فاران شدت سے اس تفتيشی آفيسر کی فون کال کا منتظر تھا۔
"کيا بات ہے بيٹا۔ جب سے آئے ہو پريشان لگ رہے ہو۔ کچھ پتہ نہيں چل سکا يماما کے قاتلوں کا" ربيعہ کب سے فاران کو بے چین ديکھ رہی تھيں۔
سپارہ پڑھتے بار بار نظر اس کے مضطرب چہرے پر جارہی تھی۔
ابھی ايک ہی دن تو ہوا تھا يماما کی وفات کو۔ کچھ دير پہلے ہی اس کے قل ادا کئے گۓ تھے۔ مہمان سب ہی جا چکے تھے۔ احمد بھی کسی سے ملنے گۓ ہوۓ تھے۔
ربيعہ اس وقت لاؤنج ميں ہی بيٹھی قرآن کی تلاوت ميں مصروف تھيں۔ کل سے دل کو قرار ہی نہيں مل رہا تھا۔
يماما گوکہ ان کے ساتھ نہيں رہتی تھی۔ مگر انہيں اطمينان تھا کہ وہ يہيں پر ہے۔ ان کے ساتھ نہ سہی مگر ان کے آس پاس اسی دنيا مين موجود ہے۔
مگر کل اس کی موت کے بعد سے ان کی بے حد بری حالت تھی۔
سب نے سمجھايا مگر دل کو قرار کيسے آسکتا تھا۔
آخر احمد کے کہنے پر اس وقت قرآن لے کر بيٹھيں تو لگا جيسے کہيں جذبات ميں ٹہراؤ آيا ہے۔
فاران صبح کا گھر سے نکلا ختم کی دعا سے کچھ دير پہلے گھر آيا تھا۔
اور تب سے غائب دماغ اور بے چين تھا۔
آخر اس وقت ربيعہ نے وجہ پوچھ ہی لی۔
"نہيں اماں مگر اميد ہے جلد ہی ہم ان تک پہنچ جائيں گے" سامنے صوفے پر بيٹھی ربيعہ کو اس نے چونک کر ديکھا۔
موبائل ہاتھ سے رکھ کر انہيں تسلی بخش جواب دیا۔
اسی اثناء مين اس کے موبائل کے بجنے کی آواز آئ۔
سرعت سے ہاتھ بڑھا کر ٹيبل پر رکھا موبائل پھر سے اٹھا کر وہ صوفے سےاٹھ کھڑا ۔
"ہيلو جی سر" وہ بات کرتا ہوا باہر لان ميں چلا گيا۔
"فاران۔ يماما کا موبائل ٹريس ہوگيا ہے۔ مگر اس کا قاتل شمالی علاقہ جات کے کسی علاقے ميں موجود ہے۔ہميں کم از کم بھی آج رات تک کا وقت لگے گا وہاں تک پہنچنے ميں" اس نے تفصيل سے سچ فاران کو بتايا۔
"کوئ مسئلہ نہيں۔ آپ فورا سے پہلے وہاں جائيں۔ کيا ميں ساتھ جاسکتاہوں؟" فاران کا بس نہيں چل رہا تھا کہ اس کے قاتل کو فورا سے پہلے منظر عام پر لاۓ۔
"ارے نہيں۔ ہماری ٹيم کے علاوہ اور کسی کو اجازت نہيں اس طرح کے مشن پر نکلنے کی۔ ميں تمہيں وقتا فوقتا آگاہ کرتا رہوں گا" اس نے سہولت سے فاران کو منع کيا۔
"ٹھيک ہے۔" فاران نے ايک دو بات کے بعد فون بند کيا۔ اب اسے اطمينان تھا کہ يماما کے قاتل تک وہ جلد ہی پہنچ جاۓ گا۔
جب تک پوليس اسے پکڑ نہيں لاتی تب تک اس نے يماما کا ادھورا کام مکمل کرنا تھا۔
اسی رات اس نے وقار کی وہ ويڈيو جس ميں اس نے يماما کے آفس آکر اسے دھمکی دی تھی۔ اس کی بناء پر اس کے خلاف کيس تيار کيا۔ جس ميں يماما کے مرنے کو واضح طور پر قتل قرار ديا۔ اس کی گاڑی کے ٹائر پنکچر ہونے کا حوالہ بھی ديا۔
اب يہ کيس اسے اگلے دن عدالت ميں پيش کرنا تھا۔
