ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا، تو جینے کا مزا کیا
میرا نام کریم الدین ہے، میں پانی پت کا رہنے والا ہوں۔ یہ قصبہ دہلی سے چالیس کوس پر بہ جانبِ شمال مغرب واقع ہے اور اپنی لڑائیوں کی وجہ سے تاریخ میں مشہور ہے۔ ہم اچھے کھاتے پیتے لوگ تھے، مولویوں کا خاندان تھا، لیکن زمانے کی گردش نے ایسا پیسا کہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئے، جائداد ضبط ہوگئی۔ میرے دادا صاحب قبلہ ایک مسجد میں جا بیٹھے اور اللہ اللہ کر کے گزار دی۔ جب ضبط شدہ جائداد کے متعلق دریافت شروع ہوئی تو توکّل نے ان کا دامن پکڑ لیا، اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیشہ کے لیے روٹیوں کا سہارا کھو بیٹھے۔ میرے والد سراج الدین مرحوم بہ مصداقِ ‘‘عصمتِ بی بی از بے چادری’’ متوکل بنے رہے اور مسجد میں ایسے بیٹھے کہ مر کر اٹھے۔
میں ۱۲۳۷ھ میں عین عید الفطر کے دن پیدا ہوا۔ میری تعلیم انہی دونوں بزرگوں کے ہاتھوں ہوئی؛ لیکن بے چین طبیعت اور خاندانی جھگڑوں نے آخر پانی پت چھڑایا۔ اُس زمانے میں دہلی میں علم کا بڑا چرچا تھا۔ ہر فن کے کاملوں سے دہلی بھری پڑی تھی۔ ہر سمت علم کے چشمے جاری تھے۔ ‘‘ملا کی دوڑ مسجد تک’’ مَیں بھی پانی پت چھوڑ دہلی آگیا۔ شہر میں چھاپے خانے نئے نئے چلے تھے، کاپی نویسی سے گزارا کرتا۔ محنت مزدوری کے بعد بھی ذوقِ علم ہر حلقۂ درس میں مجھے لے جاتا۔ اسی زمانے میں دہلی کالج کی تنظیم جدید ہوئی تھی، طالب علموں کی تلاش تھی، میں بھی اٹھارہ سال کی عمر میں وہاں شامل ہوگیا۔ سولہ روپے وظیفہ بھی مقرر ہوا اور اس طرح میں نے علم کی پیاس بڑی حد تک بجھائی؛ لیکن یہ وہ زمانہ نہیں تھا کہ علم کو علم کے لیے حاصل کیا جاتا، اب اُس کے ساتھ گزارے کی ایک بڑی شِق لگ گئی تھی؛ اس لیے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک مطبع کھولا۔ قاضی کے حوض پر مبارک النسا بیگم کی حویلی کرایے پر لی۔ عربی کی مشہور مشہور کتابوں کے ترجمے چھاپے، لیکن مطبع جیسا چلنا چاہیے تھا، نہ چلا۔ یہ اردو شاعری کے شباب کا زمانہ تھا۔ بادشاہ سے لے کر فقیر تک سب اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ خیال آیا کہ ایک مشاعرہ قائم کر کے شعرا کے حالات اور ان کا کلام طبع کروں، ممکن ہے کہ اس طرح مطبع چل جائے۔ مجھے شاعری سے نہ کبھی لگاؤ تھا اور نہ اب ہے؛ بلکہ شعر کہنا میں برا جانتا ہوں، کیوں کہ اہل علم کا یہ پیشہ نہیں ہے۔ وہ لوگ جو معیشت سے فارغ البال ہیں، اپنا دل بہلانے اور حسرت نکالنے کے لیے شاعری کرتے ہیں۔
میں خود عالم ہوں، میرے باپ دادا عالم تھے؛ بھلا میں تو اس قسم کی فضولیات کی طرف توجہ بھی نہ کرتا، مگر کیا کروں ضرورت سب خیالات پر حاوی ہوگئی اور مجھے قیامِ مشاعرہ پر مجبور کیا۔ لیکن بڑی مصیبت یہ ہے کہ ایک تو اس شہر میں غریب اور خاص کر پردیسی غریب کو منہ نہیں لگاتے۔ دوسرے یہ کہ میری جان پہچان تھی تو مولویوں سے، وہ بھلا اس معاملے میں میرا کیا ساتھ دے سکتے تھے۔ سوچتے سوچتے نواب زین العابدین خاں عارفؔ پر نظر پڑی۔ ان سے دو چار دفعہ ملنا ہوا تھا۔ بڑے خوش اخلاق آدمی ہیں۔ لال کنویں کے پاس ایک حویلی ہے، اس کو مدرسہ بھی کہتے ہیں، وہاں رہتے ہیں۔ کوئی تیس (۳۰) سال کی عمر ہے۔گوری رنگت، اونچا قد اور نہایت جامہ زیب آدمی ہیں، البتہ ڈاڑھی بھر کر نہیں نکلی ہے، ٹھوڑی پر کچھ گنتی کے بال ہیں۔ غالب کے بھانجے بھی ہیں اور شاگرد بھی۔ کچھ عرصے تک شاہ نصیر سے بھی اصلاح لی ہے۔ بہرحال ان کی محبت، ان کی شرافت اور سب سے زیادہ ان کے رسوخ نے مجھے ان کی خدمت میں حاضر ہونے اور اس بارے میں ان کی امداد حاصل کرنے پر مجبور کیا۔
