"Care to join me, Goodfellow?"
Oh, ice-boy. A moonlight stroll with you? Do you even have to ask?"
- Julie Kagawa, The Lost Prince
آدمی چاہے جتنا بھی اصول پسند کیوں نہ ہو، اسے کہیں نہ کہیں سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر شخص کی گرہیں مختلف ہوتی ہیں اور انھیں کھولنے کے منتر بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ کشیپ صاحب جب انجینئر انکلیو کی سوسائٹی آفس پہنچے تو وہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ کیا وہ واقعی اس وقت اپنی مطلوبہ جگہ پر کھڑے ہیں یا کسی مندر میں؟ اندر سے پوجا ارچنا کی آواز باہر تک آ رہی تھی۔ چار وناچار کشیپ صاحب نے ادھ کھلے دروازے کی گھنٹی پر انگلی رکھ ہی دی۔ پھر تھوڑی ہمت اور کی ، انھوں نے اس ادھ کھلے دروازے کو مزید کھول دیا۔ اندر کا نظارہ گھر اور مندر کا امتزاج پیش کررہا تھا، آفس تو قطعی نہیں لگ رہا تھا۔ ایک بڑے سے شیولنگ کے سامنے ایک تقریباً پچاس سالہ شخص ہاتھ جوڑے ’’اوم جے جگدیش‘‘ کا جاپ کررہا تھا۔ کشیپ صاحب نے اندازہ لگا لیا کہ یہ سوسائٹی کے منیجر بھٹ صاحب ہی ہیں۔ بھٹ صاحب شاید کچھ دیر پہلے ہی اشنان سے فارغ ہوئے تھے۔ ان کی کمر پر ایک بھیگا ہوا تولیہ لپٹا ہوا تھا،اس کے علاوہ جسم پر کچھ نہ تھا۔ کشیپ صاحب نے کھنکھارا اور انھیں آوازدی’’بھٹ صاحب!‘‘
بھٹ صاحب نے ایک نگاہ غلط ان پر ڈالی اور دوبارہ پوجا میں لگ گئے۔
’’جو دھیاوے پھل پاوے، دکھ وناشے من کا...سکھ سمپتی گھر آوے ، کشٹ مٹے تن کا... کہیے؟‘‘
منتروں کے ساتھ بھٹ صاحب نے ’’کہیے‘‘ اس طرح کہا تھا جیسے وہ بھی منتر کا حصہ ہو ۔ کشیپ صاحب کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید نوٹس ہی نہیں کرپاتا ۔
’’جی، میں اپنے بنگلے کی چابی لینے آیا تھا۔‘‘
بھٹ صاحب پوجا کی تھالی ہاتھوں میں لیے کشیپ صاحب کے پاس آئے ، ان کی زبان سے اب تک منتر جاری تھے۔ کشیپ صاحب نے موقع کی مناسبت دیکھتے ہوئے عقیدت کا اظہار کیا۔
’’مات۔پتا تم میرے، شرن گہون میں کس کی... تم بن اور نہ دوجا، آس کروں میں جس کی...پیپر...پیپر۔‘‘
مستعد کھڑے کشیپ صاحب نے الاٹمنٹ پیپر فوراً بڑھا دیے۔ بھٹ صاحب نے کاغذات کا باریکی سے معائنہ کیا۔
’’یہ اے۔کشیپ کون ہے؟‘‘
’’جی، میں ہی ہوں۔‘‘
’’لیکن ہم سے تو کہا گیا تھا کہ ریلوے کا کوئی انجینئر آئے گا؟‘‘
کشیپ صاحب تلملا کر رہ گئے لیکن مصلحتاً صبر سے کا م لیا، ’’جی، وہ میں ہی ہوں۔‘‘
بھٹ صاحب نے انھیں سر سے پاؤں تک تفتیشی نگاہوں سے دیکھا، ’’بیوی کہا ں ہے؟‘‘