________________________
"نائل" وہ محض ہونٹوں کو جنبش ہی دے پائ۔ حواس تو کب کے گم ہو چکے تھے۔ وہ کيسے اپنی آنکھوں اور اپنی سماعتوں پر يقين کرتی۔
جس شخص پر وہ اپنے باقی پياروں کے ساتھ بہت سے سال پہلے فاتح پڑھ چکی تھی۔ وہ يکدم يوں سامنے آگيا۔
اس کے حواس تو معتل ہونے ہی تھے۔
"ہاں تمہارا نائل" نائل نے اس کے حیرت زدہ چہرے کو نظر بھر کر ديکھا۔
"ي۔۔يہ۔۔کيسے ہوسکتا ہے۔۔۔نائل۔۔ زندہ" وہ ہکلا کر بولی۔ چہرے سے اب حيرت کی جگہ بے يقينی ٹپک رہی تھی۔
"ابھی يہاں سے چلو۔۔ پليز گاڑی ميں بيٹھ کر ميں تمہيں سب کچھ بتاؤں گا"نائل نے التجا کی۔
"مگر۔۔۔" يماما اب تک بے يقينی کے زير اثر تھی۔ وہ يقین کرتی بھی تو کيسے۔
کن کن مشکلوں سے ساری زندگی گزری تھی۔ وہ بھی اکيلی۔ اگر وہ زندہ تھا تو اب تک اس کے پاس کيوں نہيں آيا تھا۔ اور پھر يوں اچانک آکر ۔۔ شہنشاہ کا روپ دھار کر۔ يہ سب کيا معمہ تھا۔
سوالوں کی ايک لمبی قطار اس کے دماغ ميں چلنا شروع ہوگئ تھی۔
"مم۔۔۔ميں ۔۔۔ميں کيسے مان لوں کہ آپ ہی نائل ہيں" اسکی نگاہوں ميں شک ہلکورے لينے لگا۔
"کيونکہ عزتوں والے ہی عزتوں کی حفاظت کرنا جانتے ہيں۔ اگر ميں بدمعاش اور دہشتگرد ہی ہوتا۔ تو تمہاری عزت کی پرواہ کبھی نہ کرتا۔ اور اپنے دل سے پوچھ کر بتاؤ۔ کيا يہاں آنے کے بعد کسی بھی لمحے تمہيں ميری موجودگی ميں يہ خوف آيا ہے کہ مين تمہارے ساتھ کچھ غلط کروں گا۔۔" نائل کے اتنے واضح جواب کے بعد واقعی شک کی کوئ گنجائش نہيں تھی۔ وہ تبھی تو حيرت زدہ تھی کہ يہ کس قسم کا دہشتگرد ہے جو يماما کو غلطی سے بھی غلط نيت سے نہيں ديکھتا۔
" مگر پھر بھی " وہ پھر سے خوف اور بے يقينی سے اسے ديکھتے بولی۔ اس کی تشويش غلط نہيں تھی۔ اتنی صعبتوں کے بعد وہ يہ کيسے يقين کرلے کہ 'اس کی زندگی' 'اس کا نائل' اسی دنيا ميں کہيں تھا۔
نائل چند قدم آگے آيا۔ وہ جان گيا کہ يقين کے کچھ جگنو اس کے ہاتھ ميں اس وقت تھمانے بے حد ضروری ہيں۔
ورنہ وہ تو ٹس سے مس ہونے کو تيار نہيں تھی ۔
آنسوؤں کا وہ سمندر جو وہ نجانے کتنے سالوں سے اپنے اندر چھپائے بيٹھی تھی۔ اب کسی اپنے کو نظروں کے سامنے ديکھ کر آنکھوں سے بہنے کو تيار تھا۔
نائل نے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں ميں تھاما۔ محبتوں کے جگنو آنکھوں ميں لئے وہ بھی جيسے اس کے ايک ایک نقش کو حفظ کررہا تھا۔
"اللہ نے مجھے تمہارے لئے بچا لیا تھا۔ نجانے کتنے سالوں سے ان لمحوں کا انتظار کررہا تھا۔ کہ تمہيں بتاؤں ۔۔يقین دلاؤں کے ميں تمہارے آس پاس ہی ہوں۔ اللہ نے ہميں جدا نہيں کيا۔ مگر بہت سی رکاوٹيں تھيں۔ جنہوں نے مجھے تم تک آنے نہيں ديا۔ ميں وہ سب تمہيں بتاؤں گا۔ مگر اس وقت يہاں سے چلو۔۔ ميں دوبارہ جدائ تمہارے اور اپنے بيچ کبھی نہيں آنے دوں گا۔ سواۓ موت کے" يماما پلک تک نہيں جھپکا رہی تھی۔ آنسو تھے کے لڑی کی صورت بہے چلے جارہے تھے۔ جنہيں نائل محبت سے اپنی ہتھيلیوں ميں جذب کررہا تھا۔
