Then I glanced at the ring on my finger.
The snake that eats own tail,
Forever and ever.
I know where I came from,
but where did all you zombies come from?
- Robert A. Heinlein
پتہ نہیں بے ہوشی کی حالت میں کشیپ صاحب کب تک اپنے بستر پر پڑے رہے اور کب نیند نے اس بے ہوشی میں اپنی جگہ بنا لی۔ وہ اٹھے تو ان کے کانوں میں سب سے پہلی آواز ان کی بیوی کی گنگناہٹ کی آئی ؛ ’’آج مدہوش ہوا جائے رے...میرا من ...میرا من۔‘‘
کشیپ صاحب کے تن بدن میں آگ ہی تو لگ گئی، وہ ایک آتشیں بگولے کی طرح اٹھے اور آندھی طوفان کی طرح جوہر کے بنگلے کی طرف اپنا رخ کیا۔ انھوں نے جوہر کے بنگلے کے لوہے کے گیٹ کو بار بار کھولنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ پھر اچانک ان کی نظر اس تالے پر پڑی جو ان کا منھ چڑھاتا ہوا نظر آیا۔ انھوں نے جوہر کو فون لگانے کی کوشش کی لیکن دوسری جانب سے "out of reach" کا پیغام ان کے کانوں میں سیسہ انڈیل گیا۔
اس دوران اس لڑکی کا وہاں سے گذر ہوا، جو اکثر کمر کے کافی نیچے جینس پہنے بھٹ صاحب کے صبر کا امتحان لیا کرتی تھی۔ اس نے کشیپ صاحب کو جوہر کے بنگلے پر حیران پریشان کھڑے دیکھا تو رک گئی۔
’’یہ انکل اور انٹی تو early morning ہی چلے گئے۔ کافی سامان بھی تھا ان کے ساتھ۔ شاید شفٹ ہوگئے یہاں سے...آپ کو بول کر نہیں گئے انکل؟‘‘
کشیپ صاحب خالی خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس لڑکی نے تھوڑی دیر ان کے ردعمل کا انتظار کیا پھر شانے اچکاتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
اچانک کشیپ صاحب کی ویران آنکھوں میں زندگی کی لو بھڑکی۔ وہ تیزی سے اپنے بنگلے کی طرف بھاگے۔ جلدی جلدی تیار ہوئے۔ اس دوران ان کی کوشش تھی کہ وہ سمن سے آنکھیں نہ ملا پائیں۔ حالاں کہ سمن بار بار ان پر پیار لٹا رہی تھی لیکن آج کشیپ صاحب کو ہمیشہ کی طرح اس پر غصہ نہیں آ رہا تھا، بلکہ وہ خود کو اس کا مجرم سمجھ رہے تھے۔
کشیپ صاحب ، جوہر کو ڈھونڈتے ہوئے Dockyard پہنچے اور کسی سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے آفس کی طرف اشارہ کردیا۔ انھیں جوہر کا آفس ڈھونڈنے میں زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ اس کے چیمبر کے باہر ہی اس کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی۔
جوہر کے آفس میں ایک اچھے خاصے معقول افسر نے اس کا استقبال کیا۔ کشیپ صاحب نے ادھر اُدھر نظریں گھماتے ہوئے دریافت کیا؛ "Sorry! I was looking for Mr. K. Johar!"
