اسکی بند آنکھيں آہستہ آہستہ کھل رہی تھيں۔ وہ اس قدر مضبوط اعصاب کا مالک تھا کہ وہ دوائ جس کے بے ہوش ہونے پر لوگ کئ گھنٹوں بعد ہوش ميں آتے ہيں۔ اس کے مضبوط اعصاب کی وجہ سے وہ فقط چار گھنٹوں ميں ہی ہوش ميں آچکا تھا۔
مندی مندی آنکھوں کو اب پوری طرح کھولے اس نے اردگرد ديکھا۔
وہ کرسی پر بيٹھا تھا۔ پاؤں کرسی کی ٹانگوں کے ساتھ اور ہاتھ اسکی پشت پر لے جا کر باندھے گۓ تھے۔
چند منٹ وہ ہاتھوں کو دائيں بائيں ہلاتا رہا۔
مگر بے سود۔ وہ نہتا ہو کر بھی اتنا نہتا نہيں تھا جتنا اس کو اغوا کرنے والے نے سمجھ رکھا تھا۔
اسکی گھڑی پر بآسانی اس جگہ کی ٹريسنگ ہوسکتی تھی جہاں وہ موجود تھا۔
اور اس کا باس کوئ عام شخص نہيں۔ نامی گرامی شہنشاہ عرف نائل تھا۔
سميع کو اغوا کرنے والے نے اپنی شامت کو آواز دے دی تھی۔
اور اسے اغوا کرنے والا کوئ اور نہيں وقار تھا۔
ابھی وہ اپنے دماغ کے گھوڑے دوڑا ہی رہا تھا کہ دروازہ زوردار ٹھوکر سے کھولا گيا۔
وقار غضبناک چہرے سميت اندر آچکا تھا۔
"مجھے پاگل سمجھا تھا تم نے؟" دروازہ واپس اتنے ہی زور دار طريقے سے بند کرکے وہ غرايا۔
سميع خاموش تھا۔ اب اسے خاموش ہی رہنا تھا۔ کيونکہ اس جگہ جہاں وہ بيٹھا تھا نہ وہ کسی کا بھائ تھا۔۔ نہ کسی کا بيٹا اور نہ ہی دوست وہ صرف اپنے ملک کا محافظ تھا۔
اور ايسی صورتحال ميں ملک کے محافظ اپنا تن ۔ من ۔دھن سب اس دھرتی پر وار ديتے ہيں۔ مگر اس دھرتی پر آنچ نہيں آنے ديتے۔
"تم سمجھتے تھے کہ ميں جان نہيں پاؤں گا کبھی اور تمہارے ہاتھوں کٹھ پتلی بنتا رہوں گا" وہ چيخ رہا تھا۔ چلا رہا تھا۔
غصے سے پاگل ہورہا تھا۔ اور جھوٹوں۔۔سازشوں اور ملک دشمن عناصر کے پاس بے نقاب ہونے کے بعد سواۓ غصہ اور چيخ چلا کر سچ کو دبانے کے سوا کچھ نہيں ہوتا۔ وقار بھی اس لمحے وہی کر رہا تھا۔
اور محافظ خاموش تھا۔
"اب بھونکو گے يا نہيں۔۔ تم ايجنسی کے پالتو کتے۔۔ مجھے۔۔ وقار ملک کو جيل بھجوانے کی غلط فہمی ميں مبتلا تھے" اب کی بار اسکے بال مٹھی ميں جکڑے وہ جھنجھوڑ رہا تھا۔
سميع نے ايک غصيلی نظراس پر ڈالنے کے سوا اب بھی کچھ نہيں کہا تھا۔
وقار اسکی خاموش پر اور بھی طيش ميں آگيا۔ گھما کر ايک الٹے ہاتھ کی چپيڑ اتنے زور سے اسکے منہ پر ماری کہ اس کا ہونٹ پھٹ گيا۔ مگر وہ کرسی سميت ٹس سے مس نہ ہوا۔
اس سے پہلے کہ وہ مزيد مارتا يکدم کھڑکی پر ٹھک ٹھک کی آواز گونجی۔
وقار چوکنا ہوا۔
سميع اس آواز پر مسکراۓ بغير نہيں رہ سکا۔
ايک بار پھر ٹھک ٹھک کی آواز گونجی۔
"ابے کون ہے؟" وہ غصے ميں پھر سے چلايا۔ کيونکہ کھڑکی مقفل تھی۔ اس کا کوئ بندہ ايسی جرات نہيں کرسکتا تھا۔
يکدم خاموشی چھا گئ۔
وقار پھر سے سميع کی جانب مڑا۔ شايد ہوا تھی۔ وہ يہی سمجھا۔
مگر وہ جانتا نہيں تھا کہ يہ ہوا نہيں طوفان کی آمد تھی۔
"کس کے لئے کام کرتا ہے۔ سيدھی طرح بتا دے۔ کل تک اسکی وردی اور رتبے کا نشہ نہ اتارا تو ميرا نام بھی وقار نہيں" وہ پھر سے سميع کے بال مٹھی ميں جکڑے اس کا چہرہ اونچا کئے آنکھيں نکال کے بولا۔
يکدم پھر سے کھڑکی بجی۔
"ابے ميں کہتا ہوں کون۔۔(گالی) ہے" وہ غصے سے کھڑکی کے قريب گيا پردہ غصے سے ہٹايا تو کھڑکی کھولے کوئ لمبے بالوں والا ہيبت ناک انسان موجود تھا۔ بڑی بڑی داڑھی اور مونچھوں ميں۔۔
وقار يکدم لڑکھڑايا۔ کھڑکی کيسے کھل گئ۔۔
"تت۔۔ تم کون ہو۔۔ کيسے کھڑکی کھولی" وہ گھبرايا۔
"رشيد۔۔ شوکی۔۔ ذکا۔۔" وہ يکدم اونچی آواز ميں اپنے بندوں کو آوازيں دينے لگا۔
"ابے ۔۔تيرا باپ آيا ہے۔۔ اندر تو آنے دے۔ کوئ سلام تو پيش کر ميری خدمت ميں۔" بھاری مگر کسی قدر غنڈوں جيسی بولی بولتا وہ کھڑکی پھلانگ کر اندر آگيا۔
وقار نے تيزی سے اپنی پينٹ کی جيب سے ريوالور نکالی۔
"ايک قدم بھی آگے بڑھايا تو بھون کے رکھ دوں گا" ريوالور کا رخ اسکی جانب کئے وقار اونچی آواز ميں بولا۔
مگر سامنے والے کو تو جيسے کوئ فرق ہی نہ پڑا۔
"بيٹا ۔۔ ان کھلونوں سے شہنشاہ کو ڈرانے کی ناکام کوشش نہيں کرتے" وہ اسے پچکار کر بولا۔
اب اس کا رخ سميع کی جانب تھا۔
"يہ تھپڑ کس نے مارا ہے تمہيں" اب وہ سميع سے مخاطب تھا۔
وقار نے اسے خوفزدہ نہ ديکھ کر گولی چلائ۔
مگر شہنشاہ نے پھرتی سے جھکائ دے کر نہ صرف اسکی کوشش ناکام کی بلکہ نيچے بيٹھتے ہوۓ ايک ٹانگ گھما کر اسکے پيٹ پر اس زور سے ماری کہ وہ دور جاگرا۔
وقار کو اندازہ نہيں تھا کہ وہ اتنا چوکنا انسان ہے۔
وقار نے اس کا نام بہت سن رکھا تھا۔ انڈر ورلڈ کی دنيا سے شہنشاہ کا تعلق تھا۔
مگر وہ اسکے پيچھے کيوں پڑا تھا اور کيا سميع اس کا بندہ تھا؟
شہنشاہ کی ايک ہی ٹانگ کھانے کے بعد اس کا دماغ صحيح سمت چلنے لگا تھا۔
پيٹ پکڑے وہ شہنشاہ کو سميع کے ہاتھ پاؤں کھولتے ديکھ رہا تھا۔
پھر جيب سے رومال نکال کر اس نے سميع کے ہونٹ سے رسنے والا خون صاف کيا۔
"اس نے ہاتھ اٹھايا تم پہ؟" اب وہ تيکھی نظروں سے وقار کو ديکھ رہا تھا۔
"باس جانے ديں" سيمع يقينا اس کے غضب سے واقف تھا لہذا اسے اس موضوع سے ہٹانا چاہا۔
"نہيں بيٹا ايسے کيسے جانے دوں" وہ غضب ناک تيور لئے وقار کی جانب آيا۔
"بات سنو۔۔ شہنشاہ۔۔ پہلے ميری بات سنو" وہ سرعت سے پيچھے ہوتا ديوار کے ساتھ لگا۔
"چل سنا۔۔ کيونکہ اسکے بعد ميں نے تجھے کچھ کہنے کا موقع نہيں دينا" شہنشاہ نے ايسے کہا جيسے پھانسی کے وقت بندے کو آخری خواہش کہنا کا موقع ديا جاتا ہے۔
"تت۔۔ تمہارا اور ميرا ۔۔ تو کبھی آپس ميں آمنا سامنا نہيں ہوا۔ پھر تم مجھ سے کس بات کی دشمنی نکال رہے ہو۔ ميرے پيچھے اپنا بندہ کيوں لگا رکھا ہے۔ کيونکہ ميں تو سميع کو ايجنسی کا بندہ سمجھا تھا۔