اپنی موجودگی کا يقين اس نے يماما کے ماتھے پر پيار کی مہر کی صورت دلايا ۔ يماما نے آنکھيں بند کرکے جيسے
اس کے ہونے کی حقيقت کو قبول کيا۔ اسکے کندھے سے سر لگاۓ آنسوؤں کو بہنے ديا۔ اسے ایسا لگا جيسے تپتی دھوپ سے وہ ٹھنڈی چھاؤں ميں آکھڑی ہو۔
وہ زندگی جو اسکے لئے محض سانسوں کا چلتا ايک ربط تھا۔۔ اب ان لمحوں ميں اسے ايسا محسوس ہوا کہ جيسے زندگی کے تار دوبارہ وہيں سے جوڑے ہيں جہاں سے وہ يماما کو ختم ہوتی محسوس ہوئ تھی۔
نائل نے دھيرے سے اسکے گرد اپنے مضبوط بازوؤں کا حصار باندھ کر زور سے اسے خود ميں بھينچ کر جیسے خود کو يقين دلايا۔ کہ جن لمحوں کو وہ خواب سمجھتا تھا۔
آج مجسم اس کے سامنے ہيں۔ اس کی کل کائنات اس وقت اسکے مضبوط بازوؤں ميں خود کو دنيا سے چھپاۓ کھڑی تھی۔
آنکھيں موندے وہ ان لمحوں کے زير اثر تھے۔ نائل نے بڑی مشکل سے خود کو يہ باور کروايا کہ اسے ابھی ان لمحوں کو مختصر کرکے يہاں سے نکلنا ہے۔
آنکھيں بمشکل کھول کر اس نے ہاتھ ميں پکڑی بيلٹ کا ايک سرا يماما کے گرد باندھا اور دوسرا سرا اپنی کمر کے گرد مضبوطی سے باندھ کر اسے تحفظ ديا۔
"يماما۔۔ ہميں ابھی يہاں سے فوری نکلنا ہے" يماما کے کان کے قريب اس نے سرگوشی کی۔
يماما نے بمشکل سر اٹھا کر اپنی آنکھيں صاف کيں۔
"چليں؟" نائل نے اس کی آنسوؤں سے بھيگی آنکھوں کو سواليہ نظروں سے ديکھا۔
وہ کيسے نہ خود کو اسکے حوالے کرتی وہ شہنشاہ نہيں تھا۔ جو اس کا نامحرم ہو۔۔
وہ تو نائل تھا۔۔ اس کا محرم۔۔ اس کا ناکح۔۔اور وہ اسکی منکوحہ۔ جس کے لئے اس نے اپنی ساری زندگی دان کررکھی تھی۔ نہ اس سے پہلے کوئ اس کی زندگی ميں تھا اور نہ اسکے بعد کوئ اس کی زندگی ميں آنے والا تھا۔ کيونکہ اسی کو آنا تھا۔ اور وہ تھا يہاں اس لمحے اسکے سب سے قريب۔
اس نے بمشکل اثبات ميں سر ہلايا۔
"ڈر تو نہيں لگے گا؟" نائل نے پھر سوال کيا۔
"آپ ساتھ ہيں نا تو پھر ڈر کيسا" محبت بھرے لہجے نے نائل کو يک گونہ سکون ديا۔ محبت سے اسے پھر سے مضبوطی سے اپنے ساتھ لگايا۔
ايک ہاتھ اسکے گرد باندھے دوسرے ہاتھ سے رسی کو مضبوطی سے تھامے وہ پہاڑ کے سرے سے ہوتا ہوا۔۔ زمين کو چھوڑ چکا تھا۔
اس لمحے حقيقت ميں وہ ايک دوسرے کو تھامے ہواؤں ميں اڑ رہے تھے۔
خود سے زيادہ اسے بس يماما کی فکر تھی۔ اس کی زندگی کی فکر تھی۔
It's been raining here for days
And I can feel these drops upon my weary face
Is it the sky or is it my eyes that create this?