ایک روز صبح ہی صبح گھر سے نکل کر ان کے مکان پر پہنچا۔ معلوم ہوا کہ وہ حکیم احسن اللہ خاں صاحب وزیرِ اعظم کے مکان پر تشریف لے گئے ہیں۔ حکیم صاحب کا مکان سِرکی والوں ہی میں تھا۔ واپسی میں دروازے پر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ نواب زین العابدین خاں اندر ہیں۔ چوبدار کے ذریعے سے اطلاع کرائی۔ انھوں نے اندر بلا لیا۔ بڑا عالی شان مکان ہے۔ صحن میں نہر ہے، سامنے بڑا چبوترہ ہے اور چبوترے پر بڑے بڑے دالان در دالان۔ مکان خوب آراستہ پیراستہ ہے۔ ہر چیز سے اِمارت ٹپکتی ہے۔ سامنے گاؤ تکیے سے لگے نواب صاحب بیٹھے تھے۔ میں نے تو ان کو پہچانا بھی نہیں، سوکھ کر کانٹا ہوگئے تھے اور چہرے پر جھریاں پڑ گئی تھیں۔ میں نے سلام کر کے کیفیت پوچھی، کہنے لگے “مولوی صاحب! کیا کہوں، کچھ دل بیٹھا جاتا ہے۔ بظاہر کچھ مرض بھی نہیں معلوم ہوتا، علاج کر رہا ہوں، مگر بے نتیجہ۔ بھئی اب ہمارے چل چلاؤ کا زمانہ ہے۔ کچھ دنوں دنیا کی ہوا کھا رہے ہیں، مگر یہ تو کہیے آج آپ کدھر نکل آئے؟” میں نے واقعات کا اظہار کر کے ضرورت بیان کی۔ تھوڑی دیر سوچتے رہے، پھر ایک آہ بھر کر کہا: ‘‘میاں کریم الدین! تم کو بات اچھی سوجھی ہے، مگر بھئی اس کا نباہنا مشکل ہے۔ تمھیں خبر نہیں، دہلی کے پہلے مشاعروں نے کیا کچھ دلوں میں فرق ڈال دیے ہیں۔ دل تو میرا بھی چاہتا ہے کہ مرتے مرتے ایک ایسا مشاعرہ دیکھ لوں جس میں یہاں کے سب کاملین فن جمع ہوجائیں، مگر مجھے یہ بیل منڈھے چڑھتی معلوم نہیں ہوتی۔ اچھا تم بھی کوشش کرو، میں بھی کرتا ہوں، ممکن ہے کہ کوئی صورت نکل آئے۔ ہاں ٹھہرو، حکیم صاحب کو آنے دو، ایک تجویز ذہن میں آئی ہے؛ اگر چل گئی تو میری بھی آخری تمنا پوری ہوجائے گی اور تمھارا بھی کام نکل جائے گا۔”
ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ حکیم صاحب نکل آئے۔ گورے چٹے آدمی ہیں، سفید بھری ہوئی ڈاڑھی، گول چہرہ، اس میں کچھ کچھ چیچک کے داغ، آنکھوں سے ذہانت ٹپکتی تھی۔ سر سے پاؤں تک سفید لباس پہنے ہوئے تھے۔ فن طب میں کامل اور تاریخ کے عالم ہیں۔ میں آداب بجا لایا، میری طرف مسکرا کر دیکھا اور نواب صاحب سے کہا: آپ کی تعریف کیجیے۔ انھوں نے کہا: یہ میرے قدیم ملنے والوں میں سے ہیں۔ خود شاعر نہیں مگر شعر فہم ہیں۔ آج کل خیال پیدا ہوا ہے کہ شعرائے دہلی کا ایک تذکرہ لکھیں اور اُس میں ان کے حلیے اور ان کے کلام کے نمو نے دکھائیں۔ مجھ سے مشورہ کرنے آئے تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ مجھے ان چیزوں سے عشق ہے۔ اب اپنا آخری وقت ہے، جی چاہتا ہے کہ پرانے رنگ کا ایک مشاعرہ اور دیکھ لوں؛ اگر آپ مدد فرمائیں تو یہ مشکل آسان ہوسکتی ہے۔ حکیم صاحب کہنے لگے: میاں عارف! خدا کے لیے ایسی مایوسی کی باتیں نہ کیا کرو۔ ابھی جوان ہو، ان شاء اللہ خود طبیعت مرض پر غالب آ جائے گی اور تمھیں مرض ہی کیا ہے، وہم ہی ہے؛ مگر ہاں یہ تو بتاؤ تم مجھ سے کس قسم کی مدد چاہتے ہو؟ نواب صاحب نے کہا: حکیم جی! اور کچھ نہیں، اتنا کردو کہ میاں کریم الدین کو بارگاہ جہاں پناہی تک پہنچا دو۔ میں خود جاتا مگر ہمت نہیں ہوتی۔ میں ان کو سب سمجھادوں گا۔ اگر حضرت ظلّ اللہ اپنا کلام بھیجنے پر راضی ہوگئے تو مشاعرے کا جم جانا کوئی مشکل کام نہیں۔ اور اگر بدقسمتی سے انکار ہوگیا تو مشاعرے کا خیال کرنا ہی فضول ہے۔ اب رہا مشاعرے کا انتظام تو وہ میں خود کرلوں گا کیوں کہ یہ بے چارے ان چیزوں کو کیا سمجھیں۔
