کو آپ کا کمرہ دیکھا دوں؟" فرح نے اسے پیار سے مخاطب کیا۔ وہ تصویر میں گم تھی ان کی آواز سن کر وہ پیچھے موڑی۔
"جی تائی جان میں بس یوں ہی۔۔۔" وہ بولی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
•••
جہانزیب حسن کو عباد چاچا کی آمد کا معلوم ہوا تھا۔ مگر وہ اس وقت یونیورسٹی میں تھا۔ رات کو کھانے پر اس کی ملاقات عباد حسن اور ان کی فیملی سے ہوئی۔
"ارے! جہانزیب تو ماشاءاللّه بہت بڑا ہوگیا ہے۔" عباد حسن نے ہنس کر اسے مخاطب کیا۔
"بس وقت کا پتہ ہی کہاں چلتا ہے عباد!" جاوید حسن مسکرا کر بولے۔
"تو بیٹا کیا مصروفیات ہیں تمہاری؟" اس بار حرا ملک بولیں۔
"میں بی بی اے کر رہا ہوں اور آگے ایم بی اے کا ارادہ ہے۔" جہانزیب نے جواب دیا۔
"واہ بھئ ! ارادے تو کافی بڑے ہیں آپ کے، اللّه آپ کو کامیاب کرے۔" عباد حسن نے اسے دعا دی۔
وہاں بیٹھی زہرا حسن جہانزیب کو بار بار دیکھ رہی تھی۔ سفید قمیض شلوار میں وہ بہت جچ رہا تھا۔ زہرا بس اسی انتظار میں تھی کے وہ شاید اس سے مخاطب ہوگا، مگر مخاطب تو کیا اس نے ایک بار بھی زہرا کی طرف دیکھنا تک گوارہ نہیں کیا۔ یہ بات زہرا کے ساتھ ساتھ حرا ملک کو بھی ناگوارہ گزری تھی۔ مگر ٹیبل پر موجود باقی لوگ اپنی گفتگو میں مصروف تھے۔ حرا نے بس خالی نگاہوں سے زہرا کو دیکھا تھا۔
•••
عباد حسن کو کراچی آئے ایک ہفتہ گزرچکا تھا مگراس دوران دونوں بھائیوں میں کوئی خاص گفتگو نہیں ہوئی۔ نہ ہی زہرا نے جہانزیب سے بات کرنے کی کوشش کی۔ اس نے جہانزیب کے لئے اپنی محبت دل کے کسی گوشے میں چھپا لی تھی۔
آج پھر وہ اسکی تصویر کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کے لمبے سیاہ بال، بڑی آنکھیں اور صاف چہرہ نے اس کو بےانتہا بھایا تھا۔
اس کے سامنے وہ خود کو کو ایک بےنام چیز سمجھتی تھی۔ آج سارے گھر والے شاپنگ کے لئے گئے ہوئے تھے۔ گھر میں وہ اکیلی تھی اور دانیال بھی کچھ دیر پہلے اپنے کسی دوست سے ملنے چلا گیا تھا۔ وہ ٹی وی دیکھ رہی تھی جب جہانزیب خاموشی سے اندر آیا۔ اس نے زہرا کو نظر
انداز کیا اور کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ اس وقت وہ تھکن سے چور تھا اور آرام چاہتا تھا۔
"اسلام وعلیکم!" زہرا نے آکر اسے سلام کیا۔
"وعلیکم سلام! کیسی ہو زہرا؟" جہانزیب کا لہجہ بہت اپنایت والا تھا۔ اس کی مسکراہٹ نے زہرا کے دل کو زور سے دھڑکایا تھا۔
"میں ٹھیک ہوں۔ ابھی سب گئے ہوئے ہیں۔ ابو اور باقی سب لوگ بھی۔" اس نے اسے بتایا۔
"اچھا ٹھیک ہے میں اپنے کمرے میں جارہا ہوں۔ ماما کو بتا دینا کے میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔" یہ کہہ کر وہ وہاں سے فوراً چلا گیا۔
اسکو اس طرح اگنور ہونا بہت برا لگا تھا مگر وہ اس وقت خاموش ہوگئی تھی۔
•••
آج شام عباد حسن اور جاوید حسن گیم کھیل رہے تھے۔ پاس ہی بیٹھی فرح اور حرا باتوں میں مشغول تھیں۔ اتوار کا دن تو سب کے لئے ہی خوشگوار گزرتا تھا۔ اسلام آباد سے کراچی آئے ہوئے عباد حسن کو دو ہفتے گزر چکے تھے۔ مگر ان کا دل یہاں لگ گیا تھا۔ وہ بھائی سے دور جانا نہیں چاھتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنا قیام مزید لمبا کرلیا تھا۔