اس سے پہلے کہ کشیپ صاحب جواب دیتے، بھٹ صاحب منتر جاپ کرتے ہوئے باہر نکل آئے اور ادھر اُدھر نظر دوڑائیں ، لیکن جب مسز کشیپ آئی ہی نہیں تھیں تو وہ نظر کیسے آتیں۔ کشیپ صاحب نے صفائی پیش کی، ’’وہ Next Week آئیں گی۔‘‘
بھٹ صاحب منتر بھول بھال کر پھٹ پڑے، جیسے یہ جواب ان کے لیے حسب توقع رہا ہو، ’’نیکسٹ ویک آئیں گی، نیکسٹ منتھ آئیں گی، نیکسٹ ائیر آئیں گی...یہی کہہ کر کئی بار چھٹے سانڈ آ جاتے ہیں یہاں...چھٹے سانڈ سمجھتے ہو نا؟...Bloody Bachelors ۔‘‘
اسی دوران ایک جوان اور ماڈرن لڑکی وہاں سے گذری جس نے جینس کو کمر کے اتنا نیچے پہن رکھا تھا کہ اس کی سرخ پینٹی (panty) باہر چھلک اٹھی تھی۔ وہ موبائل پر کسی سے بات کررہی تھی۔ کشیپ صاحب کو لگا کہ اس نے انھیں مسکرا کر دیکھا تھا لیکن بھٹ صاحب کا چہرہ لڑکی کی پینٹی سے زیادہ سرخ بلکہ سیاہ ہوگیا۔
’’جہاں ایسی پھلجھڑیاں گھومیں گی ، وہاں سالے چھٹے سانڈ ہی آئیں گے۔ انھیں دیکھ کر دل کرتا ہے کہ ان کی آدھی کھسکی ہوئی پتلونیں پوری نیچے کھینچ کے، ان کی....‘‘
اس سے پہلے کہ وہ اپنا خطرناک جملہ مکمل کرتے، کشیپ صاحب نے انھیں ٹوکا، ’’بھٹ صاحب! ہماری مسز آ رہی ہیں‘‘، پھر انھوں نے طنز آمیز انداز میں کہا، ’’آپ چاہیں تو ہم لکھ کے دے سکتے ہیں...میں تو سوچ رہا تھا کہ ان کے آتے ہی آپ جیسے کسی دھارمک مہا پرش سے گھر میں ستیہ نارائن بھگوان کی کتھا کرادوں۔‘‘
’’آپ ہمارے مزاج کے آدمی لگتے ہیں۔ وہ سامنے والے بنگلے پر پہنچیے ، میں چابیاں لے کر آتا ہوں۔‘‘
کشیپ صاحب جانتے تھے کہ ایسے سنکی لوگوں کو کیسے رام کیا جاتا ہے، لیکن بھٹ صاحب کی شخصیت کی گرہ اتنی ڈھیلی بھی نہیں تھی جو پہلی ملاقات ہی میں کھل جاتی۔ انھوں نے کشیپ صاحب کے بنگلے کا تالا کھولتے ہوئے ایک اور سوال دے مارا۔
’’آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کس ٹائپ کے انجینئرہیں؟‘‘
کشیپ صاحب اس بیہودہ سوال سے چکراگئے، ’’کس ٹائپ کا انجینئر ہوں؟ کتنے ٹائپ کے انجینئر کو آپ جانتے ہیں؟‘‘
’’جناب! انجینئر انکلیو نے ہمیں اپنا منیجر بنایا ہے تو ہماری قابلیت کو دیکھ کر ہی بنایا ہوگا نا؟‘‘
’’اوکے۔ تب تو آپ CWR سمجھتے ہی ہوں گے...Continuous Welded Rail?...تو اس کو انسٹال کرنے سے پہلے Tensil Stress ، Compressive Stress جیسے factors کو ماپ کر کے ٹریکس ریل Neutral Temperature پر laid ہوں، یہ سپرویژن جس ٹائپ کے انجینئر کرتے ہیں، میں اسی ٹائپ کا ہوں۔‘‘
کچھ دیر تک بھٹ صاحب ساکت و صامت منھ کھولے ان کا چہرہ دیکھتے رہے ، پھر انھوں نے ایک جھرجھری لی۔