اسی غلط فہمی ميں اٹھايا تھا۔ اگر يہ تمہارا بندہ ہے تو لے جاؤ۔ مگر تم نے اسے ميرے پيچھے کيوں لگايا؟" وہ شديد کنفيوز تھا۔ شہنشاہ کی دشمنی کے اس نے بہت سے واقعات سن رکھے تھے۔ وہ جتنا اچھا ڈان تھا۔ اس سے کہيں برا دشمن تھا۔ اور وہ اس سے دشمنی مول نہيں لينا چاہتا تھا۔
"تيرے خيال ميں ۔۔ ميں اتنا ہی اچھا ہوں کہ تو پوچھے گا اور ميں سب الف سے يہ تک تيرے گوش گزار کردوں گا۔ تيرے اور تيرے خاندان کے شہنشاہ پر بہت سے قرض تھے جو اب چکانے کا وقت آگيا ہے۔ ميں تيری سوچ سے بہت اوپر کی چيز ہوں۔
لہذا اپنا ننھا سا دماغ ان سوچوں ميں ضائع مت کر"
شہنشاہ استہزائيہ ہنسا۔۔
پھر يکدم بپھر کر اسکے قريب آيا۔ گريبان سے پکڑ کر اس سے کہيں زور دار تھپڑ اسکے منہ پر مارا جو اس نے سميع کو مارا تھا۔
"يہ ميرے عزيز ترين بندے کو ہاتھ لگانے کا نتيجہ" اوندھے منہ گرے وقار کے قريب تھوکتے ہوۓ شہنشاہ غرا کر بولا۔
"اور تيرے باقی کے سوالوں کے جواب بہت جلد تيرے منہ پر مارنے عدالت آؤں گا۔ اب اگلی ملاقات وہيں ہوگی" سميع کا ہاتھ تھامے وہ اسی کھڑکی کے راستے اندھيرے ميں کہاں اور کس طرف گيا۔
جتنی دير ميں کراہتا ہوا وقار کھڑکی کے پاس آيا وہ دونوں اندھيرے ميں گم ہو چکے تھے۔
اسکا نہ صرف پورا گال جل رہا تھا بلکہ آدھا ہونٹ پھٹ چکا تھا۔
وہ ہونٹ پکڑے نيچے آيا۔
آخر اس کے سب بندے کہاں مرگۓ تھے۔
کسی کو ہوش نہيں تھا کہ کيا کچھ ہوگيا ہے۔
وہ غصے سے باہر آيا تو ديکھا سب کے سب بے ہوش پڑے ہيں۔ اور ايا ڈاٹ سا ان کی گردنوں ميں لگا ہے۔
وقار نے ايک کی گردن سے وہ ڈاٹ نکالا تو اس پر کوئ محلول لگا تھا۔
وہ شايد بے ہوش کرنے والی کوئ دوائ تھی۔
وہ غصے سے وہ ڈاٹ پھينک کر کھڑا ہوا۔ سامنے پڑی ٹيبل کو زوردار ٹھوکر ماری۔ اس کا سارا پلين تباہ ہوگيا تھا۔
دو دن بعد اب اسکی پيشی تھی۔ اور اسی پيشی پر اس کا فيصلہ ہونے والا تھا۔
_________________________
"تم کہاں تھے جب اس نے تمہيں اغوا کيا" نائل اب گاڑی ميں بيٹھا شہنشاہ والے حليے سے چھٹکارا پا چکا تھا۔
سميع کے ہونٹوں پر دوائ لگاتے وہ پوچھ رہا تھا۔
"ميں فاران کو وہ دونوں فارنرز اور وہاج کے بيٹے کے پاس لے جانے کے لئے نکلا تھا۔ تاکہ پرسوں والی پيشی کے لئے انکی گواہی بھی لی جاسکے مگر نجانے کس وقت اس نے اپنا ايک اور بندہ ميرے پيچھے لگايا۔
گاڑی ميں بيٹھ کر کچھ دير ميں ہی مجھے معلوم ہوگيا تھا کہ کوئ ميرے پيچھے لگا ہے۔ ميں نے کافی ڈاج ديا۔
مگر ايک جگہ ميری گاڑی مڑی وہاں شايد اس کا بندہ مجھے جان بوجھ کر لے کر گيا۔ کيونکہ سڑک پر کيل بچھاۓ ہوۓ تھے۔
بس وہيں ميری گاڑی پنکچر ہوئ۔ اور جب تک ميں گاڑی کو سنبھالتا اس کا بندہ مجھ تک پہنچ گيا۔
اور اتنی ہی دير ميں کوئ اسپرے ميری جانب کيا کہ ميں بے ہوش ہوگيا" سميع نے ساری تفصيل بتائ۔
"ہمم۔ خير رفيق کو جيسے ہی سگنل ملے اس نے فورا مجھے کال کردی۔اور ميں اسی لمحے نکل آيا" نائل نے بھی اپنے پہنچنے کی تفصيل بتائ۔
"ہاں مجھے اطمينان تھا کہ آپ پتہ چلتے ہی نکل آئيں گے۔ اگر آپ تب تک نہ پہنچتے تو ميں گھڑی ميں سے بليڈ نکال کر ہاتھوں کی رسی کاٹ ليتا" يہ طريقہ بھی نائل نے اسے بتايا تھا۔
اسکی گھڑی ميں ايک چھوٹی سی پاکٹ ميں نائل نے بليڈ رکھوايا تھا۔ اور اسی طرح کی ہر گھڑی اسکی ٹيم کے سب بندوں کے پاس تھی۔ جسے وہ ہمہ وقت پہنتے تھے۔
ان کی جاب کی نوعيت کے حساب سے کوئ پتہ نہيں ہوتا تھا کون کب انہيں اغوا کروا لے تو کم از کم بچنے کے جتنے طريقے ہوسکتے تھے انہوں نے وہ سب اپنے قريب رکھے ہوتے تھے۔
"ہاں اس کا تو مجھے بھی اطمينان تھا۔ مگر اس وقت ميں اس کے پاس اپنی کوئ کمزوری نہيں دے سکتا۔" نائل نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"آئ نو سر" سميع بھی جانتا تھا۔
يہ دو دن ان کے لئے بے حد اہم تھے۔
___________________
کھانے کے بعد معمول کے مطابق يماما نائل کی اسٹڈی روم ميں کافی کا مگ لے کر آئ۔ آجکل وہ بہت زيادہ مصروف ہوگيا تھا۔
"تھينکس ۔۔بيٹھو تم سے کچھ بات کرنی ہے" نائل اس لمحے بے حد سنجيدہ دکھائ دے رہا تھا۔
"کل وقار اور وہاج کے کيس کی سماعت ہے" اسکی بات پر يماما چونکی۔
"کل صبح دس بجے ايک کالے شيشوں والی گاڑی تمہيں کورٹ تک پہنچا دے گی۔
تم نقاب ميں وہاں جاؤ گی۔ اور ميں ايک سيکورٹی گارڈ کے روپ ميں تمہارے ساتھ ہوں گا۔ ہم کورٹ ميں موجود رہيں گے۔ ميرا ايک بندہ سميع بھی وہاں ہوگا۔ ميں نے مختلف جگہوں سے وقار اور وہاج کے لئے مختلف گواہ ڈھوںڈے ہيں۔ اور ان سب کو اپنی قيد ميں رکھا ہوا ہے۔
ان سب گواہوں کے بعد آخری گواہ تم ہوگی۔ فاران اس کيس کو اب ہينڈل کررہا ہے جو تمہارے مرنے کی جھوٹی خبر کے باعث ادھورا رہ گيا تھا" پرت در پرت بہت سی حقيقتيں وہ يماما پر کھول رہا تھا۔
وہ حيران بس اسے سن رہی تھی۔
"اور پھر تمہارے مرنے والے کيس ميں وقار نے جس بندے کو تمہارے پيچھے لگايا تھا اور جس نے تمہاری گاڑی کو ٹکر ماری تھی۔ وہ بھی پيش ہوگا۔ اور اس کے پيش ہونے کے بعد ميں تمہيں پيش کروں گا۔
تم نے ايک ايک حقيقت ہماری فيملی کے بارے ميں بھی وہاں کھولنی ہے۔ وہ سب پيپرز ميں تمہيں دوں گا۔ تم نے وہ کورٹ ميں پيش کرنے ہيں۔ ہاں مگر مجھے وہاں پوائنٹ آؤٹ نہيں کرنا اور نہ ہی يہ بتانا ہے کہ تمہاری فيملی ميں تمہارے علاوہ ميں بھی زندہ ہوں۔
مجھے تم گمنام ہی رہنے دو گی۔ صرف اپنا بتاؤ گی کہ تم صرف زندہ ہو۔
تم سمجھ رہی ہونا" نائل بہت بڑی ذمہ داری اسکے سر ڈال رہا تھا۔ مگر يہی وقت تھا اسے پورا کرنے کا اور اپنے دشمنوں کو بے نقاب کرنے کا۔
آنکھوں ميں آنسو لئے وہ نائل کو ديکھ رہی تھی۔
"يماما۔۔ يہ آنسو کيوں آجاتے ہيں يار۔۔ پليز مجھے اپنی نڈر يماما کو ديکھنا ہے ہر لمحہ۔ مجھے ايسا کيوں لگتا ہے ميری وہ يماما کھوگئ ہے" نائل نے اسکے دونوں
کو مضبوطی سے اپنے ہاتھوں ميں جکڑا۔
