Dare to love yourself
as if you were a rainbow
with gold at both ends.
- Aberjhani,
The River of Winged Dreams
’’ آج آپ سے نجات مل گئی ہے تو چلیے بتادیتا ہوں۔ کہاں سے شروع کروں؟ آپ کی آبائی نتھو لال کی مونچھوں سے یا پھر آپ کے اس خاندانی یونیفارم سے؟سفاری سوٹ...بلیک بوٹ...سچی سر، بڑے cute لگتے ہیں آپ...چِرکُٹ۔‘‘
کشیپ صاحب بظاہر پرسکون نظر آ رہے تھے لیکن اندر کا حال تو وہی جانتے تھے۔ادھر کم بخت سریش رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، نہ کوما، نہ فل اسٹاپ۔
اوہ!معاف کیجیے گا، میں نے درمیان سے شروع کردیا۔ مجھے اخلاقاً پہلے آپ سے کشیپ صاحب کا تعارف کرانا چاہیے تھا۔ چلیے اب کرا ئے دیتا ہوں۔آپ سے ملیے، ’’مسٹر اے ۔ کشیپ، بی۔ای، ایم ۔ٹیک (گولڈ میڈلسٹ)‘‘۔ انھیں اپنا ادھورا تعارف پسند نہیں ہے۔آپ ریلوے میں انجینئر ہیں۔ خیر ، انجینئر اور ڈاکٹر تو ہمارے یہاں ککر متّے کی طرح پائے جاتے ہیں لیکن کشیپ صاحب وضع و قطع سے لے کر کردار و اطوار تک اللہ میاں کی ایک ایسی بے مثل تخلیق ہیں جو دوبارہ اس سے کبھی سرزد نہیں ہوئی ۔ عمر یہی کوئی ۳۵ کے آس پاس ہی ہوگی لیکن زبردستی کی سنجیدگی اور خود ان کی وضع کردہ ظاہری بناوٹ لوگوں کو ان کے نام کے آگے ’صاحب‘ جوڑنے پر مجبور کردیتی تھی؛ صرف ان کے سامنے نہیں بلکہ ان کی غیر حاضری میں بھی، جیسا کہ ہم بھی یہاں مجبور نظر آ رہے ہیں ۔ سفاری سوٹ کے بغیر کشیپ صاحب کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ سال کے بارہ مہینے وہ سفاری سوٹ میں نظر آتے ہیں۔ اس استقلال کی ایک معمولی سی جھلک ان کے تیل سے چپڑے ہوئے سر کے بالوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جو درمیان سے دو برابر حصوں میں کچھ اس طرح منقسم ہوتے ہیں کہ مجال ہے کسی حصے کو اپنی حق تلفی کا احساس ہوجائے۔ انجینئر ہیں تو ظاہر ہے کہ پڑھے لکھے بھی ہوں گے۔انگریزی فر فر بولتے ہیں اور اس کمال معصومیت سے بولتے ہیں کہ سننے والے کو خواہ مخواہ یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ ہم نے غیر زبانوں کے الفاظ کو معرب، مفرس اور مہند کے ساتھ ساتھ’معنگرز‘ بھی کرلیا ہے۔ ان کے خالص دیسی لہجے میں اس بدیسی زبان کی ماں بہن ہوتا دیکھ کر مخاطب کاسینہ فخر سے پھول جاتا ہے کہ بالآخر ہم نے انگریزوں کے ساتھ ساتھ ان کی زبان کو بھی دھول چٹا دیا۔
کشیپ صاحب اپنی شرطوں پر زندگی جینے کے عادی ہیں۔ کسی سے مرعوب ہونا تو دور کی بات، کسی سے متاثر ہونا بھی انھوں نے نہیں سیکھا ۔بلا کی خود اعتمادی ہے ان میں ، لیکن اس دن وہ خود اپنی ہی نظر وں میں گر گئے۔ اگرچہ انھی کے اعزاز میں یہ پارٹی دی گئی تھی لیکن ایسا لگتا تھا جیسے سب کچھ منصوبہ بند ہو۔ ان کے ماتحتوں نے پورے پانچ برسوں کا ان سے بدلہ لے لیا ۔کل تک جنھیں ان سے آنکھیں ملا کر بات کرنے کی ہمت نہیں تھی، آج وہی ان پر ہنس رہے تھے، ان کا مذاق اڑا رہے تھے۔ مذاق کی بھی ایک حد ہوتی ہے، یہ تو ان کی کردار کشی تھی۔یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ ان کی الوداعی تقریب نہ ہو بلکہ تبرے بازی کی کوئی مجلس ہو ۔ حالاں کہ بعد میں وہ بڈھا منیجر بھاسکر مائیک پر آ کر صفائی بھی پیش کرگیا ، ’’مسٹر کشیپ! ہم چاہتے تھے کہ اس الوداعی تقریب کو بوجھل بنانے کی بجائے اسے خوشگوار بنایا جائے۔ لہٰذا ، یہ کارٹون فلم ہمارے شعبے کے animators نے آج کی اس شام کو ہلکا پھلکا بنانے کے لیے تیار کیا تھا۔اس کا مقصد آپ کو تکلیف پہنچانا نہیں تھا بلکہ ہم سب آپ کو مسکراتے ہوئے وداع کرنا چاہتے تھے۔‘‘