’’اوکے۔ اوکے۔ ویسے آپ لوگوں کے چہرے سے آپ کی گہرائیوں کا پتہ لگانا مشکل کام ہے، جیسے وہ لڑکا جو ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ میں پانچ کروڑ جیت کے چلا گیا؟ ‘‘ انھوں نے غضب کی پھرتی سے موضوع بدلا، ’’ایک اور مست آدمی رہتے ہیں اس انکلیو میں، جوہر بھائی...آپ ہی کے ملک والے ہیں...چلیے ملوا دیتا ہوں۔‘‘
’’نہیں۔ مجھے اپنے ملک والوں میں کوئی انٹریسٹ نہیں ہے...مطلب پھر کبھی۔‘‘
’’ارے چلیے بھی، آپ سے ایک بنگلے چھوڑ کر ہی تو رہتے ہیں۔‘‘
’’یہ بغل والا بنگلہ کس کا ہے؟‘‘
بھٹ صاحب کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گذر گئے، لیکن ان میں دہشت کا رنگ کافی نمایاں تھا، ’’شش...شش...پلیز یہ مت پوچھیے۔ بعد میں...بعد میں بتاؤں گا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ارے بات سمجھیے جناب۔‘‘
کشیپ صاحب نے دروازے پر لگی نیم پلیٹ کو پڑھنے کی کوشش کی، ’’کون ہیں یہ مسز رابنسن؟‘‘
بھٹ صاحب نے وہاں پڑا ایک کاغذ اٹھایا اور اس پر کچھ لکھ کر کشیپ صاحب کو پکڑا دیا۔
کشیپ صاحب نے با آواز بلند پڑھا، ’’مینٹل کیس ہے؟‘‘
بھٹ صاحب نے اپنا سر پیٹ لیا۔ ایک بڑے منھ والا کتا بھونکتا ہوا مسز رابنسن کے بنگلے سے باہر نکلا اور بھٹ صاحب کی طرف لپکا۔ بھٹ صاحب چیختے چلاتے بھاگے، ’’بولا نہیں تھا...بس لکھا تھا...لکھنا بھی پاپ ہے کیا؟‘‘
کتے نے بھٹ صاحب کا تعاقب ان کے گھر تک کیا۔ کشیپ صاحب جو حیرت سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے، جب کتے کو اپنی طرف پلٹتے دیکھا تو ہاتھ جوڑ کر نمستے کیا اور جلدی سے اپنے بنگلے کے اندر کھسک لیے۔
بنگلے کی سجاوٹ دیکھ کر کشیپ صاحب کی بانچھیں کھل گئیں۔ انھیں یہ بنگلہ اس شہر گناہ (Sin City) کا ایک بیش قیمت تحفہ محسوس ہوا۔ خوب صورت مسہری کو دیکھ کر انھیں کئی خواب ستانے لگے جنھیں وہ اس شہر میں پورا کرنا چاہتے تھے۔ صوفہ پر بیٹھے تو اس کے ملائم گدے نے انھیں کسی اور دنیا میں اچھال دیا۔ چاروں طرف انھیں کمر سے نیچے کھسکی ہوئی پتلونیں نظر آنے لگیں اور اپنا بنگلہ ’حرم‘ محسوس ہونے لگا۔
پتہ نہیں کب تک کشیپ صاحب اپنے تصورات کی دنیا میں گم رہتے، لیکن موبائل کی گھنٹی انھیں حقیقی دنیا میں کھینچ لائی۔ انھوں نے موبائل کے ڈسپلے پر نظر ڈالی، ان کی بیوی کا فون تھا۔ انھوں نے برا سا منھ بنایا اور فون ریسیو کیا۔
’’کیا ہے؟‘‘
’’بمبئی پہنچ گئے؟‘‘
’’بمبئی کی ٹرین پکڑی تھی تو بمبئی نہیں پہنچیں گے تو کیا کنیا کماری پہنچیں گے؟‘‘
’’کوئی فلم اسٹار نظر آیا؟ وہاں تو کہتے ہیں کہ ایسے ہی نظر آ جاتے ہیں، راستے میں؟‘‘
’’ہاں! شاہ رخ خان آیا تھا ہم کو اسٹیشن پر لینے کے لیے۔‘‘ کشیپ صاحب جھنجھلا گئے۔
’’بچوں کے بغیر اچھا نہیں لگ رہا ہوگا نا؟‘‘