"پتہ ہے نائل۔۔۔ منزل جب تک قريب نہ ہو۔۔ تب تک اسے قريب ديکھنے کے لئے انسان تگ و دو کرتا ہے اور اس تگ و دو ميں جذبات کہيں معدوم ہو جاتے ہيں۔ مگر جب منزل سامنے نظر آنے لگے تب سب سے پہلے تشکر کا اظہار کرتے آنسو ہی ساتھ دينے کو آگے بڑھتے ہيں۔
بس مجھے لگ رہا ہے ہماری منزل اب قريب ہی ہے" يماما کی بات پر نائل ہولے سے مسکرايا۔ عقيدت سے اسکے ہاتھوں پر اپنے پيار کی مہر ثبت کی۔
"ان شاءاللہ۔۔بس تم نے گھبرانا نہيں۔" نائل نے اس کا ہاتھ تھپتھپايا۔
"اچھا يہ تو بتائيں۔۔ ميری ہم شکل کہاں سے ڈھونڈی تھی" يماما نے آنسو پيتے بات بدلی۔ وہ نائل کو اب کبھی خود سے مايوس نہيں کرنا چاہتی تھی وہ جيسا چاہتا تھا وہ ويسی ہی رہنا اور بننا چاہتی تھی۔ لہذا ابھی سے آنسوؤں کو خيرباد کہہ ديا۔ انہيں گالوں پر گرنے نہيں ديا۔
"يار ميری ايک دوست ہے۔۔دوست بھی کيا۔۔ بس بہن سمجھ لو۔۔ بہت اچھی وہ بھی اسی يتيم خانے ميں تھی جہاں ميں تھا۔ اسکی شکل تم سے بہت ملتی ہے۔ بس تب سے وہ ميرے ساتھ ہے۔
ميری ٹيم ميں ہے۔۔ اور جب تمہيں اغوا کروانا تھا۔ تو تمہارا نعم البدل وہ لگی۔
اسے تھوڑا سا ميک اپ کرکے بالکل تمہاری طرح بنا ديا۔ " نائل مزے سے اپنی کارگزاری دکھا رہا تھا۔
"مجھے اس سے ملنا ہے" يماما نے اپنی خواہش ظاہر کی۔
"جلد ہی ملواؤں گا۔ اور اب کافی گرم کرکے لے آؤ۔ کيونکہ تمہيں ديکھنے کے چکر ميں کافی ياد ہی نہيں رہی" شرارتی نظروں سے اسے ديکھا۔
"مجھے ديکھنے کہ اپنی سٹورياں سنانے کے چکرميں" يماما نے آنکھيں دکھاتے کافی کا مگ اٹھايا۔
نائل کی شرارت پر مسکراتے ہوۓ باہر گئ۔
_______________________
اگلے دن صبح نائل اس سے پہلے ہی گھر سے جا چکا تھا۔ اسے نو بجے تک تيار ہونے کا آرڈر دے گيا تھا۔
شمس تو جانتے تھے مگر مہک کو بتايا گيا تھا کہ يماما کسی ضروری کام کے سلسلے ميں کچھ دير کے لئے باہر جاۓ گی۔
مہک کو کيا اعتراض ہو سکتا تھا۔انہوں نے گھر پر ہی رہنا تھا۔
يماما سادہ سا ميرون اور زنک کامبينيشن کا لباس پہنے بڑی سی چادر اپنے گرد لپيٹے تيار تھی۔
ناشتے کے نام پر اس نے فقط ايک چاۓ کا کپ ہی پيا تھا۔
"بيٹا صحيح سے لو نا۔ پتہ نہيں کب تمہاری واپسی ہو؟" مہک محبت بھرے انداز ميں سلائس اسکی جانب بڑھاتے ہوۓ بوليں۔
"نہيں آنٹی ابھی نہيں۔ ان شاءاللہ واپسی پر خوب سير ہو کر کھاؤں گی" يماما کے لہجے کی گہرائ کو مہک نہيں جان سکيں۔
"آنٹی۔۔" يماما چاۓ کے کپ سے آخری سپ ليتے مگ رکھتے يکدم مہک کو پکار اٹھی۔
"جی بيٹا" ممتا سے چور لہجے نے يماما کی آنکھوں کو آنسوؤں سے بھر ديا۔
يماما نے يکدم مہک کے دونوں ہاتھ تھام لئے۔
ڈائننگ ٹيبل پر وہ دونوں ساتھ ساتھ بيٹھی تھيں۔
مہک يماما کے انداز پر چونک گئيں۔
"دعا کيجئے گا ميں جس مقصد کے لئے جارہی ہوں اس ميں کامياب ہوجاؤں" کپکپاتے لبوں سے وہ بمشکل اتنا ہی کہہ سکی۔
مہک اسکے انداز پر ٹھٹھکيں۔
"کيا بات ہے ميرے بچے۔ کوئ پريشانی کی بات ہے" وہ پريشان ہو اٹھيں۔ جب سے نائل نے يماما سے محبت کا اظہار کيا تھا وہ انہيں اور بھی عزيز ہوگئ تھی۔
يماما آنسو پيتے لبوں پر مسکراہٹ سجاۓ نفی ميں سر ہلا گئ۔
"چھوٹے ہوتے جب بھی کسی خاص مقصد کے لئے گھر سے نکلتی تھی اماں سے کہتی تھی آپ دعا کريں آپ کی دعا سے ميں کامياب ہوجاؤں گی۔ مجھے لگتا ہے ماں کوئ بھی ہو کسی کی بھی ماں کے دل سے نکلی دعا ضرور پوری ہوتی ہے۔ بس اسی لئے آپ سے درخواست ہے کہ آپ ميرے لئے بھی ويسی ہی دعا کريں جيسی آپ نائل کے لئے کرتی ہيں" يماما انہيں بتا نہيں سکتی تھی کہ وہ اس کے لئے کيا ہيں۔ نائل کے حوالے سے وہ اسے عزيز ترين تھيں۔
"ميرا بچہ۔۔ اللہ تمہاری ہر جائز مراد بر لاۓ۔۔آمين" مہک اسکے معصوم سے انداز پر صدقے واری جاتيں محبت سے اسے ساتھ لگا کر خود ميں بھينچتيں صدق دل سے دعا دينے لگيں۔
"آمين۔" يماما نے بھی زير لب کہا
_________________
اسی لمحے باہر کسی گاڑی کا ہارن بجا۔
"مجھے لگتا ہے تمہيں گاڑی لينے آگئ ہے" مہک سے الگ ہوتے وہ چادر سنبھالتی رہائشی حصے سے نکل کر پورچ سے گزرتی باہر گيٹ پر آئ۔
گيٹ سے نکلنے سے پہلے وہ چہرے کو چادر سے نقاب کی صورت ڈھانپنا نہيں بھولی۔
ايک مسلح ڈرائيور دروازہ کھولے اس کا منتظر تھا۔
يماما گاڑی کے اندر خاموشی سے بيٹھ گئ۔
فرنٹ سيٹ پر ايک اور گارڈ بھی موجود تھا۔ ڈرائيور نے سيٹ سنبھالتے ہی گاڑی چلا دی۔
يماما نے ہاتھ ميں وہ فائل مضبوطی سے تھام رکھی تھی۔ جو صبح نائل اسکے کمرے ميں رکھ گيا تھا۔
اس ميں وہ سب ثبوت موجود تھے جن ميں صاف صاف واضح ہوتا تھا کہ وہاج اور سرتاج نے چںد سال پہلے يماما اور نائل کے گھر کو نذر آتش کر ديا تھا۔
نہ صرف ثبوت تھے۔ بلکہ ايک سی ڈی بھی موجود تھی جس ميں اس علاقے کے ان لوگوں کے بيان موجود تھے جو آگ لگانے ميں شامل تھے۔ اور اب وہ پوليس کی حراست ميں تھے۔
چند ہی منٹوں بعد وہ عدالت کے سامنے کھڑی تھی۔جيسے ہی گاڑی سے اتری اگلی سيٹ پر موجود سيکورٹی گارڈ حرکت ميں آيا۔
يماما کے نيچے اترتے ہی وہ بھی اسکے ہمقدم ہوا۔ يماما لمحہ بھر کو جھجھکی۔
"ميں ہر پل تمہارے ساتھ ہوں ڈئير۔گھبراؤ مت" سيکورٹی گارڈ کی بات سن کر يماما لمحہ بھر کو حيرت زدہ ہوئ۔
وہ کوئ اور نہيں نائل تھا۔ بالکل بدلے ہوۓ روپ ميں۔ گھنی مونچھيں اور خوبصورتی سے ترشی ہوئ داڑھی چہرے پر سجی تھی۔ آنکھوں پر کالے شيشوں والی عينک لگا رکھی تھی۔ چہرے کے خدوخال کو شايد ميک اپ سے بدل ديا گيا تھا۔ سياہ يوسيفارم ميں ہاتھ ميں گن اٹھاۓ سر پر ٹوپی پہنے وہ اس کا محافظ۔۔ اس کا نائل تھا۔
يماما کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھيلی۔
يکدم اندر باہر اطمينان بھر گيا۔
اعتماد سے قدم اٹھاتے چند لمحوں ميں کمرہ عدالت ميں موجود تھی۔