سالوں نے خود تو مسکرانے کے لیے اچھا بہانہ ڈھونڈلیا لیکن بیچارے کشیپ صاحب کو اپنے چہرے پر نمائشی مسکراہٹ سجانے کے لیے کتنے جتن کرنے پڑے تھے، ان کے سوا بھلا اور کون جان سکتا تھا۔یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ تفریح کے نام پر کشیپ صاحب کو اچھا خاصا کارٹون بنا کے رکھ دیا۔ ایک بڑے سے اسکرین پر پہلے تو مرغی کا انڈا نظر آیا، پھر عقب سے ایک آواز آئی، ’’ مہان لوگ پیدائشی مہان ہوتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد ایک اسپتال کا ’’چلڈرن وارڈ‘‘ دکھایا گیا جس میں بہت سارے شیر خوار بچے چسنی چوس رہے تھے۔ لیکن ان ہی کے درمیان ایک بستر پر پڑے ہوئے نوزائیدہ کشیپ صاحب ایک ضخیم کتاب "Designing Railway Bridges" کے مطالعہ میں غرق نظر آئے۔ پھر اسی منظر میں ایک نرس نمودار ہوتی ہے اور ہمارے نوزائیدہ کشیپ صاحب کے منھ میں دودھ کی بوتل لگا دیتی ہے۔ انھوں نے نرس کو غصے سے دیکھا۔
’’ آپ کی ہمت کیسے ہوئی ، ایسی ولگر (Vulgar) چیز ہمارے منھ میں ڈالنے کی؟‘‘
نرس بیچاری بوکھلا جاتی ہے، ’’ ولگر چیز؟‘‘
’’اس بوتل پر جو Nipple ہے، اس کی shape دیکھیے۔ چھی۔‘‘
بیچارے کشیپ صاحب تو جیسے اندر ہی اندر سنگسار ہوگئے تھے لیکن کیا کرتے، ناظرین کے فلک شگاف قہقہوں میں انھیں بھی ساتھ دینا پڑا۔
اسکرین پر اب کشیپ صاحب دس سال کے نظر آ رہے تھے۔ ان کی ایک ہم عمر لڑکی نے اپنا اسکرٹ اٹھاتے ہوئے کہا، ’’اے کشیپ! گھر پر کوئی نہیں ہے۔ چل ڈاکٹر ڈاکٹر کھیلتے ہیں۔‘‘
دس سال کے کشیپ صاحب نے اس لڑکی کی طرف بیزاری سے دیکھا، ’’ سوری۔ ہمیں میڈیکل فیلڈ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انجینئر انجینئر کھیلوگی؟‘‘
ایک بار پھر زبر دست قہقہہ پڑا، کشیپ صاحب کچھ اور سکڑ گئے۔ لیکن آئندہ منظر سے وہ بھی محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ پائے۔ اس منظر میں کشیپ صاحب کو جوان دکھایا گیا تھا ، جو ایک سنیما گھر میں ’’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘‘ دیکھ رہے تھے۔ شاہ رخ خان کھسکتی ہوئی ٹرین پر سوار ہے اور کاجول ٹرین پکڑنے کے لیے پلیٹ فارم پر دوڑ رہی ہے۔ بالآخر شاہ رخ ، کاجول کا ہاتھ پکڑ کر ٹرین کے اوپر کھینچ لیتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ جاتے ہیں۔ سنیما گھر میں بیٹھے تمام ناظرین اس خوب صورت منظر پر تالیاں بجاتے نظر آ رہے ہیں لیکن نوجوان کشیپ صاحب فکرمند نظر آ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں، ’’ ٹرین کا Pick-up بہت slow تھا...میٹر گیج (Meter-gauge) کا سالا یہی پرابلم ہے۔ I must discuss this in the next seminar of Railway engineers."