حکیم صاحب پہلے تو کچھ سوچتے رہے، پھر کہا: عارفؔ! تمھارے لیے میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔ اس لیے اور بھی کروں گا کہ اس سے تمھاری طبیعت بہل جائے گی اور کچھ دنوں اس مشغلے میں لگ کر ممکن ہے کہ تمھارے دل سے مرض کا وہم جاتا رہے۔ بادشاہ سلامت سے تو میں کہتا نہیں، ہاں آپ کے دوست کو صاحب(١) عالم مرزا فتح الملک بہادر سے ملا دیتا ہوں، ان کو آج کل مشاعرے کی لَو لگی ہوئی ہے، حضور سے بھی کئی مرتبہ عرض کرچکے ہیں، مگر وہ ٹال گئے۔ اگر ان صاحب نے ذرا بھی زور دیا تو مجھے یقین ہے کہ صاحبِ عالم کہہ سن کر ضرور اجازت حاصل کرلیں گے۔ اچھا تو مولوی صاحب! کل ایک بجے قلعۂ معلیٰ میں آ جائیے، میں چوبدار سے کہے جاتا ہوں، یہ اندر پہنچا دے گا۔ آگے آپ جانیں اور آپ کی قسمت۔ یہ کہہ کر حکیم صاحب نے خدا بخش کو آواز دی۔ وہ آیا تو اس سے کہا کہ کل یہ صاحب حویلی(٢) میں ایک بجے آئیں گے، ان کو میری بیٹھک میں پہنچا دینا۔ یہ کہہ کر وہ نواب صاحب کی طرف متوجہ ہوگئے اور میں آداب کر کے واپس چلا آیا۔
دوسرے روز ایک بجے کے قریب میں مولویانہ ٹھاٹھ سے جُبّہ پہن، شملہ باندھ، قلعۂ معلّیٰ پہنچا۔ لاہوری دروازے کے باہر خدا بخش کھڑے ہوئے تھے، وہ مجھ کو حکیم صاحب کی بیٹھک میں لے گئے۔ یہ بیٹھک، جس کو پہلے زمانے میں ‘‘نشست’’ کہا جاتا تھا، دیوانِ عام سے ملی ہوئی تھی۔ حکیم صاحب بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے، مجھے دیکھ کر بولے: ‘‘اجی مولوی صاحب! میں نے آپ کا کام کر دیا ہے، صاحبِ عالم مرزا فتح الملک بہادر سے صبح ہی کو ملنا ہوگیا، وہ اس تجویز سے بڑے خوش ہوئے۔ فرماتے تھے: جہاں پناہ سے میں اجازت لیے لیتا ہوں، مگر مشاعرے کا انتظام ایسا ہونا چاہیے کہ ہم لوگ بھی آسکیں۔ خیر بیٹھیے، شاید ابھی آپ کی یاد ہو۔ میں ایک طرف بیٹھ گیا۔ بیٹھا ہی تھا کہ چوبدار نے آ کر کہا: وہ کریم الدین کون صاحب ہیں، ان کو حضور والا یاد فرماتے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ میرے پسینے چھوٹ گئے۔ میں سمجھا تھا کہ حکیم صاحب ہی کے پاس جا کر معاملہ طے ہوجائے گا۔ یہ کیا خبر تھی کہ بارگاہِ جہاں پناہی میں یاد ہوگی اور یاد بھی ایسے وقت کہ میرا سانس بھی پیٹ میں پوری طرح نہ سمایا ہوگا۔ ‘‘حکم حاکم، مرگِ مفاجات’’۔ اٹھا اور چوبدار کے پیچھے پیچھے روانہ ہوا۔ تمام راستے آیۃ الکرسی پڑھتا رہا۔ آنکھ اٹھا کر یہ بھی نہ دیکھا کہ یہ بندۂ خدا کدھر لیے جا رہا ہے۔ اندر سے قلعہ دیکھنے کا مدت سے شوق تھا۔ اب جو موقع ملا تو کن انکھیوں سے بھی دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ چلتے چلتے آندھ آ گئی۔ آخر خدا خدا کر کے چوبدار نے دیوانِ خاص کی سیڑھیوں کے پاس لے جا کر کھڑا کر دیا اور آپ اندر اطلاع دینے چلا گیا۔ حضرت جہاں پناہ اُس وقت حمام میں رونق افروز تھے۔
جن صاحبوں نے دہلی کا قلعہ نہیں دیکھا ہے، وہ شاید نہ سمجھ سکیں کہ گرمیوں میں حمام میں بیٹھنے کے کیا معنی ہیں؟ اصل یہ ہے کہ یہ حمام کیا ہے، ایک عالی شان عمارت ہے۔ اس کے دو درجے ہیں: ایک گرم، دوسرا سرد۔ عمارت کا جو حصہ موتی مسجد کی جانب ہے، وہ گرم ہے اور جو جمنا کے رخ پر ہے وہ سرد ہے۔ ریتی کے رُخ خس کے پردے ڈال کر خس خانہ بنا لیا جاتا ہے۔ اندر نہر بہتی ہے۔ بیچ میں کئی بڑے بڑے حوض ہیں، ان میں فوارے چلتے ہیں۔ حمام کیا ہے، بہشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ چوبدار جو گیا تو آنے کا نام نہیں لیتا۔ دھوپ میں کھڑے کھڑے فشِار ہوگیا۔ پسینے میں تر بہ تر، گردن نیچی کیے کھڑا ہوں اور ناک سے پسینے کی بوندیں ٹپ ٹپ گر رہی ہیں۔ ارادہ ہوا کہ واپس چلا جاؤں؛ مگر اول تو طلبی کے بعد بھاگ جانا ہی نازیبا، دوسرے راستہ کس کو معلوم۔ خدا خدا کر کے یہ مشکل آسان ہوئی اور چوبدار نے آ کر کہا کہ چلیے۔ اس ایک لفظ نے خود بہ خود پاؤں میں لغزش اور دل میں کپکپی پیدا کر دی۔ خیر کسی نہ کسی طرح الٹے سیدھے پاؤں ڈالتا حمام مبارک میں داخل ہوگیا۔ چوبدار نے آواز دی: “ادب سے، نگاہ روبرو، حضرت جہاں پناہ سلامت، آداب بجا لاؤ”۔ میں نواب زین العابدین خاں صاحب سے یہ سبق پورا اور اچھی طرح پڑھ کر آیا تھا۔دہرا ہو کر سات تسلیمات بجا لایا اور نذر گزارنی۔ نذر دیتے وقت ذرا آنکھ اونچی ہوئی تو وہاں کا رنگ دیکھا۔ حضرت پیر و مرشد ایک چاندی کی پلنگڑی پر لیٹے تھے۔ پائنتی مرزا فخرو بیٹھے پاؤں دبا رہے تھے۔ دہلی میں وہ کون ہے جس نے حضرت ظل اللہ کو نہیں دیکھا۔میانہ قد، بہت نحیف جسم، کسی قدر لمبا چہرہ، بڑی بڑی روشن آنکھیں، آنکھوں کے نیچے ہڈیاں بہت ابھری ہوئی، لمبی گردن، چوکا ذرا اونچا، پتلی سُتواں ناک، بڑا دہانہ، گہری سانولی رنگت، سر منڈا ہوا، چھدری ڈاڑھی، کلّوں پر بہت کم، ٹھوڑی پر ذرا زیادہ، لبیں کتری ہوئی، ستر برس سے اونچی عمر تھی۔ بال سفید بھک ہوگئے تھے لیکن پھر بھی ڈاڑھی میں اکا دکا سیاہ بال تھا۔ چہرے پر جھریاں تھیں، لیکن باوجود اس پیرانہ سالی اور نقاہت کے آواز میں وہی کرارا پن تھا۔ سبز کمخواب کا ایک برکا پیجامہ اور سفید ڈھاکے کی ململ کا کرتا زیبِ بدن تھا۔ سامنے ایک چوکی پر جامہ وار کی خفتان اور کارچوبی چو گوشیہ ٹوپی رکھی ہوئی تھی۔
اب رہے مرزا فخرو تو وہ عین مَین باپ کی تصویر تھے۔ بتیس تینتیس برس کی عمر تھی، فرق تھا تو بس یہی کہ وہ بڈھے تھے اور یہ جوان۔ اُن کا رنگ بڑھاپے کی وجہ سے ذرا کلونس لے آیا تھا۔ اِن کا کھلا گیہواں رنگ تھا۔ اُن کی ڈاڑھی سفید تھی، اِن کی سیاہ، ورنہ یہی معلوم ہوتا تھا کہ ایک بادشاہ لیٹے ہیں اور ایک بیٹھے ہیں۔
دونوں نے مجھ پر ایک گہری نظر ڈالی اور بادشاہ سلامت نے فرمایا: اماں(١) تمھارا ہی نام کریم الدین ہے؟ کہیں باہر کے معلوم ہوتے ہو۔ میں نے کہا کہ: خانہ زاد پانی پت کا رہنے والا ہے۔ بچپن ہی سے حضرت ظل اللہ کے سایۂ عاطفت میں آ رہا ہے۔ فرمایا: اماں ابھی تمھارا ہی ذکر مرزا فخرو کر رہے تھے۔ میرا خود جی چاہتا ہے کہ پہلے کی طرح دیوانِ عام میں مشاعرہ کروں، مگر کیا کروں زمانے کی ہوا ایسی بگڑ گئی ہے کہ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ یہ صحیح ہے کہ ‘‘بود ہم پیشہ باہم پیشہ دشمن’’ لیکن خدا محفوظ رکھے، ایسی دشمنی بھی کس کام کی کہ دو گھڑی مل جل کر نہ بیٹھنے دے۔ دیوانِ عام میں مشاعرہ ہوتا تھا، وہ کچھ دنوں ٹھیک چلا۔ پھر میں نے دیکھا کہ بے لطفی بڑھ رہی ہے، اس لیے بند کر دیا۔ منشی فیض پارساؔ نے اجمیری دروازے کے باہر غازی الدین خاں کے مدرسے میں مشاعرہ شروع کیا، وہ تیلیوں کی طرح بکھر گیا۔ وہ تو کہو غنیمت ہوا کہ ردیف میں ‘‘تیلیاں’’ ہی تھیں، کہیں خدانخواستہ اگر ردیف ‘‘کڑیاں’’ ہوتی تو خدا معلوم کتنوں کے سر پھوٹ جاتے۔ تم مشاعرہ تو کر رہے ہو مگر اُن ہاتھیوں کی ٹکر کیسے سنبھالو گے۔
استاد ذوقؔ تو بے چارے بے زبان آدمی ہیں، مگر خدا بچائے حافظ ویرانؔ سے، وہ ضرور لڑ مریں گے اور تم جانتے ہو ‘‘اندھے کی داد نہ فریاد، اندھا مار بیٹھے گا’’۔ کسی نے اگر مشاعرے میں استاد پر ذرا بھی چوٹ کر دی تو ان نابینا صاحب کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ میاں تم سے یہ کام سنبھلتا نظر نہیں آتا۔ میں نے عرض کی کہ قبلۂ عالم! میری کیا ہمت ہے جو میں اتنے بڑے کام میں ہاتھ ڈال سکوں۔ مشاعرے کا سارا انتظام نواب زین العابدین خاں عارفؔ نے اپنے ذمے لیا ہے۔ فرمایا: تو مجھے اطمینان ہے، یہ لڑکا بڑا ہوشیار اور ذہین ہے۔ مرزا نوشہ اور مومن خاں کو وہ سنبھال لے گا۔ رہے استاد ذوقؔ، ان سے میں کہہ دوں گا۔ خدا نے چاہا تو اس طرح مشاعرہ چل جائے گا، مگر میں کہے دیتا ہوں کہ مشاعرے سے پہلے ان لوگوں سے مل لو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت پر انکار کر بیٹھیں۔ میں اور مرزا شبوؔ تو آ نہیں سکتے، ہاں مرزا فخرو کو میں اپنی جگہ بھیج دوں گا اور ان شاء اللہ اپنی غزل بھی بھیج دوں گا۔ ہاں یہ بتاؤ کہ تم نے ‘‘طرح’’ کیا رکھی ہے؟ ‘‘طرح’’ ہی تو بڑے جھگڑے کی چیز ہے، یہ ذرا سوچ سمجھ کر دینا۔
یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ بازو سے آواز آئی: ‘‘اے ہے! یہ انّا بچے کو کیا بے طرح سلا گئی ہے’’۔ یہ سنتے ہی بادشاہ سلامت نے فرمایا: لو بھئی! یہ خود بہ خود ‘‘فالِ گوش’’ مل گئی۔ تم اس مشاعرے میں کوئی ‘‘طرح’’ ہی نہ دو۔ جس شخص کا جس بحر، جس ردیف، قافیے میں غزل پڑھنے کو دل چاہے پڑھے، نہ لینا ایک نہ دینا دو۔ میں نے عرض کی: ‘‘پیر و مرشد! تاریخ؟’’ فرمایا: ۱۴؍ رجب مقرر کردو۔ دن بھی اچھا ہے، چاندنی رات بھی ہوگی، آج پانچ تاریخ ہے، نو دن باقی ہیں، اتنے دنوں میں بہت کچھ انتظام ہوسکتا ہے۔ انگریزی کی ۲۰؍ جولائی پڑے گی، موسم بھی ٹھنڈا ہوجائے گا۔ اچھا اب خدا حافظ۔
میں نے عمر و دولت و اقبال کو دعا دی اور خوش خوش الٹے قدموں واپس ہوا۔ مرزا فخرو بیچ میں کچھ نہیں بولے، مگر میں سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ کیا دھرا انہی کا ہے، ورنہ کہاں میں اور کہاں خلوتِ شاہی۔ سچ ہے ؏
بگڑی بن جاتی ہے جب فضلِ خدا ہوتا ہے
یہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ میرے لیے حضوری اُتنی مشکل نہ تھی جتنا یہ رخصت ہو کر الٹے پاؤں چلنا ہوا۔ زمین پاؤں کو نہیں لگی تھی، اس لیے دو چار قدم ہی چلا ہوں گا کہ پیچھے ایک دیوار سے ٹکرایا۔ اس ٹکر سے ذرا سنبھلا تھا کہ نہر میں پاؤں جا پڑا۔ خیر بہ ہزار مشکل اب جادۂ ادب کو طے کرکے باہر نکل ہی آیا۔ ادھر میں نکلا ادھر چوبدار ساتھ ہوا۔ اس کو انعام دے دلا کر ٹالا۔ حکیم صاحب کے پاس آیا۔ وہ میرے انتظار ہی میں بیٹھے تھے، ان سے تمام واقعہ بیان کیا۔ فرمانے لگے: مولوی صاحب! بات یہ ہے کہ مرزا فخرو بہت دنوں سے مشاعرے کے لیے بے چین ہو رہے تھے، انہی کی یہ کار گزاری ہے۔ ورنہ بھلا یہ معاملہ اس طرح تھوڑی طے ہوتا۔ مگر چلو تمھارا کام بن گیا۔ میاں عارفؔ سے جا کر کہہ دو، وہ میرے ہی ہاں بیٹھے انتظار کر رہے ہوں گے۔
حکیم صاحب کے مکان پر پہنچا تو دیکھا کہ واقعی نواب صاحب میرے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ ان سے حالات بیان کیے، کہنے لگے: چلو یہ مشکل تو آسان ہوئی، اب تم یہ کرو کہ کم سے کم استاد ذوقؔ، مرزا نوشہ اور حکیم مومنؔ خاں کے مکان کا گشت لگا ڈالو؛ مگر دیکھنا ذرا پھونک پھونک کر قدم رکھنا، یہ تینوں بڑے دماغ دار آدمی ہیں۔ اگر ذرا بھی تم سے بات چیت میں لغزش ہوئی تو یاد رکھو بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ جب دیکھو کہ ان میں سے کوئی ہاتھوں سے نکلا ہی جاتا ہے، تو میرا نام لے دینا، کیا عجب ہے کہ میرا نام سن کر راضی ہوجائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مبارک النسا بیگم کی حویلی جس میں تمھارا مطبع ہے، دو روز میں خالی کر کے بالکل میرے حوالے کردو۔ مجھے وہاں نشست کا انتظام کرنا ہوگا۔ میں نے کہا: اور میں کہاں جاؤں؟ فرمانے لگے: میرے مکان پر آٹھ نو روز کے لیے آجاؤ، تم کو تکلیف تو ہوگی مگر کیا کیا جائے۔ جب قلعے کے لوگوں کو بلا رہے ہیں، تو انہی کے رتبے کے موافق مکان کو بھی درست کرنا ہوگا۔ دیکھیے خرچ کیا پڑتا ہے؟ میں نے کہا: مشاعرے میں خرچ ہی ایسا کون سا ہوتا ہے؛ زیادہ سے زیادہ سو، سواسو روپے اٹھ جائیں گے۔ یہ سن کر نواب صاحب مسکرائے اور کہا: میاں کریم الدین! تم کیا جانو کہ ایسے مشاعروں میں کیا خرچ ہو جاتا ہے۔ ہزار دو ہزار میں بھی اگر پُوتھ پورا ہوگیا تو سمجھو کہ سستے چھوٹے۔ یہ سن کر میرے ہاتھوں کے توتے اڑگئے، میں نے کہا: نواب صاحب! اگر صورتِ حال یہ ہے تو میرا ایسے مشاعرے کو دور ہی سے سلام ہے۔ مطبع تو مطبع، اگر اپنے آپ کو بھی بیچ ڈالوں تو اتنی رقم نہ اٹھے۔ فرمانے لگے: بھئی تم اس خرچ کے جھگڑے میں نہ پڑو، خدا مشکل بھی آسان کر دے گا۔ جب میں نے اس کام میں ہاتھ ڈالا ہے تو میں جانوں اور میرا کام جانے، تم بیٹھے تماشا دیکھو؛ مگر ہاں کل تک مکان خالی کر دینا۔ نو ہی دن تو رہ گئے ہیں۔ رات کم اور سوانگ بہت ہے۔ اب جاؤ خدا حافظ، تم تھک بھی گئے ہو، ذرا آرام لے لو اور کل صبح ہی سے اِدھر مکان خالی کرنے کی فکر کرو، اُدھر ان تینوں استادوں کے مکان کا چکر لگاؤ، مکان خالی ہوجائے تو فوراً مجھے اطلاع دینا اور خود میرے ہاں چلے آنا۔ اس میں شرم کی کون سی بات ہے۔ آخر میری ہی وجہ سے تو تم اپنا مکان چھوڑ رہے ہو۔
وہاں سے نکل کر میں اپنے گھر آیا، مطبعے کو بند کرتے کرتے اور سامان سمیٹتے سمیٹتے شام ہوگئی۔ صبح اٹھ کر اپنے پہننے اور اوڑھنے کا سامان تو نواب زین العابدین خاں کے مکان پر روانہ کیا اور خود کابلی دروازے کی طرف چلا کہ پہلے استاد ذوقؔ ہی سے بسم اللہ کروں۔
کابلی دروازے کے پاس ہی ان کا مکان ہے۔ مکان بہت چھوٹا ہے۔ چھوٹی سے ڈیوڑھی ہے۔ اس میں ایک طرف جائے ضرور ہے۔ اندر صحن اتنا چھوٹا ہے کہ دو پلنگ بچھنے کے بعد راستہ چلنے کے لیے مشکل سے جگہ رہتی ہے۔ سامنے چھوٹا سا دالان ہے اور اس کے اوپر ایک کمرا۔ صحن میں سے زنانے مکان میں راستہ جاتا ہے۔ جب میں پہنچا تو استاد صحن میں بان کی کُھرّی چارپائی پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے، دوسری چارپائی پر ان کے چہیتے شاگرد حافظ غلام رسول ویرانؔ بیٹھے تھے۔ یہ اندھے ہیں اور انہی سے ہوشیار رہنے کے لیے حضرت جہاں پناہ نے ارشاد فرمایا تھا۔ استاد ذوق قد و قامت میں متوسط اندام ہیں۔ رنگ اچھا سانولا ہے، چہرے پر چیچک کے بہت داغ ہیں، آنکھیں بڑی بڑی اور روشن اور نگاہیں تیز ہیں، چہرے کا نقشہ کھڑا کھڑا ہے۔ اُس وقت سفید تنگ پیجامہ اور سفید کرتا اور سفید ہی انگرکھا پہنے ہوئے تھے۔ سر پر ململ کی ٹوپی گول چندوے کی تھی۔
میرا صحن میں قدم رکھنا ہی تھا کہ میرے پاؤں کی آہٹ سنتے ہی حافظ ویرانؔ نے چونک کر کہا: کون ہے؟ میں نے کہا: کریم الدین، استاد ذوقؔ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ استاد نے اپنا نام سن کر کہا: آئیے آئیے اندر تشریف لائیے۔ میں نے آداب عرض کیا۔ انھوں نے فرمایا: بیٹھو بھئی بیٹھو۔ میں حافظ ویرانؔ کے پاس چارپائی پر بیٹھ گیا۔ کہا: فرمائیے کیسے تشریف لانا ہوا؟ میں نے عرض کی کہ میرا ارادہ قاضی کے حوض پر ایک مشاعرہ شروع کرنے کا ہے، ۱۴؍ رجب تاریخ مقرر ہوئی ہے؛ اگر حضور بھی از راہِ ذرہ نوازی قدم رنجہ فرمائیں تو بعید از کرم نہ ہوگا۔
میرا اتنا کہنا تھا کہ حافظ ویرانؔ چراغ پا ہوگئے، کہنے لگے: جائیے، جائیے، کہاں کا مشاعرہ نکالا ہے، استاد کو فرصت نہیں ہے، اُن مرزا لے پالک(١) کے پاس کیوں نہیں جاتے، جو خواہ مخواہ ان کو آ کر دق کرتے ہو۔ استاد نے کہا: بھئی حافظ ویرانؔ! تمھاری زبان نہیں رکتی، بیٹھے بٹھائے دنیا سے لڑائی مول لیتے ہو۔ حافظ ویرانؔ کہنے لگے: استاد! جب وہ آپ کو برا بھلا کہیں تو ہم کیوں چپ بیٹھنے لگے۔ وہ ایک کہیں گے تو ہم سو سنائیں گے۔ اور تو اور میاں آشفتہ کو دن لگے ہیں۔ کل ہی کی بات ہے کہ آپ کو ناوڑا(٢) کہہ رہے تھے؛ مگر میں نے بھی ایسی خبر لی کہ تمام عمر یاد کریں گے، ان کی سات پشت کو توم ڈالا۔ استاد ہنس کر فرمانے لگے: نا بھئی نا، تم میری وجہ سے کیوں بلا میں پڑتے ہو۔ مجھے جس کا جو جی چاہے سو کہے۔ میں نے ان سب کا جواب اس رباعی میں دے دیا ہے:
تو بھلا ہے تو برا ہو نہیں سکتا اے ذوق!