I miss your kiss, I miss your face, I miss your touch
And it seems like
I'm waiting for the sun to set
And waiting for the sun to rise
And waiting for the sun to set again
And I will give you my shoulder
As we lay and we get older, together
There's nothing better than this feeling
I can feel my wounds are healing with your touch
And all my senses, all my senses
Amplified by our connection, inside and out
And I will shout, oh I will shout, I will shout your name out loud
In the hope that you'll feel me there
I'm waiting for the sun to set
And waiting for the sun to rise
Til you're here by my side
__________________________
وہاج نے صبح ہوتے ہی اپنے پی اے کو فون کيا کيونکہ جس بندے کو اس نے وہ دو دہشتگرد بارڈر پر پہنچانے کے لئے حکم دے رکھا تھا۔ اس کی جانب سے اب تک کوئ اطلاع نہيں آئ تھی۔
"ہيلو۔۔ شفقت کا فون نہيں آيا ابھی تک؟" بيڈ کے کراؤن سے ٹيک لگاۓ وہ اضطرابی انداز ميں بالوں ميں تيزی سے انگلياں چلا رہا تھا۔
"نہيں سر۔ ابھی تک تو کوئ اطلاع نہيں آئ۔ مگر آپ کے گھر سے کچھ دير پہلے فون آيا تھا۔ تاکيد کی گئ تھی کہ آپ فون کرليں۔"
"اچھا۔۔ اچھا" وہ منہ بنا کر بولا۔ وہ اپنے مسئلوں ميں الجھا بيٹھا تھا اور گھر والوں کو اپنی مصيبتيں پڑی ہوئيں تھيں۔
وہ بڑبڑا کر فون بند کرکے اب گھر کا نمبر ملا رہا تھا۔
دوسری جانب اسکی بيوی تھی۔
"کيا مصيبت آگئ ہے صبح صبح" وہ تڑخ کر بولا۔
"تيمور ابھی تک گھر نہيں آيا" دوسری جانب سے سنی جانے والی بات پر وہ سر پيٹ کر رہ گيا۔
"ميں نے ہی اسے فارم ہاؤس بھيجا تھا۔ وہيں ہوگا تمہارا لاڈلا" اس کا لہجہ بيزاری لئے ہوۓ تھے۔
"وہ وہاں بھی نہيں ہے ۔ صبح کہی فون کرکے پہلے وہيں پتہ کيا تھا۔
وہاں کے ملازم بتا رہے ہيں رات کو کچھ نقاب پوش آۓ تھے۔ اور تمہارے تين بندوں اور تيمور کو لے کر نکل گۓ۔۔ انہيں رسيوں سے باندھ کر بے ہوش کرگۓ تھے۔" اس نے تفصيل سے سب بتايا۔
"کيا بکواس کررہی ہو" وہ غصے سے تلملايا۔ اتنی سيکيورٹی کے باوجود يہ کيسے ہو سکتا تھا۔ وہ حيران تھا۔
"مجھے نہيں معلوم۔۔ نجانے تم لوگوں کے کالے دھندوں کا انجام ہميں کب تک بھگتنا پڑے گا" وہ اپنی اولاد کے لئے شديد پريشان تھی۔
"ہاں تم تو اتنے عرصے تک آنکھيں بند کئے ہوۓ تھيں۔ تمہيں تو پتہ ہی نہيں سب کيا ہورہا تھا۔ مہنگی مہنگی چيزيں خريدتے۔ پيسہ اڑاتے تمہيں نہيں پتہ تھا کہ يہ پيسہ کہاں سے آرہا ہے" وہ غرايا۔