یہ مذاق کشیپ صاحب کو اتنا برا نہیں لگا ، اس لیے بغیر کسی جبر کے انھوں نے دوسروں کے ساتھ قہقہہ لگایا لیکن آئندہ منظر کو دیکھ کر تو ان پر گھڑوں پانی پڑگیا۔ اس منظر میں کشیپ صاحب کو شادی شدہ دکھایا گیا تھا۔ ایک سیلز مین نے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا جس پر Mr. & Mrs. A. Kashyap" کا نیم پلیٹ لگا ہوا نظر آ رہا تھا۔ کشیپ صاحب باہر نکلے اور سوالیہ نگاہوں سے سیلزمین کی طرف دیکھا۔
’’سر، ہماری کمپنی نے ایک نیا کنڈوم لانچ کیا ہے، اسی کے لیے...‘‘
کشیپ صاحب کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا؛ ’’ کنڈوم؟...تمھاری ہمت کیسے ہوئی ہم جیسے شریف آدمیوں کو کنڈوم جیسی چیز بیچنے کی؟ سیلف کنٹرول (self-control) سمجھتے ہو؟ وہ ہوتا ہے شریف لوگوں کا contraceptive ...سمجھے؟ نہیں سمجھے؟ سمجھو گے بھی نہیں۔ بُڑبک۔‘‘ ایک دھماکے کے ساتھ انھوں نے سیلز مین کے منھ پر دروازہ بند کردیا۔
کارٹون فلم ختم ہونے کے بعد بھی لوگ کشیپ صاحب کو دیکھ دیکھ کر ہنستے رہے۔ وہ بڈھا بھاسکر بھی مائیک پر صفائی دیتے وقت ہنس رہا تھا۔ سالا معذرت کر رہا تھا یا جلے پر نمک چھڑک رہا تھا۔
’’ دراصل ہم سب دکھی ہیں کہ آپ جیسا محنتی ، ایمان دار اور باکردار افسر ہمیں چھوڑ کر ممبئی جا رہا ہے۔ اس صدمے کو ہلکا کرنے کے لیے کچھ ڈرنکس وغیرہ کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ چلو بھائیو، شروع ہوجاؤ۔ مسٹر کشیپ کو صبح ٹرین بھی پکڑنی ہے۔‘‘
کشیپ صاحب اپنی لکھی ہوئی تقریر ہاتھ ہی میں پکڑے رہ گئے جو انھوں نے کافی محنت سے تیار کی تھی، پھر انھوں نے چپکے سے اسے اپنی سفاری کی جیب میں ڈال لیا۔ لیکن ان کے گلے میں اب بھی پھولوں کا ہار پڑا ہوا تھا، جسے انھوں نے اس لیے نہیں اتارا تھا تاکہ لوگوں کو احساس رہے کہ یہ تقریب ان کے اعزاز میں منعقد کی گئی ہے ۔ اس کے باوجود ان کے سارے ماتحت کھانے پینے میں مصروف تھے ، کسی کو ان میں دلچسپی نہیں تھی۔ وہ بیچارے تنہا ہاتھ میں جُوس کا گلاس پکڑے ادھر اُدھر ٹہل رہے تھے۔ان کی نظر ایک جوان لڑکے پر پڑی جو اپنا گلاس دوبارہ بھر رہا تھا۔ کشیپ صاحب نے پہلے تو دانت پیسا، پھر اسے آواز دی۔
’’سریش بابو! ادھر آئیے۔ کیا حال چال ہے؟‘‘
’’بس سر، آشیرواد ہے آپ کا۔‘‘
’’وہ کارٹون فلم تم نے ہی بنائی تھی نا؟‘‘
’’ارے سر، وہ تو بس...‘‘؛ سریش ابھی پوری طرح انکساری بھی نہ دکھا پایا تھا کہ کشیپ صاحب نے حملہ بول دیا۔
’’ہم سمجھ گئے تھے کہ کوئی جوکر ہی اتنا بڑھیا جوک(joke) مار سکتا ہے‘‘، کشیپ صاحب نے ہنستے ہوئے وار کیا،’’تھوڑا over کر دیا لیکن اچھی تھی...یہ اپنا funny-talent ریلوے کی میسیج والی فلموں میں بھی دکھاتے تو ad-hoc سے پرمانینٹ ہو جاتے۔‘‘
سریش انھیں بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ کشیپ صاحب کی بات ختم ہوئی تو اس نے ایک ہی سانس میں اپنا پورا گلاس خالی کردیا۔ اب اس کے چہرے پر حقارت آمیز مسکراہٹ تھی۔
’’ اصل میں کشیپ صاحب، ریلوے کے میسیج آپ جتنے funny نہیں ہوتے۔ انھیں funny بنانا بہت مشکل ہے۔ آپ تو بنے بنائے، ریڈی میڈ sample ہیں۔‘‘
کشیپ صاحب نے اسے گھورا، ’’کیا مطلب؟‘‘
سریش کی مسکراہٹ میں کچھ اور زہر گھل گیا، اس نے کشیپ صاحب کے گلے میں پڑے ہار کی طرف اشارہ کیا، ’’ آج آپ سے نجات مل گئی ہے تو چلیے بتادیتا ہوں۔ کہاں سے شروع کروں؟ آپ کی آبائی نتھو لال کی مونچھوں سے یا پھر آپ کے اس خاندانی یونیفارم سے؟ سفاری سوٹ...بلیک بوٹ...سچی سر، بڑے cute لگتے ہیں آپ...چِرکُٹ۔‘‘