ہے برا وہ ہی کہ جو تجھ کو برا جانتا ہے
اور جو خود تو ہی برا ہے تو وہ سچ کہتا ہے
کیوں برا کہنے سے اس کے تو برا مانتا ہے
میں نے عرض کیا کہ: میں کل بارگاہ سلطانی میں حاضر ہوا تھا، حضرت ظل اللہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اس مشاعرے میں ہم مرزا فتح الملک بہادر کو اپنی طرف سے بھیجیں گے اور اپنی غزل بھی بھیج کر مشاعرے کی عزت بڑھائیں گے۔ یہ سن کر حافظ ویرانؔ تو ٹھنڈے پڑ گئے، استاد نے فرمایا: ہاں بھئی مجھے یاد آگیا، کل شام کو حضرت پیر و مرشد نے مجھ سے بھی فرمایا تھا اور یہ بھی ارشاد ہوا تھا کہ تو بھی ضرور جائیو۔ میاں! میں ان شاء اللہ تعالی ضرور آؤں گا۔ مگر یہ تو بتاؤ طرح کیا رکھی ہے؟ میں نے واقعہ عرض کیا اور کہا کہ حضرت ظل سبحانی نے ‘‘طرح’’ کا جھگڑا ہی نکال دیا ہے۔ جو شخص جس بحر اور جس ردیف قافیے میں چاہے، آ کر غزل پڑھے۔ استاد تو ‘‘بہت خوب، بہت خوب’’ کہتے رہے، مگر حافظ ویرانؔ کی تیوری کے بل نہیں گئے، برابر بڑبڑاتے ہی رہے کہ اللہ خیر کرے، دیکھیے اس مشاعرے کا کیا حشر ہوتا ہے۔ حضرت پیر و مرشد بھی بیٹھے بیٹھے اُشقُلے(١) چھوڑا کرتے ہیں۔ وہ اپنی کہے گئے، میں تو اٹھ، سلام کر چلا آیا۔
دوسرا حملہ اسد اللہ خاں غالبؔ پر تھا۔ چاندنی چوک سے ہوتا ہوا بلّی ماروں میں آیا۔ حکیم محمود خاں صاحب کے مکان کے سامنے سے قاسم جان کی گلی کٹی ہے۔ بائیں طرف پہلا ہی مکان ان کا تھا۔ یہ مکان مسجد کے پیچھے ہے۔ اس کے دو دروازے ہیں: ایک مردانہ، دوسرا زنانہ۔ محل سرا کا ایک راستہ مر دانے مکان میں سے بھی ہے۔ باہر کے دروازے کی دہلیز ذرا دھنسی ہوئی سی ہے۔ دروازے کے اوپر ایک کمرا ہے اور کمرے کے دونوں پہلوؤں میں دو کوٹھریاں؛ گرمی میں مرزا صاحب دوپہر کے وقت اسی ایک کوٹھری میں رہا کرتے ہیں۔ دروازے سے گزر کر مختصر سا صحن ہے اور سامنے ہی دالان در دالان۔ جب میں پہنچا تو اندر کے دالان میں گاؤ تکیے سے لگے بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔
مرزا نوشہ کی عمر کوئی پچاس سال کی ہوگی۔ حسین اور خوش رو آدمی ہیں۔ قد اونچا اور ہاڑ بہت چوڑا چکلا۔ موٹا موٹا نقشہ اورسرخ سفید رنگ ہے لیکن اس میں کچھ کچھ زردی جھلکتی ہے۔ ایسے رنگ کو محاورے میں چمپئی کہا جاتا ہے۔ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے ہیں، ڈاڑھی بھری ہوئی ہے، مگر گھنی نہیں ہے، سر منڈا ہوا، اُس پر لمبی سیاہ پوستین کی ٹوپی ہے جو کُلاہِ پاپاخ سے ملتی جلتی ہے، ایک برکا سفید پیجامہ، سفید ململ کا انگرکھا، اُس پر ہلکی زرد زمین کی جامہ وار کا چُغا(٢)۔ میری آہٹ پا کر لکھتے لکھتے آنکھ اونچی کی۔ میں نے آداب کیا۔ سلام کا جواب دیا اور آنکھوں سے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں ایک طرف بیٹھ گیا۔ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ نواب ضیاء الدین احمد خاں آ گئے۔ یہ امین الدین خاں صاحب نوابِ لوہارو کے بھائی ہیں۔ ریختے میں رخشاںؔ اور فارسی میں نیّرؔ تخلص کرتے ہیں۔ کوئی چالیس سال کی عمر ہے۔ انشا پردازی، جغرافیہ، تاریخ، علم الانساب، اسماء الرجال، تحقیق لغات اور واقفیتِ عامہ میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ مرزا نوشہ کے خلیفہ ہیں۔ چھوٹا قد، بہت گورا رنگ، نازک نازک نقشہ، غلافی آنکھیں، چُگّی ڈاڑھی، چھریرا بدن، غرض نہایت خوب صورت آدمی ہیں۔ ایک برکا سفید پیجامہ اور سفید ہی انگرکھا زیب بدن تھا۔ قالب چڑھی ہوئی چوگوشیہ ٹوپی سر پر تھی۔ ایک بڑا رومال سموسا بنا کر شانوں پر ڈالے ہوئے تھے۔ میں نے اٹھ کر سلام کیا، انھوں نے بڑھ کر مصافحہ کیا اور خاموش ایک طرف دو زانو نہایت ادب سے بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں مرزا غالب بھی لکھنے سے فارغ ہوئے، پہلے نواب صاحب کی طرف مڑے اور کہنے لگے: میاں نیّرؔ! تم کس وقت آ بیٹھے۔ بھئی اس مرزا تفتہؔ نے میرا ناک میں دم کر دیا ہے۔ ظالم کی طبیعت کی روانی کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ ہر خط میں آٹھ دس غزلیں اصلاح کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ اصلاح دیتے دیتے تھک جاتا ہوں۔ میری طرف دیکھ کر کہا: آپ شاید مولوی کریم الدین صاحب ہیں۔ میں نے کہا: جی ہاں۔ فرمانے لگے: حضرت! آپ کے تشریف لانے کا مقصد مجھے پہلے ہی معلوم ہوگیا تھا۔ کل میاں عارفؔ آ کر مجھ سے آپ کے مشاعرے میں چلنے کا وعدہ لے گئے ہیں۔ کہو میاں نیرؔ! تم بھی چلو گے؟ نواب صاحب نے کہا: جہاں آپ وہاں میں، آپ تشریف لے جائیں گے تو ان شاء اللہ میں بھی ضرور ہمراہ ہوں گا۔ مرزا صاحب نے پوچھا: مگر بھئی اب تک علائؔی نہیں آئے، مجھ کو ان کا کل سے انتظار ہے۔ اے لو، وہ آ ہی گئے۔ بھئی بڑی عمر ہے، ابھی میں تم ہی کو پوچھ رہا تھا۔