"مجھے نہيں پتہ مجھے بس اپنا بيٹا چاہئيے" وہ روتے ہوۓ بولی۔
"بھاڑ ميں جاؤ سارے۔۔۔ کيسے نکل گۓ ميرے بندے" وہ اٹھ کرسيدھا ہو کر بيٹھا۔۔
"تمہيں اپنی اولاد کی پرواہ نہيں ۔۔۔ اپنے بندوں کی پڑی ہے" وہ اپنے شوہر کی بے حسی محسوس کرکے چلائ۔
"بکواس بند کرو" وہ دھاڑ کر فون بند کرگيا۔ اب وہ فارم ہاؤس کا نمبر ملا رہا تھا۔
اس کے ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے۔ يہ کون لوگ تھے جنہوں نے اسکی مخبری کردی۔
_______________________
کچھ دير ميں ہی اسے لئے وہ نيچے کی جانب اترا۔ دوپہر قريب قريب تھی۔ يہ ايک اور پہاڑ تھا۔ مگر وہاں سڑک موجود تھی۔ جو يقينا شہر کی جانب جاتی تھی۔
وہاں پہلے سے ہی ايک چھوٹی گاڑی اور ايک جيپ موجود تھی۔
اور ساتھ دو لڑکے بھی کھڑے تھے۔ شايد وہی اسے ڈرائيو کرکے لے کر آۓ تھے۔
"گاڑی ميں سامان موجود ہے" ان ميں سے ايک نائل سے مخاطب ہوا۔ نائل اپنی بيلٹ کھول کر اب يماما کے گرد لپٹی بيلٹ کو کھول رہا تھا۔
اس لمحے وہ کالی ہی شلوار قميض ميں موجود تھا۔ بيلٹ کھولتے ساتھ ہی وہ گاڑی کی جانب بڑھا۔ اس ميں بيٹھ کر نجانے وہ کيا کررہا تھا۔
يماما نے اچٹتی سی نگاہ ان لڑکوں پر ڈالی دونوں ہی يماما کی جانب متوجہ نہيں تھے۔نجانے وہ نائل کے کوئ ساتھی تھے يا نائل کے ماتحت کام کرنے والے۔
اور نائل کرتا کيا تھا؟ سوال ہی سوال اسکے دماغ ميں مچلتے جارہے تھے۔
تھوڑی دير بعد جب نائل گاڑی سے باہر نکلا۔ تو وہ نائل کہيں سے نہيں لگ رہا تھا۔ يہ تو کوئ شمالی علاقہ جات کا باشندہ معلوم ہوتا تھا۔ سرخ و سپيد رنگت۔ کھڑے نقوش۔ سر پر پگڑی باندھے۔۔ بڑی بڑی مڑی ہوئ مونچھوں اور سنہری آنکھوں والا۔
يماما چند لمحے تو گنگ رہ گئ۔ اس کے ہاتھ ميں ايک ٹوپی والا برقعہ تھا۔ جو اس نے گاڑی سے نکل کر يماما کی جانب بڑھايا۔
"اسے پہنو۔۔" آواز سے ہی وہ بس پہچان سکی کہ يہ نائل ہے۔
"يہ۔۔"وہ حيرت سے اسکے چہرے کی جانب اشارہ کرکے بولی۔
"يماما۔۔ ميں جانتا ہوں تم وکيل ہو۔۔ مگر پليز موقع کی نزاکت سمجھو اور سوالوں کی بوچھاڑ کم کرو۔۔يقين کرو۔۔ خاموش ہوتی ہو تو بہت ہی پياری لگتی ہو" آنکھوں کی بڑھتی چمک يماما کو خاموش رہنے پر مجبور کرگئ۔ دل ميں ڈھيروں خفگی بھی آگئ اس لمحے۔
وہ اتنی پہيلياں کيوں بجھوا رہا تھا؟ کن لوگوں سے اس وقت وہ بھاگر رہا تھا وہ يماما کو کيوں نہيں بتا رہا تھا آخر؟ آنکھوں ميں خفگی لئے وہ برقعہ اوڑھنے لگی۔
نائل اچھے سے اس کے چہرے کی خفگی کو بھانپ گيا تھا۔