کشیپ صاحب بظاہر پرسکون نظر آ رہے تھے لیکن اندر کا حال تو وہی جانتے تھے۔ادھر کم بخت سریش رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا؛ نہ کوما، نہ فل اسٹاپ۔
’’ارے آپ جیسا بنگلہ اگر ریلوے نے ہمیں الاٹ کیا ہوتا یا آپ جیسی تنخواہ ہمیں مل رہی ہوتی تو رام قسم، ریلوے کے ہر ڈویژن میں اپنا ایک پرائیوٹ حرم ہوتا۔‘‘
کشیپ صاحب کا منھ کھلا ہوا تھا، پتہ نہیں سانس لے بھی رہے تھے یا نہیں۔ شاید ایک جونیئر کی بدتمیزی پر انھیں سکتہ مار گیا تھا۔
’’آپ کی زندگی ایک سڑا ہوا مذاق ہے سر۔ سالا گھر پہ کھائیں گھر کا کھانااور باہر نکلے بھی تو ٹفن ٹانگ کے نکلے۔‘‘
اب کشیپ صاحب کا صبر جواب دینے لگا تھا، ’’ہمیں باہر کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔‘‘
’’ہوگا بھی نہیں۔ اور کبھی باہر کھانے کی کوشش بھی مت کیجیے گا۔ کیوں کہ آپ جیسوں کو باہر کچھ ملنے والا بھی نہیں ہے۔‘‘
کشیپ صاحب نے محسوس کیا کہ ان کی گفتگو کچھ اور لوگ بھی سن رہے تھے۔ ان کے کچھ پرانے ساتھی اپنے اپنے ہاتھوں میں ڈرنک لیے ادھر ہی کان لگائے ہوئے تھے۔ جلتی پر تیلی نے کام کیا اور وہ بھڑک اٹھے۔
’’ تم سالے جلتے ہو ہم سے، ہماریachievements سے۔ انڈین ریلوے جب بھی کسی پرابلم میں پھنسی ہے تو اس نے ہمیں یاد کیا ہے۔ کشیپ صاحب، ممبئی میٹرو میں ٹیکنیکل snag آگیا ہے، بس آپ ہی سنبھال سکتے ہیں، آجائیے۔ جہاں بھی گئے ہیں، respectfully گئے ہیں۔ اور تم کیا بول رہے تھے؟ ریلوے کے ہر ڈویژن میں تمھارا کیا ہوتا؟ سالے پتہ بھی ہے کہ ٹوٹل کتنے ڈویژن ہیں ریلوے کے؟‘‘
سریش شاید کسی اور ہی مٹی کا بنا ہوا تھا، کشیپ صاحب کی جھڑکی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ اس نے تو ان کا جوتا ان ہی کے سر پہ دے مارا، ’’ یہی ہے آپ کی پرابلم۔ کُل کتنے ڈویژن ہیں، یہ تو آپ کو پتہ ہے لیکن کیا آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ان ڈویژن میں کتنی تتلیاں ہیں؟‘‘
سریش نے ان عورتوں کی طرف اشارہ کیا جو ایک طرف خوش گپیوں میں مصروف تھیں، ’’وہ دیکھیے، وہ ہے تتلیوں کا جھنڈ۔ کل تک یہ سب تتلیاں آپ کی ماتحتی میں تھیں۔ پورے پانچ سال آپ کے نیچے کام کرتی رہیں۔ ان میں سے دو لڑکیوں کی رانوں میں کالا تل ہے، آپ کو پتہ ہے کون ہیں وہ؟
کشیپ صاحب اس غیر متوقع سوال کے لیے تیار نہیں تھے، ہڑبڑا کر رہ گئے ۔ سریش بولتا رہا، ’’ اور سنیے! ان میں سے تین، چھتیس کی سائز والی ہیں لیکن Bra چونتیس کی پہنتی ہیں۔ ان میں ایک تو ایسی wildہے کہ چلتی ریل میں دھکم پیل کے لیے اگر اسے جیل بھی ہوجائے تو چلی جائے۔ یہاں سب انھیں جانتے ہیں، سوائے آپ کے۔ ‘‘
’’شرم کرو سریش ، اپنی colleagues کے لیے ایسی گری ہوئی باتیں کررہے ہو؟‘‘
’’گرنا پڑتا ہے سر۔ گریں گے نہیں تو نصیب کیسے اٹھے گا۔ بھگوان نے آدمی کو گرنے کے لیے ہی بنایا ہے۔ اگر اڑنے کے لیے بنایا ہوتا تو اسے پَر دیے ہوتے۔ جو لوگ مہانتا کے پہاڑ پر چڑھے ہوئے ہوتے ہیں نا سر، ان پر لوگ جیتے جی پھولوں کے ہار ڈال دیتے ہیں، ان کے مرنے کا انتظار نہیں کرتے۔‘‘
کشیپ صاحب کو اچانک محسوس ہوا کہ ان کے گلے میں پڑا ہوا ہار وزنی ہوتا جا رہا ہے اور ان کی گردن اس بوجھ سے جھکتی چلی جا رہی ہے۔