فاران اگلی نشستوں پر بيٹھا نظر آگيا۔
يماما کے چہرے پر ابھی بھی نقاب تھا اسی لئے کوئ اسے پہچان نہيں سکا۔
نائل اسے لئے خاموشی سے پچھلی نشستوں پر بيٹھ گيا۔
وہاج اور وقار دونوں اپنے وکيل کے ہمراہ موجود تھے۔
نائل اور يماما سے آگے کی دو رو چھوڑ کر تيسری ميں سيمع بھی موجود تھا۔ پوليس کے لبادے ميں نہيں۔ بلکہ گواہوں ميں سے جو يماما کے اغوا کئے جانے والے قصے کو کھولنے والا تھا۔
جج نے ابھی سماعت شروع نہيں کی تھی کہ فاران کو اپنے کندھے پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔ موڑ کر ديکھا تو سيمی موجود تھی۔
وہ حيران ہوا۔ اس نے فاران کو اپنے آنے کے بارے ميں باخبر نہيں کيا تھا۔
فاران کچھ کہنے لگا کہ اس نے ہونٹوں سے خاموش رہنے کا اشارہ کيا اور ايک فائل اسکی جانب بڑھائ۔ پھر اسکے کان کے قريب جھکی۔
"اس ميں چند اور راز ہيں۔اميد کرتی ہوں کہ جتنا سمجھدار وکيل ميں نے آپ کو جانا ہے۔۔ آپ اس سے بھی زيادہ سمجھداری کا مظاہرہ کرکے اس فائل ميں موجود رازوں کو بہت احسن طريقے سے آخری کيل کے طور پر اس کيس ميں ٹھونکيں گے۔
اور ہاں اس ميں دو اور گواہان کو پيش کرنے کا عنديہ بھی ہے۔ اميد کرتی ہوں ان دونوں کو پيش کرتے وقت آپ اپنے جذبات کو قابو ميں رکھيں گے۔" فاران کو وہ کيا کچھ کہہ رہی تھی اس کی سمجھ ميں کچھ نہيں آرہا تھا۔
ابھی سماعت شروع ہونے ميں چند منٹ رہتے تھے۔
سيمی اپنی بات مکمل کرکے وہاں سے جا چکی تھی۔
فاران حيرت کے زير اثر فائل کو کھول کر جلدی جلدی پڑھنے لگا۔
اور جو راز اس ميں کھلے۔ اسے اپنے جذبات پر قابو رکھنا واقعی ميں مشکل لگا۔
يماما جسے وہ سب مردہ سمجھے تھے وہ زندہ تھی۔ اور اسی عدالت ميں اس لمحے موجود تھی۔ کيونکہ آخری گواہ کے طور پر اسے ہی آنا تھا۔
فاران نے آنکھيں بند کرکے بمشکل اپنی آنکھوں ميں آنے والے آنسوؤں کو روکا۔
گردن موڑ کر پيچھے ديکھا۔ وہاں يماما کی صورت والی کوئ لڑکی موجود نہيں تھی۔ ہاں مگر ايک لڑکی گارڈ کے ساتھ کالی چادر ميں منہ پر نقاب کئے بيٹھی تھی۔
اسی لمحے يماما کی نظريں بھی فاران کی سمت اٹھيں۔
اور بس فاران سمجھ گيا يماما کہاں ہے۔
دونوں چںد لمحے ايک دوسرے کی جانب ديکھتے رہے۔
"يہ تمہارا صرف دوست ہی ہے نا؟" نائل نے خشمگيں نظروں سے فاران کو ديکھا۔
"نہيں۔۔ صرف دوست نہيں بہترين دوست ہے" يماما اسکی جيلسی پر مسکراہٹ ہونٹوں ميں دباۓ بولی۔
"اتنی محبت سے تم نے کبھی مجھے تو نہيں ديکھا" ايک اور شکوہ۔
فاران اب رخ موڑ چکا تھا اور يماما بھی رخ موڑے ايک مسکراتی نگاہ نائل کے چہرے پر ڈالے ہولے سے ہنسی۔
"جن سے محبت ہو انکی جانب تو نگاہ ہی نہيں اٹھتی" يماما کے اعتراف پر نائل نے چہرے پر آنے والی مسکراہٹ کو بمشکل ہونٹوں ميں دبايا۔
اسے لگا ہر سو اطيمنان پھيل گيا ہو۔
فاران کافی حد تک خود کو سنبھال چکا تھا۔
چند لمحوں ميں جج نے سماعت شروع کرنے کا حکم ديا۔ اور سب سے پہلے فاران کو بولنے کا موقع ديا۔
فاران کوٹ کے بٹن بند کرکے اٹھ کھڑا ہوا۔
"شکريہ سر"
"سر جيسے کہ آپ جانتے ہيں کہ ملک خاندان پہ بہت سے غلط کاموں ميں ملوث ہونے کے باعث چند اہم کيس شروع کئے گۓ ہيں۔
ان کيسز کے بہت سے ثبوت مہيا ہونے پر سرتاج ملک تو آج جيل کے پيچھے ہيں ہی۔مگر ان کے بيٹے اور بھائ بھی کسی صورت ان کيسز سے مبرا نہيں ہيں۔
کرپشن کے کيس کے علاوہ حال ہی ميں وہاج ملک پر دہشت گردوں کا ساتھ دينے اور انہيں غير قانونی طريقے سے ملک ميں آنے کی سہولت انہوں نے ہی مہيا کی" فاران کی بات ابھی پوری بھی نہيں ہوپائ تھی کہ سرتاج اور وقار کا وکيل چلا اٹھا۔
"جج صاحب يہ ميرے معقل پر الزام ہے۔۔ کرپشن سے نکل کر اب انہوں نے اور بھی الزام ميرے معقل پر تھوپنا شروع کردئيے ہيں" وہ غصے ميں فاران کو جھٹلا رہا تھا۔
"اتنے ہی يہ سچے ہيں تو ثبوت پيش کريں" وہ فاران کو چيلنج کرنے والے انداز ميں بولا۔
فاران ہولے سے مسکرايا۔
اور ايک جانب کھڑے پوليس افسران کے ساتھ نقاب ميں لپٹے تين ملزموں کا کپڑا ہٹانے کا اشارہ کيا۔
انکے چہرے سے کپڑے ہٹتے ہی سرتاج اور وقار کو لگا کہ زمين اور آسمان گھوم چکے ہيں۔ وہ کوئ اور نہيں
وہی دو غيرملکی اور سرتاج کا بيٹا تھا جنہيں نائل نے مشن کے طور پر اسکے فارم ہاؤس سے اٹھوايا تھا۔
"ميرا خيال ہے ميرے ساتھی وکيل کے معقل شايد ان ميں سے اب اپنے بيٹے کو بھی پہچاننے سے انکار کرديں گے" فاران نے بھنويں اچکا کر فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ سرتاج کی جانب ديکھا۔
جس پر گڑہوں پانی گر چکا تھا۔
"جج صاحب اگر آپ اجازت ديں تو ميرے يہ مجرم کٹہرے ميں آکر اپنا اپنا ريکارڈ کروائيں۔ تاکہ يہاں موجود ہر شخص کو يقين ہو جاۓ کہ اس خاندان کا دہشتگردی کے بہت سے واقعات ميں حصہ تھا" فاران کے کہنے پر جج نے ان تينوں کو باری باری کٹہرے ميں بلا کر ان کے بيان ريکارڈ کرواۓ۔
تينوں نے آکر اس بات کا باری باری اعتراف کيا کہ سرتاج کے کہنے پر چار سے پانچ اہم مقامات پر انہوں نے اپنے بندے خودکش حملے کے طور پر تيار کروا کر بھجيے تھے۔
"اور سر اسکے علاوہ يہ ان تينوں کو خفيہ طريقے سے چرس اور ہئيروئن سے بھرے ٹرکوں ميں چھپا کر بارڈر پار کروانا چاہتا تھا۔
اور بہت عرصے سے يہ بہت سے کالج اور يونيورسٹی کے طلبا اور طالبات کو چرس اور ہيروئن بھی فراہم کرتا ہے۔ اور اس بات کا ثبوت ميرا ايک اور گواہ دے گا" فاران کے کہتے ہی پوليس آفسرز نے ايک اور بندہ کٹہرے ميں لاکھڑا کيا۔
جو کوئ اور نہيں وہی پٹھان تھا جس کے گھر يماما اور نائل ايک رات رہے تھے۔
"صاحب يہ پچھلے پانچ سال سے ميرے ساتھ کام کرتا ہے۔ صاحب مجھے معاف کردو۔ ميں پيسوں کی خاطر اسکی باتوں ميں آگيا۔ مگر اب ميں ايسا کبھی نہيں کروں گا۔ ہم غريب لوگ تھے۔ جنہيں اس نے ان کاموں پر مجبور کيا۔اور پھر پيسوں کے لالچ ميں ہم نے اس کا غلط کاموں ميں ساتھ ديا۔" وہ ہاتھ جوڑے سب اعتراف کرتے کرتے معافی مانگ رہا تھا۔