"سر ہم آپکے پيچھے پيچھے رہيں گے" يماما کو برقعہ اوڑھتا ديکھ کر ان ميں سے ايک بولا۔
"نہيں اس کی ضرورت نہيں۔ ہم اس وقت کسی مقامی ہوٹل ميں ٹہريں گے۔ وہاں پر سر بندے بھجوا چکے ہيں۔ تم لوگ فورا سے پيشتر شہر کی جانب جاؤ۔ باقی ميں خود ہينڈل کرلوں گا" نائل نے انہيں سرعت سے منع کيا۔
"ٹھيک ہے سر۔ پھر کل آپ سے ملاقات ہوگی" وہ نائل سے مصافحہ کرکے چھوٹی گاڑی ميں بيٹھ کر نکل گۓ۔
نائل نے يماما کو گاڑی ميں بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ مگر ٹوپی والا برقعہ پہننے کی وجہ سے اسے سمجھ ہی نہيں آئ کچھ وہ الجھ رہی تھی اس ميں۔
"افف اللہ! اس ميں ميں چلوں کيسے؟" وہ جھنجھلا کر بولی۔
نائل ہولے سے ہنسا۔
"کس حکيم نے کہا ہے اسے ابھی چہرے پر ڈال لو۔ تمہارا مجھ سے اب اتنا بھی پردہ نہيں ہے" اسکی بات سنتے ہی اس نے آگے سے برقعہ اٹھا کر سر پر رکھا۔
"ديتے وقت بتانا چاہئيے تھا نا" يماما نے خفگی کا اظہار کرنا ضروری سمجھا۔
"سوری مادام۔۔ اب چليں" نائل نے اسے پھر سے گاڑی کی جانب چلنے کا اشارہ کيا۔
وہ فرنٹ سيٹ کا دروازہ کھول کر جلدی سے بيٹھی۔
ڈرائيونگ سيٹ نائل سنبھال چکا تھا۔
"پليز ۔۔ کچھ تو بتائيں۔ کون لوگ اب ميرے پيچھے لگے ہيں۔ آپ کو ميرا کيسے پتہ لگا۔ اب تک آپ کہاں تھے۔اور اور۔۔ يہ سب روپ آپ نے کيوں دھارا؟" ايک ہی سانس ميں وہ جتنے سوال کرسکتی تھی کر گئ۔
گاڑی چلاتے نائل اس کی بے صبری اور بے چينی پر مسکرايا۔
"سب کچھ بتاؤں گا ميری جان۔ مگر ابھی کے لئے صرف اتنا جان لو کہ تمہارے موبائل کے آئ ايم ای آئ نمبر کو ٹريس کروا کر تمہارا دوست فاران اور وہ تفتيشی آفيسر جو تمہاری جھوٹی موت والی کہانی ميں انوالو ہيں۔ وہ اس جگہ کی نشاندہی کروا چکے ہيں۔ اور نہ صرف يہ بلکہ وہاں سے نکل پڑے ہيں۔ يہاں پہنچنے کے لئے۔
جبکہ ميں ابھی تمہاری موت کو خفيہ رکھنا چاہتا ہوں۔ کيونکہ تمہيں اغوا کرنے سے ايک رات پہلے وقار نے کسی کے ساتھ پلين کرکے تمہيں مروانے کا ارادہ کيا تھا۔ اور ميں يہ سب جان گيا تھا۔
اسی لئے تمہاری ہمشکل لڑکی بھيجی۔ گوکہ وہ بھی بچ چکی ہے۔ کيونکہ جس گاڑی نے وقار کے پلين کے مطابق تمہاری گاڑی کو ہٹ کيا تھا۔ اس ميں ميرا ہی بندہ موجود تھا۔" موڑ کاٹتے وہ لمحہ بھر کو چپ ہوا جبکہ وہ حيرت کی تصوير بنی يہ سب انکشاف سن رہی تھی۔