"لو! تم پھر ہار گئے عباد! ایک بار تو جیت کے دکھاؤ تو مانوں میں تمہیں۔" جاوید حسن نے ہنس کر اپنی آخری باری چلی۔
"ارے! بھائی صاحب آپ سے کون جیت سکتا ہے بھلا؟" عباد نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔ گیم کو ایک طرف رکھ کر دونوں بھائی پھر سے باتوں میں مشغول ہوگئے۔ کچھ ہی دیر میں ملازمہ چاۓ لے آئی۔ سارے گھر والے باتوں میں مصروف تھے۔ گھر میں ایک رونق سی بکھر گئی تھی۔ زہرا حسن کو سب کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں تھا۔ اس لئے وہ کمرے میں اپنی ناول پڑھ رہی تھی۔ جہانزیب حسبِ معمول دوستوں سے ملنے گیا ہوا تھا۔
"ہاں بھئ حرا! میں پوچھنا یہ چاہ رہا تھا کہ زہرا کا آگے کا کیا ارادہ ہے؟" جاوید حسن نے ایک دم سے یہ بات نکالی۔
حرا ملک جو کھڑکی سے باہر دیکھ رہیں تھی یک دم چونک گئیں۔
"اس کا ارادہ تو ماسٹرز کا ہے وہ بھی فزکس میں۔ انشاء اللّه اچھا رزلٹ آجائے تو آگے یہی کرے گی۔" انہوں نے فخر سے بتایا۔
"یہ تو بہت خوشی کی بات ہے ماشاء اللّه بہت لائق بچی ہے۔" انہوں نے اس کی تعریف کی۔
بات نکالنا انہیں نہیں آرہا تھا۔ وہ کسی مناسب وقت پر یہ بات کرنا چاھتے تھے مگر انہیں آج کا وقت بلکل صحیح لگا تھا۔
"عباد اور حرا آج آپ سب لوگ ایک ساتھ بیٹھے ہیں۔ میں آپ سب سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔"
انہوں نے بہت مشکل سے یہ الفاظ ادا کئے تھے۔
"جی بھائی صاحب بولئیے؟" عباد حسن کو تجسس ہوا۔ کمرے میں خاموشی سی چھا گئی۔ سب جاوید حسن کی طرف متوجہ ہوگئے۔
"میں آپ سے ایک گزارش چاہتا ہوں بلکہ یوں بولیں کہ یہ میرے دل کی خواہش ہے کہ زہرا میری بیٹی بن جاۓ۔ میں جہانزیب کے لئے زہرا کا رشتہ مانگنا چاہتا ہوں۔ مجھے نہیں لگتا کے زہرا سے اچھی لڑکی جہانزیب کو مل سکتی ہے۔" انہوں نے بہت محبت بھرے لہجے میں کہا۔ یہ بات سن کر عباد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئ تھی۔ حرا ملک کچھ بولیں تو نہیں پر انہیں یہ بات کوئی خاص اچھی بھی نہیں لگی تھی۔ انہیں کبھی جہانزیب پسند نہیں تھا اور وہ جانتی تھیں کہ اس کو رشتوں کی بلکل اہمیت نہیں ہے۔
"بھائی صاحب آپ کا فیصلہ سر آنکھوں پہ، پر یہ معملہ بچوں کا ہے۔ ہم ان کی مرضی کے بغیر یہ فیصلہ نہیں کر سکتے۔" عباد حسن نے سمجھداری سے جواب دیا۔
فرح یوں تو خاموش تھیں مگر انہیں تو کسی اور بات کا ڈر تھا۔ ایک مہینے پہلے انہوں نے جہانزیب کے فون پر کسی زرمیںہ نامی لڑکی کے میسیجز پڑھے تھے۔
ان میسیجز سے یہ صاف ظاہر تھا کے وہ لڑکی اور جہانزیب ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔
"میرے خیال سے عباد صحیح کہہ رہا ہے جاوید، اپکو بچوں سے ایک دفع رائے لینی چاہیئے۔" فرح نے دبے دبے انداز میں کہا۔