"يہ يہ غلط کہہ رہا ہے۔ سب جھوٹ ہے جج صاحب۔ يہ ان بندوں کو چںد پيسے دے کر گواہ بنا کر لايا ہے" سرتاج اور وقار کا وکيل پھر سے انہيں جھٹلانے لگا۔
"ٹھيک ہے اگر يہ جھوٹ ہے تو يہ فون کالز سن لو" فاران نے کہتے ساتھ ہی ايک ريکارڈنگ اونچی آواز ميں لگا دی۔
کمرہ عدالت ميں پہلے ہی خاموشی تھی موبائل کے ساتھ اس نے ايک پورٹيبل اسپيکر لگايا ہوا تھا۔ جس کی بدولت پورے کمرہ ميں آواز گونجنے لگی۔
"ہيلو"
"جی استاد"
"ايک کام کرو۔ جو چرس اور ہيروئن کا ٹرک تم بارڈر کے اس پار بھيج رہے ہو۔ اس ميں ميرے دو غير ملکی دوست بھی ہيں انہيں بھی کسی طرح بارڈر پار کروا دو۔
ميرے بيٹے کے پاس ہيں وہ دونوں۔ وہاں سے ميرا ايک بندہ انہيں تم تک پہنچا دے گا۔ آگے کا کام تمہارا ہے"
"استاد فکر ہی نہ کريں۔ بڑے آرام سے ميں انہيں بارڈر پار کروا دوں گا"
"ٹھيک ہے شاباش" پورے کمرے ميں سرتاج اور اس پٹھان کی آواز گونج رہی تھی۔
"اگر اب يہ اپنی آواز پہچاننے سے بھی انکار کرديں گے تو سر آپ ہی بتائيں کيا کيا جاۓ" فاران نے سرتاج پر طنز کيا۔
"آپ کے پاس اپنی صفائ ميں کہنے کو کجھ ہے" جج کا رخ اب دوسرے وکيل کی جانب تھا۔
"يہ سب بے بنياد ہے" سرتاج چلايا۔
"ثبوت کو آپ بے بنياد کيسے کہہ سکتے ہيں۔اگر آپ سچے ہيں تو اپنی سچائ کا ثبوت پيش کريں" جج نے سيدھا سا حل نکالا۔
مگر وہ جانتے ہی نہيں تھے کہ وہ کس کے شکنجے ميں پھنسے ہيں۔
نائل۔۔۔۔۔وہ بلا تھی جس کی سوچ تک اس کا کوئ دشمن کبھی رسائ نہيں پاسکا تھا۔
وہ ايسے ايسے کارڈ کھيلتا تھا کہ سب کی سب بازی ہی الٹ جاتی تھی۔ اور جيت اسی کے حصے ميں آتی تھی۔
"اور ميرا آخری گواہ۔۔ جسے وقار ملک نے اس تمام قصہ کے شروع ہوتے ہی مروانے کی سازشيں اختيار کيں۔
کچھ عرصے پہلے ايک کار حادثے ميں اسے مروا بھی ديا گيا۔
مگر افسوس۔ موت اتنی ہی آسان ہوتی تو ہر شخص اپنے دشمن کو اتنی ہی آسانی سے مار ديتا۔
مگر موت برحق ہے اور جب تک اللہ نہ چاہے واپسی کا بلاوا آہی نہيں سکتا۔
ميری آخری گواہ۔۔۔۔۔"فاران نے چںد پل رک کر وقار کا زرد پڑتا چہرہ ديکھا۔
اور پھر پيچھے مڑ کر کالی چادر ميں موجود يماما کو آگے آنا کا اشارہ کيا۔
اس کی نظريں بے اختيار نائل کی جانب اٹھيں۔
نائل نے سامنے ديکھتے ہولے سے اسکے ہاتھ کو اپنے بائيں ہاتھ سے چھو کر جانے کا عنديہ ديا۔
يماما ہولے سے فائل کو سينے سے لگاۓ اٹھی۔ کالی چادر اب چہرے سے ہٹا دی تھی۔
اس کے ہر اٹھتے قدم ميں دشمن کو رود دينے والا عزم تھا۔
ہولے سے وہ کٹہرے ميں کھڑی ہوئ۔ اپنی پراعتماد فاتح نظريں وقار کے پتھريلے چہرے پر ٹکائيں۔
"ميں يمامانائل۔۔وہ وکيل تھی جس نے يہ کيس شروع کيا تھا۔ يہ کيس اسی لئے شروع کيا تھا۔ کہ بہت سال پہلے اس خاندان نے ميرے خاندان پر ظلم اور بربريت کا وہ پہاڑ توڑا تھا کہ ميں نے اپنا ہر رشتہ کھو ديا۔
ميرے جان سے پياروں کو زندہ جلا ديا گيا۔ صرف اسی لئے کہ انہوں نے سر اٹھا کر جينے کی خواہش کی تھی۔
جب اللہ نے ہر انسان کو برابر کہہ ديا پھر يہ فرعون کون ہوتے ہيں لوگوں کو خدا بن کر اپنے پيروں تلے روندنے والے۔ انہيں کيڑے مکوڑے سمجھ کر انکی زندگيوں کا فيصلہ کرنے والے۔"
يماما کی آنکھوں ميں چمک تھی اور لہجہ چير دينے والا۔
"سر آپ مجھے بتائيں۔ آپ تو اس انصاف کے منسب پر فائز ہيں۔ وکيل بنتے ہی ہميں يہ سکھايا جاتا ہے کہ انصاف کرنا ہے۔ حقدار کو اس کا حق دينا ہے۔
پھر ان بڑے بڑے وزيروں کے پاس ايسا کون سا اختيار ہے کہ يہ کسی غريب کی اولاد کو اس کا حق نہيں دينے پر تيار۔ اور اگر کوئ انکی مرضی کے خلاف جاۓ تو يہ اسے مسل کر رکھ ديتے ہيں۔
ميری کہانی ايک عام سی کہانی ہو شايد مگر ميرے لئے وہ اتنی خاص تھی کہ ميں نے اپنی تمام زندگی اسی پر تياگ دی کہ ان حوس کے مارے پجاريوں کو ايک نہ ايک دن انکے کئے کی سزا دلواؤں گی۔ اور وہ سب لوگ جو اب بھی انکے ظلم کا شکار ہيں انہيں رہائ دلواؤں گی۔۔" يہ کہتے ہی يماما نے الف سے يہ تک اپنے خاندان پر ہونے والے ظلم کی ايک ايک بابت بيان کی۔
"يہ تمام ثبوت موجود ہيں۔ وہ لوگ جنہوں نے ميرے گھر کو اس رات نذر آتش کيا تھا وہ پکڑے جا چکے ہيں۔ اور اپنے اپنے تماما بيانات اس ميں ريکارڈ کروا دئيے ہيں۔
اس وقار ملک نے مجھے دھمکياں ديں۔ ميرے آفس آکر مجھے ڈرايا۔ اور پھر مجھے مروانے کا منصوبہ بنايا۔
مگر ايجنسيوں ميں موجود محافظوں نے مجھے بچا ليا۔ اور کيسے بچايا۔ اس کا بيان سميع ارشد آپ کو بتائيں گے" يماما نے کٹہرے سے باہر آتے کہا۔
سميع اپنی سيٹ سے اٹھ کر اب کٹہرے ميں آچکا تھا۔
اور پھر وقار کی ايک ايک اصليت کو کھول کر پيش کيا۔
بہت ساری فوٹيجز بھی مہيا کيں۔ نہ صرف يہ۔
بلکہ جس بندے کو وقار نے اس دن يماما کے پيچھے لگايا تھا اسے بھی گواہ کے طور پر پيش کيا۔
تماما بيانات سننے کے بعد جج نے اپنا فيصلہ تيار کيا۔
" ان تمام گواہان اور ثبوتوں کے پيش ہونے کے بعد عدالت اس نتيجے پر پہنچی ہے کہ نہ صرف ملک خاندان کے سب اثاثے ضبط کر لئے جائيں گے۔ بلکہ سرتاج کو دہشتگردی کے کيس ميں ملوث ہونے کے سبب پھانسی کی سزا سنائ جاتی ہے ۔ اور وقار کو عمر قيد کی سزا دی جاتی ہے۔" يماما نائل کے ساتھ بيٹھی دم سادھے يہ فيصلہ سن رہی تھی۔
جج کی بات مکمل ہوتے ہی وہ چہرہ ہاتھوں ميں چھپاۓ رو پڑی۔
نائل نے آنسوؤں کو بڑی مشکل سے پيا۔ آج اس لمحے يقينا انکا خاندان ان دونوں پر رشک کررہا ہوگا۔
نائل نے يکدم سر اٹھا کر اوپر ديکھا۔
اس لمحے اللہ کا شکر ادا کرنے سے بڑھ کر اور کچھ نہيں تھا۔ جس نے ہر لمحہ اسے ہمت حوصلہ ديا۔ اسکی مدد کی۔