اسی وقت کشیپ صاحب کے دماغ میں ایک آئیڈیا بجلی بن کر کوندا۔انھوں نے اپنا لہجہ قدرے نرم کرلیا؛ ’’ہاں اچھا تو نہیں لگ رہا ہے۔ پورے راستے آپ لوگوں کی یاد آتی رہی۔ سوچتا رہا کہ آپ لوگوں کا ٹکٹ بھی کنفرم نہیں ہے، کیسے آئیے گا؟ ...سنیے، ایک کام کیجیے؛ چندن سے بول کے ٹکٹ کینسل کرادیجیے۔ میں یہاں سے دیکھتا ہوں ، جس تاریخ کا بھی کنفرم ٹکٹ ملتا ہے، کرادیتا ہوں۔ تب تک آپ لوگ وہیں رہیے، آرام سے۔ میں چتر ویدی کو بول دوں گا کہ وہ گھر ہم ابھی خالی نہیں کر رہے ہیں۔‘‘
’’ارے ٹکٹ کا ٹینشن مت لیجیے ۔ چندن نے آپ کے جاتے ہی سیدھا DRM سے کنفرم کرالیا ہے۔‘‘مسز کشیپ نے بری خبر سنائی۔
کشیپ صاحب نے دل ہی دل میں چندن کو گالی سے نوازا، پھر مزید فکرمند ہونے کا ناٹک کیا، ’’اچھا ہاں، بچوں کی ٹی۔سی۔ کا معاملہ بھی تو ہے۔ جلد بازی میں کوئی گڑبڑ ہوگئی تو یہاں ان کے ایڈمیشن میں پرابلم ہوگی۔ میں دیکھتا ہوں، جیسے ہی چھٹی ملتی ہے، وہاں آکر...‘‘
’’ہو گئی...ٹی۔سی۔بھی مل گئی۔‘‘
’’مل گئی؟ لیکن وہ شفٹنگ کا اتنا سارا سامان بھی تو ہے نا؟ کیسے کیجیے گا یہ سب اکیلے آپ؟‘‘
’’سب ٹرک میں لوڈ کرارہی ہوں۔ یہ لوگ بول رہے ہیں کہ بھابھی جی اگلے ہفتے آپ کے ساتھ ہی ٹرک بھی وہاں پہنچ جائے گا۔‘‘
’’اگلے ہفتے؟ میں کیا بول رہا تھا کہ اپنے سارے رشتے دار تو اُدھر ہی ہیں۔ ایک بار ممبئی آگئے تو ان سے کہاں مل پائیں گے۔ ابھی ٹائم ہے تو سب سے ملتی آؤ۔‘‘ کشیپ صاحب نے آخری بار کوشش کی۔
’’یہ لو، الٹا سارے رشتے دار ممبئی آنے کی تیاری میں ہیں۔ تائی جی بولیں کہ سمن جس دن تم نے بتایا کہ تم بمبئی جا رہی ہو، اسی رات سپنے میں سدھی ونایک نظر آئے۔ اب دیکھو بپّا اپنے بھگتوں کو کیسے بلاتے ہیں۔ سدھی ونایک کتنی دور ہے اپنے گھر سے؟‘‘
’’پتہ نہیں۔ اب چلو فون رکھو۔ ایس ٹی ڈی کا بل آ رہا ہے۔‘‘
کشیپ صاحب نے غصے میں تقریباً موبائل پٹک ہی دیا۔ ان کی کوئی حکمت عملی کام نہیں آئی۔ وہ جھنجھلا کر باتھ روم گئے، لیکن وہاں پانی نہ دیکھ کر ان کی کھسیاہٹ میں اضافہ ہوگیا۔ انھوں نے ایک بالٹی اٹھائی اور بھٹ صاحب پر اپنا غصہ اتارنے کے لیے چل پڑے۔ لیکن دور سے ہی انھیں بھٹ صاحب ایک نوجوان لڑکے سے پٹتے نظر آئے۔ وہ لڑکی بھی وہیں کھڑی تھی جس کی سرخ پینٹی پر بھٹ صاحب نے فقرہ کسا تھا۔ کشیپ صاحب سمجھ گئے تھے کہ معاملہ کیا ہے، انھوں نے فوراً راستہ بدل دیا۔ وہ مسز رابنسن کے بنگلے پر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا ، اندر سے کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔ کشیپ صاحب جلدی سے تیسرے بنگلے کی طرف بڑھ گئے اور ساتھ ہی ساتھ بڑ بڑاتے بھی جا رہے تھے، ’’کرُو لوگ دنیا داری پر زیادہ یقین نہیں رکھتے۔ جتنے زیادہ رشتے جوڑوگے، اتنے ہی بندھوگے۔ ممبئی میں ہمیں ملک والی کوئی غلطی نہیں دہرانی تھی ، اس لیے یہ ملک والے صاحب کو ہم avoid کرنا چاہتے تھے لیکن پانی کے پرابلم نے ا ن کے گھر کی گھنٹی بجانے پر مجبور کردیا۔ ‘‘