"بھئ جہانزیب ہمارا فرمانبردار بیٹا ہے مگر اگر تم لوگ کہتے ہو تو ہم اس سے پوچھ لیتے ہیں۔" انہوں نے یہ کہہ کر ایک نظر فرح پر ڈالی جو کہ پریشانی کے عالم میں دانت پیس رہی تھیں۔
•••
حرا ملک شدید پریشانی کے عالم میں زہرا کے کمرے میں آئیں۔
"کیا تم جہانزیب حسن سے شادی کرلو گی؟"
انہوں نے نہایت سنجیدگی سے پوچھا۔
زہرا جو ناول پڑھنے میں مصروف تھی ایک دم چوںکی۔
"کیا مطلب ہے اپکا ممی؟" اس نے انکی طرف دیکھ کر پوچھا ۔
"تمہارے تایا جان نے جہانزیب کے لئے تمہارا رشتہ مانگا ہے۔" ان کی مسکراہٹ طنزیہ تھی۔
"کیا واقعی؟ آپ سچ کہہ رہی ہیں ممی؟" اس نے سب چھوڑ کہ انکا ہاتھ تھام لیا۔
"ہاں۔" انہوں نے جواب دیا۔ زہرا کو اپنی قسمت پہ یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ خوشی سے پاگل ہورہی تھی۔ یہ بات اسکے لئے کسی بڑے تحفے سے کم نہ تھی۔ ساری زندگی اس نے اس شخص کی محبت میں گزار دی تھی۔ مگر اب وہی شخص اسے بنا مانگے یوں مل گیا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنی سب دوستوں کو یہ بات بتاتی۔
"کیا تمھیں جہانزیب پسند ہے زہرا؟" حرا نے اس کی خوشی دیکھ کر اندازہ لگایا۔
کیا آپکو میری شکل سے اندازہ نہیں ہورہا؟ آئ لائک ہم!" اس نے جواب دیا۔
حرا ملک نے اسے کچھ نہیں کہا مگر انہیں دل سے یہ رشتہ ہرگز قبول نہیں تھا۔
•••
"تم کیا کسی کو پسند کرتے ہو جہانزیب؟" فرح نے اسے چاۓ پکڑاتے ہوئے پوچھا۔ جہا نزیب کو اپنی ماں کا یہ سوال بہت عجیب لگا تھا، اور اسے حیرت بھی ہوئی تھی کیوںکہ فرح حسن نے آج سے پہلے ایسا کوئی سوال نہیں کیا تھا۔
"اگر میرا جواب ہاں میں ہو تو؟" اس نے مسکرا کر چاۓ پیتے ہوئے کہا۔
"توپھر تم اپنی خیرمناؤ۔ کیونکہ تمھیں یہ بات پسند نہیں آئے گی جو تمہارے ابو تم سے کرنے والے ہیں۔" ان کا لہجہ افسردہ تھا۔
جہانزیب کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔
"کیا بات ہے امی؟ بتائیے مجھے!" اس نے خشک لہجے میں کہا۔
"پہلے تم بتاؤ کے کیا چکر ہے تمہارا؟" وہ ہنسنے لگیں۔
"امی ابھی یہ بات میں آپکو نہیں بتا سکتا۔ وقت آنے پر بتا دوں گا۔" اس کو سمجھ نہیں آرہا تھی کے وہ ان کو کیا جواب دے۔
"مگر تمھیں بتانا پڑے گا! ورنہ مسئلے ہوجائیں گے جہانزیب! تم مشکل میں پھنس جاؤ گے، جس سے نکلنا نہ ممکن ہوگا۔"
انہوں نے اسے بتایا۔
"آخرایسی کیا بات ہے؟ مجھے سمجھ نہیں آرہا!" وہ اب جذباتی ہوگیا تھا۔
فرح نے گہرا سانس لیا اور بہت مشکل سے یہ بات اس سے کہی۔
"تمہارے ابو نے تمہرا رشتہ تمہاری کزن زہرا سے طے کرنے کا سوچا ہے۔ اور وہ اس بات سے کبھی نہیں ہٹیں گے کیوںکہ وہ جانتے ہیں کے تم ان کی بات کو کبھی رد نہیں کرو گے۔" یہ الفاظ کسی تیر کی طرح اس کے دل پر لگے تھے۔ اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی۔
اس کا دل بند ہونے لگا تھا۔
"کیا! مگر یہ نہ ممکن ہے! نہ ممکن!" وہ زور سے چلایا تھا۔