يکدم ايک بھاری ہاتھ اسکے کندھے پر ٹہرا۔
نم آنکھوں سے بھی وہ مسکرا ديا۔ ايک بار پھر اللہ کا شکريہ ادا کيا۔ کہ اسکے حقيقی ماں باپ کے کھونے پر بھی اس نے شمس اور مہک جيسے ماں باپ اسے عطا کرکے اسے اکيلا نہيں ہونے ديا۔
وہ کندھے پر ٹہرے اس ہاتھ کے لمس سے بہت اچھے سے واقف تھا۔
شمس کے سوا کون ہو سکتا تھا۔
انکے بيٹے کی زندگی کا سب سے اہم فيصلہ ہورہا تھا وہ کيسے اس لمحے اسے اکيلا چھوڑ ديتے۔
نائل نے باياں ہاتھ اپنے دائيں کندھے پر رکھے انکے ہاتھ پر ٹکايا۔
انہوں نے وہی ہاتھ تھپتھپا کر گويا اسے مبارک دی۔
اور پھر وہاں سے چلے گۓ۔
اب گھر جاکر شکرانے کے نفل بھی تو پڑھنے تھے۔ اور مہک کو بھی بتانا تھا کہ انکی بہو کوئ اور نہيں يماما ہی ہے۔
"چلو" نائل نے اپنے پاس بيٹھی روتی ہوئ يماما کو مخاطب کيا۔
اس سے پہلے کہ وہ چہرے سے ہاتھ اٹھا کر کچھ کہتی۔
فاران انکے قريب آچکا تھا۔
"يماما" پھڑپھڑاتے لبوں سے وہ بمشکل اتنا ہی کہہ سکا۔
يماما اسے ديکھ کر ايک بار پھر آنسو بہاتی۔ کھڑی ہوئ۔
اب کی بار وہ اسکے کندھے سے لگ چکی تھی۔
نائل جانتا تھا کہ فاران اور اسکی فيملی يماما کے لئے وہی مقام رکھتے ہيں جو شمس اور مہک اسکے لئے رکھتے ہيں۔
لہذا چپ چاپ بيٹھا رہا۔
فاران کا چہرہ بھی آنسوؤں سے تر ہوچکا تھا۔
"تمہيں کس قدر مس کيا ہم نے۔ تم اندازہ بھی نہيں کرسکتيں" يماما اسکے کندھے سے ہٹی تو وہ کچھ بولنے کے قابل ہوا۔
"يہ سب ضروری تھا" يماما نے آنسو صاف کرتے فاران کے نم چہرے کی جانب ديکھا۔
"ہاں اب مجھے اندازہ ہوگيا ہے۔ يہ سب نہ ہوتا تو يہ اس طرح بے نقاب نہ ہوتے۔ تمہيں بہت بہت مبارک ہو۔ آج تمہارے دشمن اپنے انجام کو پہنچے"
"صرف ميرے نہيں فاران۔ ميرے ملک کے دشمن۔ مجھے سب سے زيادہ خوشی اسی بات کی ہے۔ کہ مجھ جيسے نجانے کتنے گھر انکے ظلم سے نجات پا چکے ہيں" يماما نے مسکراتے ہوۓ اسکی تصحيح کی۔
"بے شک" فاران نے بھی اعتراف کيا۔
"تم کہاں ہو آجکل" فاران کو يکدم خيال آيا۔
"فاران۔۔ مجھے نائل مل گۓ ہيں" يماما کے لہجے ميں بے تحاشا خوشی تھی۔
اور اسکی يہ خوشی فاران کو ہر گز بری نہيں لگی۔ بلکہ خوشگوار سی حيرت ہوئ۔
"واقعی" وہ بھی اسی حيرت بھری خوشی کے باعث بولا۔
"ہاں ميں آجکل انہی کے ساتھ ہوں۔ مگر جلد ہی گھر کا چکر لگاؤں گی۔ ماما اور بابا کو ميرا بہت سلام دينا۔
ميں کوشش کروں گی کہ آج شام ہی گھر کا چکر لگاؤں" نائل اب کھڑا ہوچکا تھا۔
"ميم۔۔ سر کی کال آئ ہے۔ گھر چلئے" اس سے زيادہ وہ يہ جذباتی ملاقات سکون سے سہہ نہيں سکتا تھا۔
"جی جی" يماما نے يکدم پيچھے مڑ کر نائل کو ديکھا۔
"تم کہاں رہتی ہو۔۔ جگہ کا بتا دو ۔ ميں خود آجاؤں گا تم سے ملنے" فاران نے بے چينی سے کہا۔
"ميم سر کی بار بار کال آرہی ہے" نائل نے ايک بار پھر مداخلت کی۔
"ہاں ہاں چلو۔۔ ميں گھر جاکر تمہيں کانٹيکٹ کروں گی" يماما نے عجلت ميں کہا۔ اور نائل کے آگے آگے چل پڑی۔
اسے خيال ہی نہيں رہا تھا کہ نائل اسکے لئے کتنا پوزيسيو ہے۔ اسے اب ياد آيا۔ فاران سے ملتے وقت وہ اتنی جذباتی ہوگئ تھی کہ اسکے کندھے سے ہی لگ گئ۔
جبکہ نائل وہيں موجود تھا۔
اب اسے خفت اور شرمندگی نے گھير ليا۔
گاڑی ميں بيٹھ کر اس نے کن اکھيوں سے اگلی سيٹ پر بيٹھے نائل کو دیکھا۔
ڈرائيور کی موجودگی کے باعث وہ نائل سے مخاطب نہيں ہوسکتی تھی۔
________________________________
شام ميں نائل فاران، ربيعہ اور احمد کو خود لے کر گھر آيا تھا۔
شمس نے بھی مہک کو سب حقيقت بتا دی تھی۔ وہ بے تحاشا خوش تھيں۔ خاص طورپر يہ سوچ کر کہ نائل کو اسکی اصل محبت مل گئ۔
اس سے بڑھ کر انکے لئے اور کوئ خوشی کی بات نہيں تھی۔
شام ميں سب اکٹھے تھے۔
يماما نے تشکر بھری نظروں سے نائل کی جانب ديکھا۔
جس کے سبب يہ سب ممکن ہوسکا تھا۔
وہ اسکی محبتوں۔۔ حتی کہ اسکی دھڑکنوں تک کا امين تھا۔
اگر يماما نے خود کو اسکے لئے سينت سينت کر رکھا تھا۔ تو اس نے بھی کہين کوئ خيانت نہيں کی تھی۔
نائل نےانہيں سب بتا ديا تھا سواۓ اس بات کہ۔ کہ نائل نے ہی يماما کو اغوا کيا تھا۔ وہ سب قصہ وہ ان سے چھپا گيا تھا۔ بس اتنا بتايا تھا کہ شمس کی ٹيم نے اسے حفاظت کے طور پر اسکے فليٹ سے اٹھوا ليا تھا۔
اور پھر شمس نے ہی نائل کو بتايا تھا کہ اسکی بيوی کو انہوں نے اپنے پاس رکھا ہے۔
پھر يماما کی زندگی بچانے کے عوض اسے منظر عام پر نہيں لايا گيا۔
اور يہ کہ نائل کا تعلق بھی پوليس کے محکمے سے ہے۔ مگر عام پوليس نہيں۔
"بيٹا مجھے تو ابھی بھی يقين نہيں آرہا ميری بيٹی میرے پاس ميرے سامنے ہے" ربيعہ يماما کو اپنے ساتھ لگاۓ نم لہجے ميں بوليں۔
"مجھے بھی يقين نہيں آيا تھا" نائل نے يماما کی جانب ديکھتے زير لب کہا۔
"بھائ صاحب آپ سے ايک عرض کرنی ہے" مہک احمد کی جانب دیکھ کر بوليں۔
"جی جی بھابھی پليز کہئيے" احمد عاجزی سے بولے۔
"ميں اب اپنی بہو کو رخصت کرکے اپنے گھر پورے رسم و رواج کے ساتھ لانا چاہتی ہوں" يماما نے يکدم نائل کی جانب ديکھا۔
جس کی چمکتی آنکھيں پہلے سے ہی اسکی جانب رخ کئے ہوۓ تھيں۔ يماما نے اسے خود کو ديکھتا پا کر نظروں کا زاويہ بدل ليا۔
"ارے ميرے دل کی بات کہہ دی۔ ميں تو کب سے اسکی شادی کی خواہش رکھے ہوۓ تھی" ربيعہ نے بھی مسکراتے ہوۓ مہک کی حوصلہ افزائ کی۔
"تو بس پھر ويک اينڈ آنے ميں دو دن باقی ہيں۔ ايک دن مہندی اور پھر اگلے دن بارات رکھ ليتے ہيں" مہک نے منٹوں ميں سب طے کرليا۔
"ارے اتنی جلدی۔۔ ميری بيٹی کو چند دن تو ميرے پاس رہنے ديں" ربيعہ مہک کے يوں ہتھيلی پر سرسوں جمانے پر گھبرا کر بوليں۔
"اب ان شاء اللہ ہم دونوں کے ہی پاس رہے گی۔ فکر کيوں کرتی ہيں۔ مگر ميرا خيال ہے اب دير نہيں کرنی چاہئيے۔۔ ہے نا شمس" انہوں نے شمس کی بھی تائيد چاہی۔