’’That's me! ...کہیے؟‘‘ اس جواب نے تو کشیپ صاحب کے اوسان ہی خطا کردیے۔ حالاں کہ کشیپ صاحب نے ایک موہوم امید کے تحت انھیں بتایا کہ وہ اس کے۔جوہر کو تلاش کر رہے ہیں جو انجینئرس انکلیو کے بنگلہ نمبر ۔۲۷ میں رہتے ہیں تو اصلی جوہر صاحب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔
’’آپ شاید بھنڈارکر کی بات کررہے ہیں؟‘‘اصلی جوہر نے کشیپ صاحب کو مزید یقین دلاتے ہوئے آفس کی دیوار کی طرف اشارہ کیا جہاں کسی سیمی نار کا ایک بڑا سا پوسٹر لٹکا ہوا نظر آ رہا تھا، جس میں بہت سارے marine engineers کی تصویریں شامل تھیں۔ ایک تصویر پر انگلی رکھتے ہوئے اصلی جوہر نے کشیپ صاحب سے پوچھا؛ ’’ شاید آپ ان کی بات کر رہے ہیں؟‘‘
کشیپ صاحب کا حلق خشک ہو رہا تھا، سو انھوں نے صرف سر ہلا کر تائید کی۔ اصلی جوہر صاحب نے معلومات دینے کا سلسلہ جاری رکھا؛ ’’بھنڈارکر deputation پر تھا ہمارے ساتھ۔ ہم نے اس سے بولا تھا کہ ہمیں اگلے مہینے ایک آدمی چاہیے لیکن آج صبح اچانک sick leave فیکس کر کے چلا گیا۔ ایک جگہ کہاں ٹکتے ہیں یہ لوگ۔ ‘‘
’’اگر آپ کے۔جوہر ہیں تو وہ وہاں انکلیو میں آپ کے گھر پر، آپ کے نام کے ساتھ...؟‘‘ کشیپ صاحب کے مفلوج ذہن میں ایک سوال نے سر اٹھایا۔
’’ کیا ہے نا صاحب...ہمیں تو بال بچوں کے ساتھ یہیں رہنا ہے ممبئی میں ...تو اپنا فلیٹ لے لیا ہے۔ فلیٹ safe رہتے ہیں۔ ادھر انکلیو میں چوریاں بھی بہت ہوتی ہیں۔ اب سب کے لیے مسز رابنسن کی طرح کیمرے لگا کر اور بندوق لے کر پہرے داری پر بیٹھنا تو possible نہیں ہے نا؟‘‘ کشیپ صاحب کو اپنے کانوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا لیکن ابھی بہت کچھ سننا انھیں باقی تھا۔
’’مگر بنگلہ تو اپنے نام پر ہی alloted ہے تو اس کا فائدہ کیوں نہ اٹھایا جائے؟ یہ جو deputaion پر انجینئر آتے ہیں، انھیں وہاں ٹھہرا دیتا ہوں۔انھیں ممبئی میں بنگلے کا سکھ ملتا ہے اور ہمیں اپنا کرایہ۔‘‘ اب ساری بات واضح ہو چکی تھی، مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہ تھی لیکن کشیپ صاحب نے ایک آخری تنکے کا سہارا لیا۔
’’ یہ بھنڈارکر صاحب یا ان کی فیملی کا کوئی پرماننٹ ایڈرس ہے آپ کے پاس؟‘‘
اصلی جوہر صاحب نے انکار میں سرہلاتے ہوئے عرض کیا؛ ’’میرے پاس تو نہیں ہے جی۔ یہ لوگ آدھا سال تو سمندر میں رہتے ہیں، ان کا ایڈرس رکھ کے کیا کرے کوئی؟ فیملی ویملی تو بھنڈارکر کی تھی نہیں...بیچلر آدمی تھا۔‘‘
’’بیچلر تھے؟‘‘ کشیپ صاحب نے حیرت سے پوچھا۔
’’کیوں؟‘‘ اصلی جوہر کے ہونٹوں پر ایک شرارتی مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’ادھر انکلیو میں وہ کسی لونڈیا کے ساتھ رہ رہا تھا کیا؟‘‘
کشیپ صاحب صرف اسے ٹکر ٹکر دیکھ رہے تھے، کر بھی کیا سکتے تھے۔
ڈاک یارڈ پر بڑی دیر تک وہ یوں ہی خالی الذہن کھڑے رہے، وہ بہت ٹوٹے بکھرے نظر آ رہے تھے۔ اچانک انھیں کچھ جیسے یاد آیا، انھوں نے دانت پیسے۔ دراصل ان کے ذہن میں میرو کے ریلوے ٹکٹ کی وہ تصویر نمودار ہوئی جو انھوں نے جوہر کے گھر پر ڈنر کرتے ہوئے دیکھا تھا ۔ کشیپ صاحب نے گھڑی پر نظر ڈالی اور پاگلوں کی طرح اپنی گاڑی ریلوے اسٹیشن کی طرف بڑھا دی۔