اس بنگلے کے نیم پلیٹ پر ’’کے۔ جوہر‘‘ لکھا ہوا تھا۔ دروازہ کھلا اور کشیپ صاحب کا ہم عمر لگنے والا ایک موٹی مونچھوں اور کھچڑی بالوں کے ساتھ ایک شخص نمودار ہوا۔ وہ سفید پاجامہ اور بنیان پہنے ہوئے تھے۔ اس کے بغل کے بالوں کے گچھے باہر لٹک رہے تھے۔ کشیپ صاحب کو کراہیت کا احساس ہوا لیکن مجبوری نے اسے بھی گوارا کرلیا۔
’’نمس...‘‘ کشیپ صاحب نمستے کرتے کرتے رک گئے، پھر پورے’’ کشیپ۔کر ‘‘ والے انداز میں مخاطب ہوئے، ’’ہائے! کشیپ...مائی سیلف اے۔کشیپ۔‘‘
جوہر کا منھ گٹکے سے بھرا ہوا تھا، نہیں کھل پایا تو اس نے سر کی جنبش سے ہی کام لے لیا۔
’’ہم یہاں پچیس نمبر میں ابھی ابھی آئے ہیں۔ There is some problem in water supply, so I thought to check..."
جوہر ایک قدم آگے بڑھا اور لان میں ایک زوردار پچکاری ماری۔ کشیپ صاحب نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا۔ جوہر اب کھل کر مسکراسکتا تھا۔
’’پتہ تھا، آپ ہی ہوں گے۔ ابھی بھٹ صاحب کا فون آیا تھا، بولے کہ بھئی انکلیو میں آپ کے ملک والے آئے ہیں۔ میں نے کہا ، بھٹ صاحب! ملک مطلب دیش ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے انکلیو میں سب ہمارے ملک والے ہی ہیں۔ آئیے۔ آئیے۔‘‘
’’جی پھر کبھی...ہم بس...‘‘
’’ارے آئیے بھی...تو بھٹ صاحب بولے کہ آپ کے گاؤں والے ہوں گے۔ میں نے کہا ، بھٹ صاحب میں الہٰ آباد کا ہوں اور الہٰ آباد گاؤں نہیں ہے...یہاں ممبئی میں لوگ گاؤں کا مطلب نہیں سمجھتے...دلّی کو بھی گاؤں بولتے ہیں...بیٹھیے نا، میں ذرا کلی کر کے آتا ہوں۔‘‘
کشیپ صاحب نے کمرے میں نظر یں دوڑائیں۔ ساری چیزیں بے ترتیب حالت میں تھیں۔ کمرہ کیا تھا، کباڑ خانہ تھا۔ عریاں اور نیم عریاں تصویروں والے کئی رسالے پڑے ہوئے تھے۔ ڈائننگ ٹیبل پر ایک لیپ ٹاپ رکھا ہوا تھا جس پر جوہر کا فیس بک پروفائل کھلا ہوا تھا۔ جوہر تیزی سے باہر لوٹا، ’’سوری کشیپ صاحب، گاؤں میں تھا تو کھینی کا شوق پال لیا ...اسے چھوڑنے کے لیے انجینئرنگ کالج میں سگریٹ پکڑ لی...پھر سگریٹ چھوڑنے کے لیے پان کا سہارا لیا،اور پان چھوڑنے کے لیے گٹکا... سالا چھوٹا کچھ نہیں، چار چار شوق جان کو لگ گئے...آپ کیا لیں گے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔ ہم تو بس پانی کے بارے میں پوچھنے آئے تھے...بنگلے میں پانی نہیں آ رہا ہے...‘‘کشیپ صاحب کو جوہر سے زیادہ پانی میں دلچسپی تھی۔