"مہک صحيح کہہ رہی ہيں۔ ويسے بھی نائل اگلے ہفتے ايک کورس کے سلسلہ ميں ايک سال کے لئے کينيڈا جارہا ہے۔ تو بہتر ہے کہ بيوی کو ساتھ لے کر جاۓ" شمس کی بات پر يماما نےاپنی جھکی ہوئ نظريں اٹھاکر بےيقينی سے نائل کو دیکھا۔
اس نے ايسی کوئ بات اسے نہيں بتائ تھی۔
نائل کی نظروں نے ايک بار اسکا طواف کيا۔
"ارے ضرور کيوں نہيں۔ پھر تو ٹھيک ہی ہے۔ ہميں کوئ اعتراض نہيں" احمد نے بھی فورا ہاں ميں ہاں ملائ۔
فاران نے يماما کے خوشی سے جگمگاتے چہرے کی جانب دیکھا۔
ہلکی سی کسک دل ميں اٹھی۔ مگر يہ سوچ کر معدوم ہوگئ کہ وہ کسی کی امانت ہے۔ کسی کی منکوحہ ہے۔ لہذا اسکے بارے ميں يہ سوچنا اب اسے زيب نہيں دیتا۔
اسکی دائمی خوشی کی دعا دل ميں مانگی۔
رات ميں کھانا کھانے کے بعد وہ لوگ يماما کو لئے اپنے گھر آگۓ۔
کہ اب دو دن بعد تو اسے نائل کے پاس ہی آجانا تھا۔
___________________________
رات ميں گھر آکر يماما نے اپنے کمرے ميں جاتے ہی نائل کو کال کی۔
چند دن پہلے ہی نائل نے اسے نيا فون لا کر ديا تھا۔
تيسری ہی بيل پر فون اٹھا ليا گيا۔
"دوری سہی جاۓ نا" دوسری جانب سے گنگناتی ہوئ آواز آئ۔
يماما مسکراۓ بغير نہ رہ سکی۔ اسکی فريش سی آواز سن کر اسے کچھ تقويت ملی۔
"جی نہيں۔ ميں نے ويسے ہی فون کيا تھا" وہ بھی کہاں مانتی اپنے نام کی وہ ايک ہی تھی۔
"اوہ اچھا۔ ويسے آدھے گھنٹے ميں۔۔ ميں ويسے کا ويسا ہی ہوں جيسا تم مجھے چھوڑ کر گئيں تھيں" نائل نے مزے سے کہا۔
"مجھے کچھ کلئير کرنا ہے" وہ سنجيدگی سے بولی۔
"يار پليز اب ويڈنگ ڈے کے کلر پر بحث مت کرنا۔ بس وہ ہم دونوں کا بلو ہی ہوگا۔" نائل نے کچھ اور سوچتے ہوۓ کہا۔
"نہيں اسکی بات نہيں ہے۔ وہ جو صبح کورٹ ميں فاران سے مل کر ميں اموشنل ہوگئ تھی" يماما نے جھجھکتے ہوۓ بات کا آغاز کيا۔
"يماما۔ فارگارڈ سيک۔ ميں بہت اچھے سے جانتا ہوں کہ فاران تمہارے لئے کيا حيثيت رکھتا ہے۔
ميں تمہارے لئے پوزيسيو ہوں مگر شکی ہر گز نہيں۔
مجھے بہت اچھی طرح اندازہ ہے کہ ہر انسان زندگی ميں بہت سے لوگوں اور رشتوں سے محبت کرتا ہے۔ اور ہر محبت کا مقام الگ ہوتا ہے۔
جو جگہ فاران کی تمہارے دل ميں ہے وہ ميں کبھی نہيں لے سکتا۔ اور جو ميری تمہارے دل ميں ہے وہ فاران نہيں لے سکتا۔
ميں اتنی چھوٹی سوچ کہ ہرگز نہيں کہ اس سچوئيشن کی حقيقت کو نہ سمجھ سکوں۔
مجھے تم پر بھی پورا اعتمادہے اور فاران کو بھی ميں بہت اچھی طرح پرکھ چکا ہوں۔
يار تم نے يہ بات کہہ کر مجھے شرمندہ کرديا ہے۔ ميں تمہيں اگر اس کے بارے ميں چھيڑتا ہوں تو اس کا يہ مطلب ہر گز نہيں کہ ميں اسے اپنا رقيب سمجھتا ہوں۔" نائل نے ايک ايک بات اتنے عمدہ انداز ميں کہی کہ يماما کو اس کا ہمسفر ہونے پر بے حد فخر محسوس ہوا۔
"نائل ميں کيا کہوں۔۔ آپ نے تو مجھے اسپيچ ليس کرديا ہے" يماما نے اپنی سوچ کو الفاظ دئيے۔
"کچھ مت کہو۔ بس آئ لو يو کہہ دو" نائل پھر سے اپنے شرارتی انداز ميں لوٹ آيا۔
"يہ دو دن کيسے گزريں گے" يماما کی خاموشی پر وہ پھر سے بولا۔ اس کے لہجے کا بوجھل پن يماما کے لئے اب سہنا مشکل ہورہا تھا۔
"چليں ٹھيک ہے پھر بات ہوگی" يماما نے فورا دوڑ لگانی چاہی۔
"بھگوڑی" نائل نے اسکی بات پر بدمزہ ہو کر کہا۔
"تم واقعی اتنی ان رومينٹک ہو يا پھر مجھے چکر ديتی ہو" نائل کی بات پر وہ کھلکھلائ۔
"فضول باتوں کا کيا جواب دوں" يماما نے گويا اسے چڑايا۔
"محبت فضول چيز ہے؟" نائل نے سوال کيا۔
"محبت فضول نہيں مگر آپ کا اتنا عجيب و غريب مجت کا راگ الاپنا فضول ہے" يماما نے اسکے سب ارمانوں پر پانی کی بالٹياں بہا ديں۔
"بہت محنت کرنا پڑے گی تم پر" نائل نے افسوس سے کہا۔
"ميرا مستقبل تمہيں محبت کے سبق پڑھاتے ہی گزر جانا ہے" نائل کی باتوں پر وہ مسکراۓ بغير نہ رہی۔
"چليں اچھا ہے مرنے تک پڑھتے رہنا چاہئيۓ" يماما پر تو کوئ اثر نہيں ہورہا تھا۔
"جانی ايک بار ہاتھ لگو۔۔چںد دنوں ميں ہی پی ايچ ڈی کروا دوں گا" نائل نے چيلنجنگ انداز ميں کہا۔
"ديکھيں گے" يماما نے بھی مزيد چڑاتے ہوۓ فون بند کرديا۔
_____________________
يماما ہاتھوں پر مہندی لگواۓ پيلے اور ہرے جوڑے ميں بيٹھی تھی۔ مہندی کا فنکشن ختم ہوچکا تھا۔
گوکہ تمام فنکشن کمبائن تھا۔ مگر يماما نے جان بوجھ کر اتنا لمبا گھونگھٹ نکالا کہ نائل کو اس کا چہرہ دکھائ ہی نہيں ديا۔
فنکشن ختم ہونے کے بعد اب مہندی لگاۓ وہ ريليکس انداز ميں بيٹھی تھی۔ ايک ہاتھ کی مہندی سوکھ چکی تھی دوسرے ہاتھ کی سوکھنے کا وہ انتظار کررہی تھی۔
فنکشن ميں وہ سميی سے بھی ملی۔
وہ وہی ہم شکل تھی جس کا ذکر نائل کرچکا تھا۔
مگر فاران نے اسے اپنی دوست کی حيثيت سے متعارف کروايا تھا۔
يماما کو خوشگوار حيرت ہوئ تھی فاران کی بات سن کر۔ کيونکہ اس نے کبھی فاران کے لہجے ميں کسی لڑکی کے لئے اتنا انوکھا پن محسوس نہيں کيا تھا۔جتنی دير فاران اس کا تعارف کرواتا رہا
سيمی بھی بہت لو ديتی نظروں سے فاران کی جانب ديکھ رہی تھی۔
يماما نے اپنے شک کو حقيقت ميں ديکھنے کی دل سے دعا کی۔
اس لمحے بھی وہ ان دونوں کو سوچ رہی تھی کہ نائل کا فون اسکے موبائل پر آيا۔
يماما سب چھوڑ چھاڑ اسکی بے تابيوں پر ہنسی
"ہيلو" يماما نے مسکراہٹ دبا کر اس ہاتھ سے موبائل اٹھايا جس کی مہندی سوکھ چکی تھی۔
"تم نے اچھا نہيں کيا ميرے ساتھ" نائل کی تپی ہوئ آواز سنائ دی۔
يماما کھلکھلا کر ہنسی۔
"کيوں اب ميں نے کيا کيا ہے۔ ايک تو مجھ پر ہر وقت الزام لگاتے رہتے ہيں" يماما نے معصوميت کے سب ريکارڈ توڑ ڈالے۔
"اتنا بڑا گھونگھٹ کيوں نکالا۔۔ مجھے باقيوں کا خيال نہ ہوتا تو قينچی سے تمہارا وہ گھونگھٹ کاٹ ديتا" نائل کے غصے پر يماما کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