وہ سردی سے بچنے کے لئے آج گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ باہرسرد ہوائیں چل رہی تھیں اور رات میں برف باری کی پیشن گوئی تھی۔ یوں تو وہ اپنی کمپنی کا سی ای او تھا اور اس کے جانے اور نہ جانے پر کسی کا زور نہیں تھا مگر وہ ضروری میٹنگز کبھی نہیں چھوڑتا تھا۔
فلیٹ میں اکیلے زندگی گزارنے کی عاشرکو عادت ہوگئی تھی۔ انسان کی زندگی میں بہت سے اسے موڑ آتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں اس اکیلے پن کو اپنا لیتا ہے۔ کافی ٹیبل پر رکھی ٹھنڈی ہورہی تھی۔ بچپن سے ہی اسے بلیک کافی پسند تھی۔ وہ بند کھڑکی سے باہر کا جائزہ لے رہا تھا۔ اسے آج اپنے وطن کی بہت یاد آرہی تھی اور وہاں کے لوگ خاص طور پر بابا جان کی۔ وہ پھر ایک گہرا سانس لے کرآہستہ سے صوفے پر بیٹھ گیا۔
ٹیبل پر پڑی تصویر پراسکی نظر پڑی۔ وہ تصور شیزہ کی تھی جو وہ اپنے ساتھ لندن لے آیا تھا۔ وہ اس دن کی تصویرتھی جب وہ دادی جان سے ملنے اسلام آباد گیا تھا۔ نارنجی کالر کی فراک میں اسکا چہرہ کھل رہا تھا۔ بال آگے کی طرف، معصوم چہرہ وہ کبھی نہیں بھولا تھا۔
شیزہ کی اسے بہت یاد آتی تھی مگر اس نے کبھی اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ موبائل پر کال آرہی تھی۔ نمبر بابا جان کا تھا۔
"ہیلو! اسلام و علیکم بابا جان۔" اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
"وعلیکم اسلام! بھئ کیسا ہے میرا بیٹا؟ وہاں جا کر تو بھول ہی گئے ہو ہمیں!" انہوں نے محبت بھرے انداز میں شکایت کی۔
"ایسی بات نہیں ہے بابا جان۔ بس میٹنگز میں بزی تھا ورنہ آج میں آپکو کال کرنے والا تھا۔" اس نے بتانا چاہا۔
"ارے بیٹا! کوئی بات نہیں اور بتاؤ کیسا چل رہا ہے وہاں؟ ٹھیک ہو تم؟" انہوں نے پوچھا۔
"جی میں ٹھیک ہوں۔ آجکل یہاں کافی سردی ہوتی ہے۔ آپ بتائیں آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟ ماما جان کیسی ہیں؟" اس نے خیریت دریافت کی۔
"بس ٹھیک ہی ہیں تمھیں بہت یاد کرتی ہیں۔" انہوں نے افسردہ لہجے میں کہا۔
"اور مہرین تو ٹھیک ہیں نا؟" اس کو مجبوراً پوچھنا ہی پڑا۔
"بس بیٹا وہ تو ہمارے لئے آزمائش ہی ہے۔" ان کی آواز بھرآئی تھی۔
"بابا جان کیا ہوا ہے؟ آپ بتائیں مجھے!" وہ پریشان ہوگیا تھا۔
"بیٹا میں بہت پریشان ہوں۔ تم سے ایک کام بھی ہے۔" انہوں نے اسے بتایا۔
"آپ حکم کریں بابا جان! بتائیں مجھے۔" عاشرنے جواب میں کہا۔
"بیٹا بات یہ ہے کے فلحال میرے اکاؤنٹ میں ڈالرز نہیں ہیں۔ تم مہرین کے اکاؤنٹ میں بھیج دو۔ اسکا مسئلہ حل ہوجائے تو ہم بھی سکون کا سانس لیں گے۔" ان کا لہجہ ابھی بھی دبا ہوا تھا۔
"بابا جان آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ جتنے بھی ڈالرز ان کے اکاؤنٹ میں بھیجوانے ہیں آپ بتائیں میں فوراً کرتا ہوں۔" اس نے بتایا۔
"میں میسج پر بتا دوں گا۔ اللّه تمھیں خوش رکھے۔ بس دعا کرنا کہ وہ جلد آجا ئے۔" بابا جان نے عاشر سے کہا۔
"وہ جلد ہی آیئں گی انشاء اللّه آپ پریشان نہ ہوں۔" اس نے بتایا اور پھر فون بند کردیا۔ اس نے بابا جان کی پریشانی کا سوچ کر آنکھیں بند کر لیں۔
•••