’’آپ کے ہاتھ میں بالٹی دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا۔دراصل آپ کا بنگلہ بند پڑا تھا، اس لیے سپلائی knob بند کردیا ہوگا۔ باہر لان میں آپ کو ایک لال رنگ کا knob نظر آئے گا۔ اسے کھول دیجیے گا، پانی آ جائے گا۔‘‘
کشیپ صاحب کا کام ہوچکا تھا، اس لیے اٹھ کھڑے ہوئے، ’’اوہ۔ تھینک یو۔ چلتے ہیں۔‘‘ لیکن جوہر نے ان کا ہاتھ اپنائیت سے پکڑ لیا۔
’’ارے یہیں فریش ہو جائیے، کیا فرق پڑتا ہے۔ ابھی سپلائی چالو کریں گے تو پتہ نہیں ٹنکی کب بھرے گی اور کب نلکوں سے پانی اترے گا۔‘‘
کشیپ صاحب نے کمزور لہجے میں معذرت کی، ’’نہیں ۔ آپ لوگوں کو خواہ مخواہ تکلیف ہوگی۔‘‘
جوہر نے حیرانی سے ان کی طرف دیکھا، ’’آپ لوگ؟ میں یہاں اکیلا ہوں بھئی۔‘‘
’’بیچلر (Bachelor)ہیں؟‘‘
’’ارے یہ سالے بیچلروں کا کہاں مکان دیتے ہیں۔ وائف پونہ میں ٹیچر ہے، بیٹا بھی وہیں پڑھ رہا ہے...ان کا پانچ دنوں کا ہفتہ ہوتاہے...جمعہ کی شام کو یہاں چلے آتے ہیں اور سموار کی صبح رخصت...اس درمیان صرف میں اور میری تنہائی۔‘‘ جوہر نے ہنستے ہوئے کہا، ’’آئیے ، باتھ روم دکھا دیتا ہوں...آئیے بھی...No fromalities please ۔‘‘
کشیپ صاحب کیا کرتے، ایک تو غسل کرنے کی شدید خواہش اور دوسرے جوہر کا پر خلوص اصرار، باتھ روم کی طرف بڑھ گئے۔ اگرچہ انھوں نے اس طرح تو غسل نہیں کیا جس طرح وہ اپنے باتھ روم میں پرسکون انداز میں کرتے ہیں، کیوں کہ مثل مشہور ہے، ’’اپنا گھر ہگ بھر، پرایا گھر تھوک کا ڈر۔‘‘خیر، اتنا بھی کیا کم تھا کہ سفر کی تکان اتار لی۔ باتھ روم سے باہر نکلے تو کشیپ صاحب نے کمرے میں نمایاں تبدیلی محسوس کی۔ ٹیلی ویژن پر اب Ftv کی جگہ ڈسکوری چینل نظر آرہا تھا اور عریاں تصویروں والے رسالوں کی بجائے وہاں ’’سائنس ٹو ڈے‘‘ اور "Shipping Mannuals" دکھائی دے رہے تھے، حتیٰ کہ لیپ ٹاپ بھی بند پڑا تھا۔ کشیپ صاحب کے ہونٹوں پر ایک شرارت بھری مسکراہٹ دوڑ گئی۔
’’وائف پونہ میں اور آپ یہاں...مطلب یہ کہ آپ کی عیش ہے، کیوں؟‘‘
جوہر نے ان کی طرف چائے کی پیالی بڑھاتے ہوئے تائید کی، ’’جی ہاں، مطلب زندگی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ ہم مرین انجینئرس (Marine Engineers) کے کھیل کا اصل میدان تو Dockyard ہوتا ہے۔ آج کل کمپنی نے کچھ زخمی Catamarans بھیجے ہوئے ہیں، تو انھی سے کھیل رہے ہیں۔‘‘
کشیپ صاحب نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے انھیں غور سے دیکھا، ’’ کھیلنے کے لیے آپ کے ڈاک یارڈ پر صرف Catamarans ہیں یا کچھ Cats وغیرہ بھی ہیں؟ ‘‘