"ہنس لو تم۔۔ کل تمہاری ہنسی بند نہ کی تو کہنا" نائل کی بات پر اسکے گال دہکے۔
"اچھا فون بند کريں مجھے سونا ہے" يماما نے فورا پينترا بدلا۔
"ميری نينديں غصے سے اڑی ہوئ ہيں۔ اور تمہيں سونے کی پڑی ہے۔ مجھے تمہيں ديکھنا ہے بس ابھی اور اسی وقت" نائل کی نئ فرمائش پر يماما گھبرا گئ۔
"کيا ہے نائل" وہ گھبراہٹ بھرے انداز ميں بولی۔
"کيا ہے۔۔ مجھے تمہيں ديکھناہے بس" نائل ضدی لہجے ميں بولا۔ ۔
"کچھ گھنٹے ہی رہ گۓ ہيں۔ پھر ديکھتے رہنا آپ" يماما کی گھبراہٹ بجا تھی۔ اس کا کوئ پتہ نہيں تھا۔ اسے ديکھنے آ پہنچتا۔
"اور ويسے بھی اتنی تصويريں تو سب نے لی ہيں۔ آپ کے پاس بھی پہنچ گئ ہوگی۔ اسی پر گزارا کريں" يماما نے جلدی سے اسے رام کرنا چاہا۔
نائل چند پل خاموش رہا پھر گنگنايا
There is another world you are living tonight
Don’t want your picture on my sell phone
I want you here with me
Don’t want your memory in my head now
I want you here with me
اس کی گمبھير آواز پر يماما کے ہاتھوں ميں پسينہ اترا۔
"ابھی ويڈيو کال کرلو۔۔ پھر کچھ نہيں کہوں گا" نائل کی بات پر اس کا دل پسيج گيا۔
واٹس ايپ پر اسے ويڈيو کال کی۔
سفيد کرتے شلوار ميں آستينوں کو کہنيوں تک فولڈ کئے۔ موبائل سامنے رکھے۔ اپنے رف اينڈ ٹف حليے ميں کيمرے ہاتھوں کی انگلياں آپس ميں جوڑے تھوڑی کے پاس رکھے۔
وہ ايک ٹک موبائل اسکرين پر ابھرنے والے يماما کے شرماۓ ہوۓ روپ کو ديکھ رہا تھا۔
يماما نے بس چند لمحوں کے لئے اسکی جگر جگر کرتی نظروں کی جانب ديکھا۔ پھر ہمت نہ ہوئ تو پلکوں کی باڑھ جھکا گئ۔
"آئم سو بليسڈ ٹو ہيو يو ان مائ لائف" نائل کے تشکر بھرے اظہار پر يماما کے چہرے پر شرميلی سی مسکراہٹ کھلی۔
"می ٹو" يماما نے بھی اعتراف کيا۔
"چند پل اور انتظار کرنا ہے" نائل نے جيسے خود کو تسلی دی۔
"اب بند کردوں" يماما نے بمشکل نظر اٹھا کر موبائل اسکرين پر ديکھا۔
"بند کردو۔تو اچھا ہے۔۔ اس سے پہلے کہ ميں تمہارے پاس آہی جاؤں" نائل نے اپنے جذبات پر بڑی مشکل سے بندھ باندھا۔
"سی يو ٹومورو" نائل کے کہتے ہی يماما نے فورا کال بند کی۔
پھر اپنی تيز ہوتی دھڑکنوں پر ہاتھ رکھے بمشکل انہيں اعتدال پر لائ۔
________________________________
تمام رسومات سے فارغ ہوکر مہک کچھ دير پہلے ہی اسے نائل کے کمرے ميں لے کر آئيں تھيں۔
اسکے کمرے ميں اب ايک عدد بيڈ کا اضافہ ہوچکا تھا۔ باقی سب ويسے ہی موجود تھا۔
کمرے کو پھولوں سے سجايا گيا تھا۔ بيڈ پر جا بجا کلياں پڑی تھيں۔ جن کے درميان يماما بيٹھی ہوئ تھی۔
مہک کے باہر جاتے ہی اس نے ايک گہرا سانس کھينچا۔
نہ جانے نائل کی بے تابيوں کو وہ کيسے سہے گی۔
يہ خيال آتے ہی يماما کی گھبراہٹ سوا ہوئ۔
چند منٹ نہيں گزرے تھے کہ نائل دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔
بلو کلر کے سوٹ ميں ملبوس وہ آج شہزادہ لگ رہا تھا۔
يماما نے بھی اسی کے ہم رنگ لہنگا پہن رکھا تھا۔
دروازہ بند کرکے وہ آہستہ روی سے چلتا اس کے مقابل بيڈ پر بيٹھا۔
"سوہنيو" شہنشاہ کے انداز ميں يماما کو مخاطب کيا۔
وہ جو گھبرا رہی تھی اس انداز پر ہولے سے ہنسی۔
"تھينکس ٹو شہنشاہ" يماما نے پلکوں کی جھالر اٹھا کر نائل کو ديکھا۔ جس کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ رقص کررہی تھی۔
"يہی تو ہميں ملانے کا سبب بنا ہے" يماما کی بات پر نائل کی مسکراہٹ گہری ہوئ۔ پھر ہاتھ بڑھا کر يماما کا مہندی سے سجا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں ليا۔
"بے شک" اس نے يماما کی تائيد کی۔
"ويسے تمہيں شہنشاہ والے روپ ميں کبھی مجھ سے ڈر نہيں لگا۔ کيونکہ غنڈے تو کسی بھی حد تک جاسکتے ہيں۔" نائل کی بات پر اس نے مسکراتے ہوۓ نفی ميں سر ہلايا۔
"محبت غنڈوں کو بھی راہ راست پر لے آتی ہے۔ جب محبت سچی ہو تو وہ محبت کو کبھی پامال نہيں ہونے ديتی۔ ہميشہ اس کی عزت کرتی ہے۔ مجھے شہنشاہ کے روپ ميں ويسی ہی سچی محبت دکھائ ديتی تھی۔ اسی لئے ڈر کيوں لگتا؟" يماما کے جواب پر نائل کے چہرے پر متاثر کن مسکراہٹ بکھری۔
"واہ واہ۔۔ يعنی ميری يماما محبت کے معاملے ميں اتنی بھی کوری نہيں" نائل بے حد متاثر ہوا۔
"اظہار کا ہر ايک کا اپنا انداز ہوتا ہے۔" يماما نے منہ بنا کرکہا۔
نائل نے مسکراہٹ لبوں ميں دبائ۔
پھر کورٹ کی جيب ميں ہاتھ ڈال کر کچھ نکالا۔
بند مٹھی يماما کے آگے کی۔
يماما نے ناسمجھی سے اسے ديکھا۔
جيسے ہی ہاتھ کھولا اسکے ہاتھ پر ايک چابی رکھی تھی۔
وہ پھر الجھی۔
"يہ تمہارے فليٹ کی چابی۔ يہ فليٹ ميں نے خريد ليا تھا۔ تمہيں گفٹ کرنے کے لئے۔۔ جن چار ديواری نے ميری يماما کی حفاظت کی وہ مجھے کيسے اور کيوں کر عزيز نہ ہوتيں" يماما نے مسکراتی نظروں سے نائل کے چہرے پر بکھرے اپنی محبت کے رنگ ديکھے۔
"تھينک يو" يماما کے پاس الفاظ ہی نہيں تھے۔
پھر دوسری طرف کی جيب ميں ہاتھ ڈالا۔
باہر آيا تو پھر ويسے ہی مٹھی بند تھی۔
يماما کی مسکراہٹ گہری ہوئ۔
نائل نے ہتھيلی کھولی تو کسی گاڑی کی چابی تھی۔
"تمہاری گاڑی کا ويسا ہی ماڈل نکلوا ليا ہے۔ يہ اسکی چابی " يماما نے يکدم آنسو پيتے اپنی جگہ سے سرکتے نائل کے گرد اپنے بازو حمائل کئے۔
"مجھے اللہ نے سب سے قيمتی تحفہ آپ کی صورت ديا ہے نائل مجھے کچھ اور نہيں چاہئے" شدت جذبات سے روتے يماما نے گويا محبت کا اعتراف کيا۔
"مجھے بھی۔ ميری جان" نائل نے اسے خود ميں بھينچ ليا۔ محبتوں کی بارش اس پر برسانے کو وہ تيار تھا۔
اب کوئ ظالم انکے بيچ نہيں آۓ گا۔
يہ اطمينان دونوں کو تھا۔
دونوں ايک دوسرے کی دھڑکنيں سن رہے تھے۔ محسوس کررہے تھے۔ محبت کو اب ساری عمر يوں ہی انہيں اکٹھے رکھنا تھا۔
______________________
The End