’’وہ کارٹون فلم ہی آپ کی سچائی ہے کشیپ صاحب۔ لوگوں کی نظروں میں آپ کی ساری مہانتا کی وہی امیج ہے ... ’انڈا‘۔ وہ تو میں نے دیکھا کہ آپ اپنی ہی الوداعی پارٹی میں کسی لاوارث فون کال کی طرح گھوم رہے ہیں تو ترس آگیا۔ سوچا کہ چلو بات کرلوں ورنہ آپ جیسے لوگوں کی بیویاں بھی آپ کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں۔ بائی بائی گریٹ مین۔ ‘‘
سریش واپس اپنی جگہ پر چلا گیا، لیکن کشیپ صاحب وہیں کھڑے رہے، بے عزتی کے بوجھ تلے اپنے ٹوٹے پھوٹے وجود کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ انھوں نے اپنے گلے سے ہار نکال کر وہیں ایک ٹیبل پر رکھ دیا۔ ان کے کانوں میں سریش کے الفاظ اب تک سیٹیاں بجا رہے تھے، ’’ لوگوں کی نظروں میں آپ کی ساری مہانتا کی وہی امیج ہے ... ’انڈا‘۔‘‘ انھیں پتہ بھی نہ چلا کہ وہ اپنے خیالوں میں گم عورتوں کے جتھے کی طرف نکل آئے ہیں۔ انھیں ان کی سابق سکریٹری نے ٹوکا، ’’سر، ممبئی پہنچتے ہی وہاں کا پتہ مجھے ضرور sms کر دیجیے گا۔‘‘
کشیپ صاحب نے چونک کر اس کی طرف یوں دیکھا، جیسے ان پانچ برسوں میں اسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔ایک دوسری عورت مسکراتے ہوئے ان کی طرف بڑھی، ’’اور سر، ممبئی میں ریل کے ساتھ ساتھ دھکم پیل کا مزہ بھی اٹھا لیجیے گا، پورے انڈیا میں فیمس(famous) ہے۔‘‘
ایک بار پھر کشیپ صاحب چونکے۔ ’’دھکم پیل‘‘ بہت مانوس لفظ تھا۔ ذرا دیر پہلے سریش نے کسی عورت کا اس لفظ سے رشتہ جوڑا تھا۔ انھوں نے پلٹ کر سریش پر نظر ڈالی، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دور کھڑا انھیں دیکھ کر ہنس رہا تھا۔ دل ہی دل میں وہ سریش کے لیے کوئی بھدی سی گالی تلاش کرنے لگے لیکن تیسری عورت نے انھیں اس کا موقع ہی نہیں دیا ۔
’’ بھابھی بھی آپ کے ساتھ جا رہی ہیں؟‘‘
’’ نہیں۔ وہ بعد میں آئیں گی۔ پنکو کے اسکول کی ٹی۔سی۔ وغیرہ لینا ہے۔‘‘
کشیپ صاحب مزید سوالات سے بچنے کے لیے آگے بڑھ گئے۔ وہ یہاں سے کھسک جانا چاہتے تھے لیکن مشکل یہ تھی کہ پارٹی ان ہی کے اعزاز میں رکھی گئی تھی ، اور اس طرح یہاں سے نکل جانا انھیں اچھا نہیں لگا۔ یوں بھی وہ اصول پسند آدمی تھے، بلکہ آج اسی سبب انھیں اتنا ذلیل و خوار ہونا پڑاتھا۔
ذلت اور رسوائی کی ٹیس ان کے اندر اس وقت بھی اٹھ رہی تھی جب وہ اپنے بیڈروم میں مسز کشیپ کے ساتھ الوداعی شب کا عرق نچوڑنے کی کوشش کررہے تھے۔ آج وہ اپنی پوری قوت کا استعمال کررہے تھے جیسے لاشعوری طور پر سریش سے بدلہ لے رہے ہوں لیکن مسز کشیپ پر اس کا کوئی اثر ہی نظر نہیں آ رہا تھا، وہ اپنی دنیا میں مست تھیں۔
’’ پنکو کے ٹرانسفر سرٹیفکٹ میں اگر وہ لوگ ماں اور باپ دونوں کو بلائیں گے تو؟پرنسپل تھوڑی پاگل ہے، پتہ نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتی ہے؟ ویسے میں نے پنکو کی کلاس ٹیچر کو بتادیا تھا کہ آپ پہلے جا رہے ہیں...لیکن پھر بھی ۔ کیوں جی؟
’’ہوں۔‘‘
’’ہوں کیا؟ آپ تو چلے جائیں گے مگر مجھے یہاں رہ کر کتنا کام نپٹانا ہے، پتہ ہے آپ کو؟ پوری پیکنگ بھی اب تک نہیں ہوئی ہے، سامان بھی بھجوانا ہے...وہ چندن آپ کے سامنے یس سر ، یس سر کرتا رہتا ہے لیکن بعد میں میرا فون بھی نہیں اٹھاتا...اس کو ایک بار اچھی طرح سے سنا کے جائیے گا...سن رہے ہیں نا آپ؟‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’ٹکٹ بھی آر۔اے۔سی۔ ہے ۔ کنفرم نہیں ہوا تو؟ بچوں اور سامان کے ساتھ کتنی مصیبت میں پڑ جاؤں گی۔ رینو کی شادی کا یاد ہے نا؟ اتنی سی جگہ میں پنکو کو گود میں لیے بیٹھے بیٹھے گئی تھی۔ خیر، وہ چار گھنٹے کا سفر تھا... لیکن بمبئی تک ویسے ہی جانا پڑا تو میری لاش ہی پہنچے گی۔‘‘