’’Cats ?...ہاں، بلیاں تو رہتی ہی ہیں ڈاکس پر ...مچھلیوں کے چکر میں۔‘‘
کشیپ صاحب نے عریاں تصویروں والی ایک میگزین کو مسہری کے گدے کے نیچے سے باہر کھینچ لیا، ’’ارے ان cats کی کون کم بخت بات کررہا ہے۔‘‘پھر انھوں نے ٹی وی کا ریموٹ اٹھا کر چینل بدل دیا۔ ایک بار پھر اسکرین پر Ftv اپنے جلوے بکھیرنے لگا۔ جوہر کچھ کچھ شرمندہ نظر آ رہا تھا۔
’’ارے یہ تو بس یوں ہی، کبھی کبھی...آج کل وہ پہلے جیسا ماحول نہیں رہا کشیپ صاحب۔ چھوٹے شہروں میں افسر cats کا شکار کر لیتے ہوں گے لیکن یہاں ممبئی میں وہ خود ان کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بڑا محتاط رہنا پڑتا ہے، خاص کر آفس میں...کب کون بریکنگ نیوز بن جائے، کسی کو نہیں پتہ۔ بنگلہ، کار، اچھی تنخواہ، عزت؛ پل بھر میں سب خاک ہو سکتا ہے۔‘‘
کشیپ صاحب کی چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ جوہر کی بات سے متفق ہیں، "You are right, optimum risk of derailment of a train is always in the vicinity of workstations...وہی maximum trap-points ، وہی catch points اور sand drags رہتے ہیں۔ سارے secondary tracks وہیں مین لائن سے جوائن ہوتے ہیں نا۔‘‘
’’جی ہاں، اسی لیے میں کبھی کبھی یہ چینل اور اس طرح کے میگزین دیکھ کر دل کی بھڑاس نکال لیتا ہوں...Just for scientific analysis of the emerging social trends...it keeps your train on track, you see."
کشیپ صاحب نے پہلو بدلا، گفتگو کچھ زیادہ ہی تکنیکی ہوتی جا رہی تھی۔
’’اچھا ایک بات بتائیے، یہاں جو لیڈس بار کا جو سیکسی سوشل ٹرینڈ ہے، اس کے scientific analysis کے لیے کہاں جاتے ہیں؟‘‘
"Ladies Bars are out of social radar, Kashyap sahab"
’’شاید اسی لیے وہ دونوں طرح سےsave ہو گئے ہیں۔ یعنی socially بھی اور scientifically بھی۔آپ جیسے قابل انجینئر کے مائیکرواسکوپک ویژن سے آج تک بچے ہوں، میں نہیں مانتا۔‘‘کشیپ صاحب نے جوہر کو چھیڑا۔
جوہر نے ان کی طرف حیرت سے دیکھا، ’’آپ کا مطلب یہ ہے کہ ممبئی میں آج بھی ڈانس بار چل رہے ہیں؟‘‘
’’اب اتنے معصوم بھی مت بنیے۔ پلیز، اب مجھ سے یہ مت کہیے گا کہ آپ کو اس پیراڈائز ہوٹل کے گرما گرم اڈے کے بارے میں بھی پتہ نہیں ہے جس کی انٹری اس کے باہر بیٹھا چورسیا پان والا دلاتا ہے، دو سو روپے کے پان کے بدلے میں؟‘‘
’’سچ مچ؟ ہاں، شاید مجھے پتہ ہے اس پیراڈائز ہوٹل اور اس پان والے کے بارے میں۔‘‘
’’تو پھر ہوجائے آج شام؟ آفس کے بعد؟‘‘