"اس بندے نے اس لڑکی کی گاڑی بھی ہٹ کی اور اسے اپنی گاڑی ميں لاکر وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔ ہاسپٹل ميں ميرے دوست ڈاکٹر ہيں۔ ان سے کہہ کر ايک ڈيڈ باڈی کو وہی ائير رنگز پہناۓ جو تم نے ايک رات پہلے پہنے تھے۔ اس چہرے کو پٹيوں سے ڈھک کر يہ کہا کہ چہرہ مسخ ہو گيا ہے۔ اور تو اور اسکی گردن پر وہی نشان بنايا جو تمہاری گردن پر جلنے کا ہے۔ اور يہ سب کرکے اس لڑکی کی ڈيڈ باڈی تمہارے نام سے فاران کو دے دی۔" يماما نے سر پکڑ ليا تھا۔ اس قدر پليننگ۔
"کيا ہوا؟" نائل اس کی پريشان صورت دیکھ کر معنی خيزی سے مسکرايا۔
"اتنا سب۔۔ اور اور مجھے کچھ معلوم ہی نہيں۔۔يہ وقار کمينہ تو" يماما نے دانت پيسے۔
"ڈونٹ وری اس کمينے کو تو ايسی جگہ لا کر ماروں گا جہاں اسے پانی بھی نہيں ملے گا۔۔ ابھی تو اس نے اپنے بہت سارے الفاظ کا خميازہ بھگتنا ہے" نائل نے سنجيدگی سے سامنے دیکھتے ہوۓ سخت لہجے ميں کہا۔
"اور پھر۔۔"يماما نے سلسلہ وہيں سے جوڑنا چاہا۔
"پھر يہ کہ آپ کا دوست بہت پھرتيلا ہے۔ اس نے تمہارے گھر ميں موجود فنگر پرنٹس اور گاڑی ميں موجود فنگر پرنٹس سب کا پتہ لگا ليا۔ اور يوں اس کو اندازہ ہوگيا کہ يہ سب ايک قتل کا کيس تھا۔ اور اب وہ تمہارے قاتلوں کو پکڑنے کی تگ و دو کررہا ہے" نائل نے ٹھنڈی سانس لے کر اسے اب تک کی ساری صورتحال بتائ۔
"يہ کيا آپ نے تمہارا دوست تمہارا دوست لگا رکھا ہے" يماما نے ناگواری سے کہا۔
"چلو تمہارا عاشق کہہ ليتے ہيں" وہ لب دباتا ہوا اسے چڑانے والے انداز ميں بولا۔
"آپ کو شرم آنی چاہئيے۔ کيا فضول بات ہے ۔۔ کس بناء پر کہہ رہے ہيں؟" وہ غصے ميں بپھری ہوئ بولی۔
"ارے جاؤ يار۔۔ وہ بيچارا تمہيں پرپوز تک کرنے کی غلطی کر بيٹھا ہے۔۔ اور ميں پھر بھی اسے تمہارا عاشق نہ کہوں۔ بھول گئيں وہ گفتگو جو ايک رات اس نے تمہيں فليٹ تک پہنچاتے وقت کی تھی۔ اور تم نے اسے يہ کہہ کر وارن کيا تھا۔۔ کہ تمہاری زندگی ميں ميرے علاوہ اور کوئ نہيں ہے" نائل کی باتوں پر وہ جتنا حيرت زدہ ہوتی کم تھا۔
"آ۔۔۔آپ کو يہ سب کيسے پتہ؟" وہ پوری آنکھيں کھولے اسے ديکھ رہی تھی۔
"ميری جان جو بندہ تمہاری گردن کے نشان تک سے واقف ہو۔ وہ اتنی بڑی بات سے انجان کيسے ہوسکتا ہے" اسکے سوال پر نائل اسے محبت پاش نظروں سے ديکھ کر رہ گيا۔ يماما کا ہاتھ بے اختيار اپنے اس نشان پر پڑا جو اسکی گردن پر موجود تھا۔
"آپ اتنے سالوں سے تھے کہاں؟" اب يماما اصل سوال پر آئ۔
"يہ بہت لمبی داستان ہے ابھی نہيں کچھ دنوں بعد بتاؤں گآ" وہ سرعت سے اسے ٹوک گيا۔
"مگر يہ اطمينان رکھو۔ جہاں بھی تھا۔ تم سے غافل ہر گز نہيں تھا" اسٹيرنگ سے ہاتھ ہٹا کر اس نے يماما کا ہاتھ تھاما۔