کشیپ صاحب کو دھونکنی لگی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے ایک جھر جھری لی اور کوئلے کی انجن کی طرح زور سے ’’بھاپ‘‘ چھوڑ کرایک طرف لڑھک گئے۔ مسز کشیپ نے ان کی طرف دیکھے بغیر پوچھا، ’’ہوگیا؟‘‘
پسینے میں لت پت کشیپ صاحب نے سر کی جنبش سے تائید کی ۔ مسز کشیپ نے اپنی نائٹی نیچے کھسکا دی۔کشیپ صاحب پھٹ پڑے۔
’’تم دس منٹ چپ نہیں رہ سکتیں؟ آدمی جا رہا ہے، پھر پتہ نہیں کب موقع ملے۔ سالا اتنی مشکل سے موڈ بناؤ اور تم...‘‘
’’ہم کیا؟ ہم نے منع کیا؟ ہم پورا cooperate تو کررہے تھے۔ ‘‘
کشیپ صاحب بس اپنی بیوی کو گھورتے رہ گئے۔ ان کے کانوں میں سریش کے الفاظ پگھلے ہوئے سیسے کی طرح گرنے لگے...قطرہ قطرہ...ٹپ ٹپ ٹپ...’’آپ جیسے لوگوں کو ان کی بیویاں بھی سنجیدگی سے نہیں لیتیں۔‘‘انھوں نے جلدی سے کمبل اپنے سر پر کھینچ لیا لیکن اس گھپ اندھیرے میں مسز کشیپ کا جملہ ان پر بجلی بن کر گرا۔
’’ چپ رہو تو کہیں گے کہ لاش جیسی پڑی رہتی ہو...بولو تو کہیں گے کہ بولتی کیوں ہو؟ نجانے کون سی پہیلی ہے جو پندرہ برسوں سے سلجھ ہی نہیں رہی ہے۔‘‘
پہیلی تو خیر ان سے بھی کبھی سلجھ نہیں پائی یا شاید انھیں سلجھانے کا موقع نہیں مل پایا۔ آج تک وہ خود بھی سمجھ نہیں پائے کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے، کیوں جینا چاہتے ہیں وہ؟ جینے کے نام پر جینا تو کوئی بات نہ ہوئی۔ سریش کی بات تلخ ضرور تھی لیکن اب کشیپ صاحب کو محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی بیشتر باتیں سچی تھیں۔ صحیح تو کہہ رہا تھا کہ سالا ان کی زندگی ایک انڈا ہی تو ہے، دوسروں نے فرائی کیا اور کھایا۔سب نے اپنے اپنے انداز میں انھیں استعمال کیا، کسی نے ہاف فرائی کیا تو کسی نے املیٹ بنایا اور کوئی ابال کر انھیں چٹ کرگیا۔
’’نان اسٹاپ مستی کا unlimited permit یہاں ملتا ہے۔ یہ ممبئی ہے بھیا، ممبئی۔ یہاں لوگ اپنا کھچڑا پاپ دھونے آتے ہیں۔ زندگی میں کوئی حسرت، کوئی تمنا باقی رہ گئی ہو تو یہاں دھو لو۔ یہاں رہ کے بھی اگر کوئی لپو جھنّا کا لپو جھنّا رہے تو لعنت ہے اس کی زندگی پر۔‘‘
کشیپ صاحب ٹرین کی اوپر کی برتھ پر لیٹے تھے، انھوں نے اپنے چہرے سے کمبل تھوڑا ساکھسکایا اور نیچے نظر ڈالی جہاں کچھ نوجوان لڑکے بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
’’چوتیا، مجھ پہ افسری کا دھاک جما رہا تھا۔ میں نے کہا کہ تو نے افسر بن کے کیا اکھاڑ لیا۔‘‘
دوسرے لڑکے نے لہک کے ٹکڑا لگایا، ’’ میں بتاؤں ، کیا اکھاڑا اس نے؟ افسری کے چکر میں اس کی شادی ہو گئی۔ایک لونڈیا نے اس کو جنت کی سیر کرادی، ورنہ ان جیسوں کو زندگی میں ایک چانس ملنا بھی مشکل ہے۔‘‘
ایک لڑکے نے ہنستے ہوئے تائید کی، ’’ صحیح بولا یار۔ دس سال سے اس کے موبائل پر ایک ہی فوٹو لگی ہے؛ اس کی بیوی کی...صبح شام اسی کا درشن کرتا رہتا ہے ...سالا بتاؤ اس سے بھی بڑا کوئی CSO4 ہوگا دنیا میں؟
’’ CSO4 ؟؟ یہ کیا ہے بے؟‘‘
’’چوتیم سلفیٹ۔‘‘
تینوں لڑکوں کی ہنسی کمپارٹمنٹ میں بکھر گئی۔ کشیپ صاحب نے کمبل کے اندر چپکے سے اپنے موبائل پر نظر ڈالی جس کے وال پیپر (wall paper) پر مسز کشیپ کی تصویر مسکرارہی تھی، جو انھیں اس وقت زہر خند محسوس ہوئی۔نیچے کی برتھ پر لڑکے کسی انجان افسر کا تیا پانچہ کرنے میں مصروف تھے، لیکن کشیپ صاحب کو لگ رہا تھا جیسے ان کا ہدف وہ خود ہوں۔