جوہر فکرمند نظر آرہا تھا ، تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے کندھے اچکائے۔
’’نہیں۔ Safe ہے تو کیا ہوا، شوشل اسٹیٹس (social status) بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ میں ایک reputed institution سے تعلیم یافتہ انجینئر ہوں، کسی ایرے غیرے ادارے کا ڈپلوما ہولڈر نہیں ہوں۔ پان کھاتا ہوں لیکن ایک پان والے کے level تک نہیں گر سکتا۔ آپ جائیے ، taste is a variable not a constant ۔ معاف کیجیے گا، لیکن میرے ذوق تھوڑے اونچے درجے کے ہیں۔‘‘
کشیپ صاحب اس براہ راست وار سے سٹپٹا سے گئے، انھوں نے یہاں سے کھسک لینا ہی مناسب سمجھا۔
’’ہم چلتے ہیں۔ آپ کو بھی آفس کے لیے نکلنا ہوگا۔ ویسے for your kind information، ہم بھی کسی ایسی ویسی یونیورسٹی کے ڈپلوما ہولڈر نہیں ہیں۔‘‘
’’ارے کشیپ صاحب، آپ تو برا مان گئے ...میں تو بس ایک عام بات کر رہا تھا اور...‘‘
’’ہم بھی بس آپ کے variables چیک کررہے تھے۔‘‘
جوہر نے چونک کر ان کی طرف دیکھا، ’’مطلب آپ شام کو وہاں نہیں جا رہے ہیں؟‘‘
’’بھائی صاحب! آپ کے شہر کا میٹرو پروجیکٹ رکا پڑا ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ ہمیں ان چیزوں کے لیے فرصت ملے گی؟ ویسے آپ سے مل کر سچ مچ خوشی ہوئی۔ ‘‘
کشیپ صاحب دروازے کی طرف بڑھے ۔ وہاں پاس ہی میں ایک ٹفن پڑا ہوا دیکھ کر مسکرائے، ’’آپ کھانا گھر سے ہی لے جاتے ہیں آفس؟‘‘
’’جی ہاں،ہمیشہ۔ باہر کے کھانے پر آپ بھروسہ نہیں کرسکتے۔‘‘
کشیپ صاحب نے جوہر کے سراپا پر ایک نظر ڈالی اور مسکرائے، ’’آپ کی یہ مونچھیں کمال کی ہیں۔ لگتا ہے وراثت میں ملی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں، ہمارے خاندان میں مونچھوں کی روایت ہے۔ لیکن صرف مردوں میں۔ ‘‘ جوہر بولتاہوا ہنس پڑا۔ لیکن کشیپ صاحب نے اس کی ہنسی کا ساتھ نہیں دیا، صرف مسکرانے پر اکتفا کیا، ’’ان مونچھوں میں آپ بڑے cute لگتے ہیں۔‘‘
’’تھینک یو۔‘‘
کشیپ صاحب باہر نکلے تو ان کے چہرے پر شدید ناگواری کے رنگ بکھرے ہوئے تھے، وہ بڑبڑائے، ’’چِرکُٹ‘‘۔اپنے بنگلے کے لان پر پہنچے تو ان کے بڑبڑانے کی آواز تھوڑی بلند بھی ہو گئی۔
’’اس گدھے جوہر کو دیکھا تو سمجھ میں آیا کہ ہم لوگوں کو کیوں ’انڈا‘ نظر آتے ہیں۔ بالکل صحیح وقت پر مونچھیں صاف کردیں آپ نے کشیپ صاحب۔ اب جلدی جلدی تھوڑا اسکور (score) بھی بنائیے، کب تک سالا ایک رن پر ناٹ آؤٹ رہیں گے۔‘‘
انھوں نے بنگلے کے لان میں پانی سپلائی کی ٹونٹی کھولی تو پانی اتنی تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف دوڑ پڑا کہ اس کی سنسناہٹ آواز پوری فضا میں بکھر گئی۔