يماما کے چہرے پر اطمينان سا بکھر گيا۔ نائل نے اسی ہاتھ کو اسکے گرد پھيلا کر اسے اپنے حصار ميں چںد لمحوں کے لئے۔
يماما نے اطمينان سے لحظہ بھر کو آنکھيں موندی۔
اللہ نے اس کے لئے ايسا انعام رکھا تھا وہ سوچ بھی نہيں سکتی تھی۔
ابھی کچھ دور ہی بڑھے تھے کہ يکدم آسمان پر بادل گھر آۓ۔ نائل اس علاقے سے اچھی طرح واقف تھا۔ بارش اگر شروع ہوجاتی تو اس جگہ گاڑی چلانا مزيد خطرے کا باعث ہو سکتی تھی۔
اسی لمحے ايک گاڑی سامنے سے آئ۔
"نقاب گراؤ" نائل نے فورا يماما کو حکم ديا۔
وہ گاڑی اس تفتيشی آفيسر ہی کی تھی جو يماما کے قاتل کو ڈھونڈنے وہاں آيا تھا۔ نائل نے شکر کيا کہ اس نے فوری بھانپ ليا کہ کوئ گاڑی سامنے سے آرہی ہے۔ ورنہ اس کے لئے اس لمحے مصيبت کھڑی ہوجاتی۔
چند ہی لمحوں ميں وہاں تيز بارش شروع ہوگئ۔
وہ اس وقت ايسی جگہ پہ تھے جہاں کچھ کچھ آبادی موجود تھی۔
نائل نے اس طوفانی بارش ميں گاڑی چلانی مناسب نہ سمجھی۔
"ہميں يہاں رکنا پڑے گا" نائل نے يماما کو مطلع کيا۔
"کيا يہاں سڑک پر کھڑے رہيں گے۔" اس اچنبھے سے پوچھا۔
"جی جی بالکل تاکہ کوئ جنگل جانور آکر ہمارا قيمہ کرے" نائل نے اسکی معصوميت پر عش عش کيا۔ حالانکہ وہ اتنی بھی بے وقوف تھی نہیں۔ جتنی بے وقوفانہ بات کی تھی۔
"يار يہاں کسی گھر سے پتہ کرتا ہوں۔ اگر کچھ دير کے لئے وہ ہميں ٹہرا ليں" نائل نے مقامی گھروں کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
پھر ايک جگہ گاڑی روک کر اترا۔ ايک گھر کے باہر شايد کوئ اس گھر کا مالک اپنے جانوروں کو اندر لے کر جارہا تھا۔
نائل کی گاڑی رکتی دیکھ کر تيزي سے اس کی جانب آيا۔
وہاں کی مقامی زبان ميں وہ دونوں گفتگو کرنے لگے۔ يماما کو تو ايک لفظ بھی پلے نہيں پڑ رہا تھا۔ وہ حيران تھی نائل کس قدر شستہ لہجے ميں اس بندے کے ساتھ بول رہا تھا۔
"چلو۔۔ چند گھنٹے يہيں پر رکتے ہيں۔ کيونکہ سڑک پر کھڑے رہنے کی بھی صورت ميں اگر کوئ تودہ ہم پہ گر پڑا تو آج جو ايک دوسرے کے زندہ رہنے پر خوش ہورہے ہيں۔ آج ہی دار فانی کو کوچ کرجائيں گے" نائل نے اسے اترنے کا عنديہ ديا۔
يماما اسکی باتوں پر پھر سے دل ہی دل ميں خفا ہوتی گاڑی سے اتری۔
وہ بندہ جس کا گھر تھا وہ تب تک دو چھترياں لا چکا تھا۔ دونوں انہيں تھماتے وہ تيزی سے اندر کی جانب بڑھا۔
نائل گاڑی کو لاک کرکے يماما کا ہاتھ تھامے چھتری تانے تيزی سے اس کی تقليد کرتا اس کے گھر کے اندر کی جانب لپکا۔
_________________________