’’مجھ سے بولا، بھیا میں نے اپنا ایک کروڑ کا انشورنس کرالیا ہے۔ میں نے کہا ، کراتو لیا ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ تیری فیملی کو نہیں پہنچے گا۔ کیوں کہ انشورنس والے بولیں گے کہ جو آدمی جیا ہی نہیں، ہم اس کی موت کا claim کیوں دیں؟‘‘
اس بار لڑکوں کی ہنسی تھوڑی اونچی ہوگئی تھی۔ ایک لڑکے نے کمپارٹمنٹ میں سوتے ہوئے لوگوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور اپنے دوسرے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ دھیرے بات کریں۔ اب وہ سرگوشیوں میں باتیں کررہے تھے جنھیں سننے کے لیے کشیپ صاحب اپنے برتھ کے کنارے تک کھسک آئے تھے ، ان کے جسم کا نصف اوپری حصہ تقریباً نیچے جھولنے لگا لیکن وہ سونے کا ناٹک کیے ہوئے تھے۔ لڑکوں کی گفتگو اب ایک ایسے موڑ پر پہنچ گئی تھی جسے سننے کے لیے کشیپ صاحب مجسم سماعت بن چکے تھے۔
’’میں نے اس سے کہا، یار ممبئی کے لیڈس بار (Ladies Bar) کے بارے میں بہت سنا ہے، درشن کرادے۔ تو الٹا اس نے مجھ سے پوچھ لیا، لیڈس بار کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’لیکن ممبئی کے لیڈس بار کب کا بند ہوگئے؟ سرکار نے بند کرادیا۔‘‘
’’کچھ بند نہیں ہوا بے۔ پہلے کھلے عام چلتے تھے، اب چھپ چھپ کے چلتے ہیں۔ میں نے دو دن میں ڈھونڈ نکالا۔‘‘
کشیپ صاحب لڑکوں کی گفتگو سننے میں اتنا محو تھے کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوا کہ نیچے کی طرف جھولتا ان کا ایک ہاتھ بیچ کے برتھ میں لیٹی ہوئی ایک عورت کے کولھوں سے کسی پنڈولم کی طرح بار بار ٹکرا رہا تھا۔
’’اندھیری ایسٹ میں پیراڈائز ہوٹل دیکھا ہے؟‘‘ اس لڑکے نے اپنی معلومات کا خزانہ لٹانا شروع کردیا؛ ’’ اس کے بالکل سامنے والی گلی میں چورسیا کی پان دکان ہے۔ اس کے پاس جاؤ اور ایک دو سو والا پان لگانے بولو۔ وہ دو سوکا پان انٹری فیس ہے ممبئی کے سب سے جھکاس لیڈس بار کا۔‘‘
’’کیا بات ہے گرو۔ کیا زبردست انفارمیشن ہے یار۔‘‘ باقی لڑکے کافی متاثر نظر آ رہے تھے، کشیپ صاحب بھی ان معلومات کے قیمتی سکوں کو اپنی یادداشت کے بٹوے میں محفوظ کر رہے تھے۔
اسی دوران بیچ کے برتھ پر لیٹی عورت نے اپنے پرس سے ایک چٹ پیڈ (Chit Pad) نکالا اور اس پر کچھ لکھا۔ پھر اس نے پیڈ سے ایک چٹ الگ کی اور کشیپ صاحب کے جھولتے ہاتھ پر چپکا دیا۔ نہ تو کشیپ صاحب کو احساس ہوا اور نہ ہی لڑکوں کا دھیان اس پر گیا، ان کی گفتگو جاری رہی۔
’’دوست، ممبئی کہتی ہے ’کر‘...کھل کے کر۔ تیندولکر، گاوسکر، وینگ سرکر...اس شہر کو صرف ’کرُو‘ لوگ ہی سمجھ میں آتے ہیں۔ یہاں صرف دو ٹائپ کے لوگ ہی ہیں باس؛ ایک تو ممبائیکر (Mumbaikar)اور دوسرے جوکر۔‘‘
بیچ کے برتھ سے عورت نیچے اترنے لگی تو لڑکے خاموش ہوگئے۔ کشیپ صاحب نے بھی اپنی جسم کو ہاتھ سمیت اوپر کھینچ لیا ۔ ان کی نظر اب بھی اس چِٹ پر نہیں گئی تھی جو اس عورت نے ان کے ہاتھ پر چپکائے تھے۔ وہ آنکھیں بند کر کے اپنے ہی خیالوں میں گم رہے۔ ان کے کانوں میں لڑکوں کی آوازیں بازگشت کررہی تھیں۔ پتہ نہیں کب وہ سوگئے اور کب تک سوتے رہے۔ اس وقت جاگے جب ائیرکنڈیشنڈ اپارٹمنٹ کے ایٹینڈنٹ (Attendent) نے انھیں جھنجھوڑا۔
’’ صاب! ممبئی آگیا۔ اٹھو۔‘‘