کشیپ صاحب کی مطلوبہ ٹرین ابھی پلیٹ فارم ہی پر کھڑی تھی۔ انھیں زیادہ دیر ڈھونڈنا بھی نہیں پڑا، میرو نظر آگئی ، وہ ایک کمپارٹمنٹ میں سوار ہو رہی تھی۔
’’ایک منٹ، مسز مرینالنی کے۔ جوہر ! ہم سے ملے بنا چلی جا ئیں گی؟‘‘
میرو نے انھیں پلٹ کر دیکھا اور مسکرائی۔ وہ اس وقت بالکل پیشہ ور عورت نظر آ رہی تھی۔
’’آپ؟ منا بولے تھے کہ آپ بڑے brilliant انسان ہیں، ہمیں ڈھونڈ لیں گے۔‘‘
’’اکیلی جا رہی ہیں؟ آپ کے پتی پرمیشور اور بچی کہاں ہیں؟‘‘ کشیپ صاحب اس وقت بڑے جارح نظر آ رہے تھے، لیکن میرو بڑی پرسکون نظر آ رہی تھی۔
’’پتی پرمیشور کرائے کے تھے، کرایہ چکا کر چلتے بنے...بچی اپنی ہے...یہاں ہوسٹل میں پڑھتی ہے تو اسے ہوسٹل میں چھوڑ کر جا رہی ہوں۔ فرائڈے کو واپس آ کر ملوں گی...بھگوان کی دیا سے اس کے ایک نئے پاپا کا انتظام ہوگیا ہے، یہیں کلیان میں۔‘‘
’’نئے پاپا کا انتظام؟‘‘ کشیپ صاحب نے اس معصومیت سے پوچھا کہ میرو مسکرائے بنا نہ رہ سکی۔
’’کیا کریں...اسکول کا rule ہے، بچے کو weekend پر اپنے ماں باپ کے ساتھ چھوڑنے کا۔ میرا یہاں کوئی fixed پتہ تو ہے نہیں...زندگی ٹرینوں پر ہی کٹتی ہے...پانچ دن آل انڈیا کا چکر لگا کر آتی ہوں اور weekend میں منا جیسے کسی پرانے loyal کے ساتھ گذار لیتی ہوں۔ Moving Escorts کی لائف بڑی مشکل ہوتی ہے، کشیپ صاحب۔‘‘
صدمے پر صدمے نے کشیپ صاحب کو تھوڑا بے وقوف بھی شاید بنا دیا تھا، جو اتنی آسان بات وہ سمجھ نہیں رہے تھے۔ انھوں نے سوالیہ نظروں سے میرو کی طرف دیکھا۔
’’میرا دھندا ہے‘‘ میرو نے سارے پتے اب کھول دیے، ’’ پورے سال ٹرین میں اپنی بکنگ رہتی ہے...نارتھ سے ساؤتھ...ایسٹ سے ویسٹ...چکر لگاتے رہو...ہر tour میں ایک دو اچھے گاہک مل ہی جاتے ہیں...ریل میں دھکم پیل کے شوقینوں کی کمی نہیں ہے کشیپ صاحب۔‘‘ میرو نے انھیں آنکھ مارتے ہوئے کہا۔
’’تو وہ ستی ساوتری بننے کا ناٹک کیوں؟‘‘ کشیپ صاحب اس کی بے حیائی جھنجھلا گئے۔
’’کیوں کہ گاہک اسی کے پیسے دے رہا تھا کشیپ صاحب۔‘‘
ٹرین آگے رینگنے لگی۔ میرو تیزی سے کمپارٹمنٹ میں چڑھ گئی لیکن اندر جانے کی بجائے دروازے پر کھڑی ہوکر کشیپ صاحب کو چلا چلا کر بولتی رہی؛ ’’سمن دیدی کو میرا پرنام کہیے گا اور پلیز دعا کیجیے گا کہ میری سونو بڑی ہو کر ان کے جیسی بنے، میری جیسی نہیں۔‘‘
ٹرین جا چکی تھی، اب پلیٹ فارم اور کشیپ صاحب کے اندر ایک مہیب سناٹا طاری تھا۔
وہ لڑکھڑاتے ہوئے انکلیو لوٹے تو اپنے بنگلے میں داخل ہوتے ہوئے انھوں نے پہلے جوہر کے بنگلے کی طرف دیکھا ، پھر مسز رابنسن کے بنگلے کی طرف نظر ڈالی؛ سب کچھ ساکت و صامت تھا۔ صرف ان کے گھر سے سمن اور پنکی کے ایک ساتھ گانے کی آواز آرہی تھی۔شاید سمن، پنکی کو گانے کی پریکٹس کر ارہی تھی ۔
Why should boys have the fun?
Get up you girls & feel the sun
Be free, be odd, be up n even
Don't worry to err is just human...