کشیپ صاحب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ ٹرین پلیٹ فارم پر کھڑی تھی۔ انھوں نے اپنا سامان اٹھانا شروع کیا اور اسی وقت ان کی نظر اپنے ہاتھ پر لگے چِٹ پر پڑی جس میں لکھا تھا، ’’دو منٹ بعد میں باتھ روم میں جاؤں گی۔ اگر موڈ ہے تو پانچ منٹ بعد آجانا، لیفٹ والے باتھ روم میں۔‘‘ کشیپ صاحب حیرانی سے اس چِٹ کو دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے کچھ یاد کرنے کی کوشش کی تو یاد آیا کہ ان کے بیچ والی برتھ میں ایک عورت تھی۔ انھوں نے پورے کمپارٹمنٹ میں نظر ڈالی جو تقریباً خالی ہوچکی تھی۔ انھیں ایک غیر متوقع احساس نے اپنی گرفت میں لے لیا کہ بدقسمتی سے انھوں نے ایک سنہرا موقع گنوا دیا۔ وہ تیزی سے ٹرین سے باہر نکلے اور اس عورت کی تلاش میں ادھر اُدھر نظریں دوڑانے لگے۔
ممبئی کا چھتر پتی شیواجی ریلوے اسٹیشن اس وقت آدمیوں کا جنگل بنا ہوا تھا۔ ’’دھکم پیل‘‘؛ کسی نے ان کے کانوں میں سرگوشی کی۔ انھوں نے اس عورت کاخیال اپنے ذہن سے جھٹک دیا اور خود کو پلیٹ فارم پر انسانوں کے بہتے ہوئے سیلاب کے سپرد کردیا۔ لیکن دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے چاروں طرف سے دھکے لگ رہے تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی میں اتنے دھکے نہیں کھائے تھے ، حتیٰ کہ نوکری حاصل کرنے کے لیے بھی نہیں۔ انھوں نے ممبائیکر کے دھکوں سے بچنے کے لیے خودکو ریسٹ روم کی دیوار سے چپکا دیا۔ ایک بوڑھا گھاٹی(دیہاتی) بھی پہلے سے اسی حکمت عملی کے تحت وہاں چپکا ہوا تھا۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ بوڑھے کی آنکھوں میں کشیپ صاحب کے لیے ہمدردی تھی۔ انھیں اپنے آپ سے نفرت محسوس ہونے لگی۔ ’’ممبائیکر اور جوکر‘‘ کا قافلہ ان کے پاس سے گذرتا رہا۔
اچانک کشیپ صاحب کے دماغ میں ’’انقلاب ‘‘ یا ’’بغاوت‘‘ قسم کی کوئی چیز ابلنے لگی۔ ان کے چہرے کے تاثرات بدلنے شروع ہوگئے۔ انھوں نے اس ریسٹ روم کی دیوار سے چپکے چپکے ہی اس کے دروازے کی طرف کھسکنا شروع کردیا۔
تھوڑی سی جد وجہد کے بعد وہ ریسٹ روم کے اندر ایک شیشے پر خود کو نہار رہے تھے ۔ اچانک سریش کی آواز ان کے کانوں میں گونجنے لگی، ’’کہاں سے شروع کروں؟ آپ کی اس نتھو رام کی آبائی مونچھوں سے یا آپ کے اس خاندانی یونیفارم سے؟ بڑی cute لگتے ہیں آپ ۔ چِرکُٹ۔‘‘ ان کے کانوں اور دماغ میں بہت دیر تک دھماکے ہوتے رہے، پھر سب کچھ شانت ہوگیا۔ انھوں نے اپنے بیگ سے شیونگ کا ڈبہ باہر نکالا اور تھوڑی دیر میں وہ بالکل بدل چکے تھے۔
انھیں ایسا محسوس ہو رہاتھا کہ ان کا یہ دوسرا جنم ہو۔ ان کے چہرے پر غضب کی خود اعتمادی عود آئی تھی۔ پلیٹ فارم پر آدمیوں کا سیلاب اب بھی رواں دواں تھا۔ وہ بوڑھا گھاٹی اب بھی دیوار سے ویسے ہی چپکا ہوا بھیڑ گذر جانے کا انتظار کر رہا تھا۔ کشیپ صاحب نے اپنا سامان اٹھایا اور بڑے ہی پرسکون انداز میں خود کو اس سیلاب کے حوالے کردیا۔ اب وہ خود بھی اپنے ارد گرد چلنے والوں کو ادھر اُدھر دھکیل کر آگے بڑھ رہے تھے۔ یوں محسوس ہو رہا تھاجیسے وہ ان چیزوں کے عادی ہوں۔ جلد ہی وہ اسٹیشن کے باہر پہنچ گئے۔ ایک ٹیکسی ان کے سامنے رکی۔ کشیپ صاحب نے رعونت کے ساتھ ڈرائیور کو حکم دیا؛ ’’سامان اٹھا۔‘‘
ٹیکسی اسٹارٹ کرتے ہوئے ڈرائیور نے ان سے پوچھا، ’’ ممبئی دیکھنے آئے ہیں صاب؟‘‘
’’ممبئی تو کئی بار دیکھی ہے ہم نے۔ لیکن ممبئی نے ہمیں کبھی نہیں دیکھا۔ اس بار دیکھے گی۔ تیندولکر، گاوسکر ، کشیپ کر۔‘‘