نواب علاء الدین خاں علائؔی، نواب لوہارو کے ولی عہد ہیں، کوئی تیئیس، چوبیس سال کی عمر ہے۔ متوسط قد، گندمی رنگ، موٹا موٹا نقشہ، گول چہرہ، شربتی آنکھیں اور گھنی چڑھی ہوئی ڈاڑھی ہے۔ لباس میں غلطے کا تنگ مہری کا پیجامہ، سفید جامدانی کا انگرکھا، اس پر سینہ کھلی ہوئی سیاہ مخمل کی نیمہ آستین اور سر پر سیاہ ہی مخمل کی چوگوشیہ ٹوپی تھی۔ وہ بھی آداب کر کے ایک طرف بیٹھ گئے اور کہا: واقعی آج دیر ہوگئی۔ مجھے خود خیال تھا کہ آپ انتظار کر رہے ہوں گے۔ میری طرف دیکھ کر کہا: آپ کی تعریف؟ مرزا نوشہ نے تمام قصہ بیان کیا اور کہا: علائؔی! تم کو بھی چلنا ہوگا، ابھی تو تم شاید لوہارو نہیں جا رہے ہو؟ انھوں نے کہا: بہت خوب، آپ تشریف لے جائیں گے تو میں بھی حاضر ہوں گا۔ جب یہ مرحلہ بھی طے ہوگیا تو میں نے اجازت چاہی۔ وہاں سے رخصت ہو کر نواب زین العابدین خاں کے مکان میں آیا۔ انھوں نے مردانے کا ایک حصہ میرے لیے خالی کر دیا تھا۔ جو اسباب صبح میں نے بھیجا تھا، اس کو جما جمایا پایا۔ کپڑے اتارے۔ اندر سے کھانا آیا۔ کھا کر تھوڑی دیر سو رہا۔ چار بجے کے قریب اٹھ کر حکیم مومنؔ خاں کے ہاں جانے کی تیاری کی۔
حکیم صاحب کا مکان چیلوں کے کوچے میں ہے۔ راستے میں مولوی امام بخش صاحب صہبائی مل گئے، یہ کالج میں میرے استاد رہے ہیں۔ کُھلا ہوا گندم گوں رنگ ہے۔ منہ پر کہیں کہیں چیچک کے داغ ہیں، سر پر پٹھے ہیں، بڑے دبلے پتلے آدمی ہیں، کوئی چالیس کی عمر ہوگی۔ ایک برکا سفید پیجامہ، سفید انگرکھا، کشمیری کام کا جبہ پہنتے اور سر پر چھوٹا سفید صافہ باندھتے ہیں۔یہ بھی چیلوں کے کوچے ہی میں رہتے ہیں۔ مجھ سے پوچھنے لگے: کہاں جاتے ہو؟ میں نے کہا: حکیم مومنؔ خاں کے پاس۔ پوچھا: کیا کام ہے؟ میں نے حال بیان کیا۔ کہنے لگے: چلو میں بھی وہیں جا رہا ہوں۔ حکیم آغا جان کے چھتے کے سامنے خاں صاحب کا مکان تھا۔ بڑا دروازہ ہے۔ اندر بہت وسیع صحن اور اس کے چاروں طرف عمارت ہے۔ دو طرف دو صحنچیاں ہیں اور سامنے بڑے بڑے دالان در دالان۔ پچھلے دالان کے اوپر کمرا ہے، سامنے کے دالان کی چھت کو کمرے کا صحن کر دیا ہے، لیکن منڈیر بہت چھوٹی رکھی(١) ہے۔ دالانوں میں چاندنی کا فرش ہے۔ اندر کے دالان میں بیچوں بیچ قالین بچھا ہوا ہے، قالین پر گاؤ تکیے سے لگے حکیم صاحب بیٹھے ہیں۔ سامنے حکیم سکھانند المتخلص بہ رقم اور مرزا رحیم الدین حیاؔ مودّب دو زانو بیٹھے ہیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی دربار ہو رہا ہے کہ کسی کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے اور بلا ضرورت بولنے کا یارا نہیں۔
حکیم مومنؔ خاں کی عمر تقریباً چالیس سال کی تھی۔ کشیدہ قامت تھے، سرخ و سفید رنگ تھا جس میں سبزی جھلکتی تھی۔ بڑی بڑی روشن آنکھیں، لمبی لمبی پلکیں۔ کھنچی ہوئی بھویں، لمبی سُتواں ناک، پتلے پتلے ہونٹ، اُن پر پان کا لاکھا جما ہوا، مِسّی آلودہ دانت، ہلکی ہلکی مونچھیں، خشخاشی ڈاڑھی، بھرے بھرے بازو، پتلی کمر، چوڑا سینہ اور لمبی لمبی انگلیاں، سر پر گھونگر والے لمبے لمبے بال زلفیں بن کر پشت اور شانوں پر بکھرے ہیں۔ کچھ لٹیں پیشانی کے دونوں طرف کاکلوں کی شکل رکھتی ہیں۔ کانوں کے قریب تھوڑے سے بالوں کو موڑ کر زلفیں بنالیا تھا۔ بدن پر شربتی ململ کا نیچی چولی کا انگرکھا تھا لیکن اس کے نیچے کرتا نہ تھا اور جسم کا کچھ حصہ انگرکھے کے پردے میں سے دکھائی دیتا تھا۔ گلے میں سیاہ رنگ کا فیتہ، اس میں چھوٹا سا سنہری تعویذ۔ کاکریزی رنگ کے دوپٹے کو بل دے کر کمر میں لپیٹ لیا تھا اور اس کے دونوں سرے سامنے پڑے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں پتلا سا خار پُشت، پاؤں میں سرخ گل بدن کا پیجامہ۔ مُہریوں پر سے تنگ، اوپر جاکر کسی قدر ڈھیلا۔ کبھی کبھی ایک برکا پیجامہ بھی پہنتے تھے، مگر کسی قسم کا بھی ہو، ہمیشہ ریشمی اور قیمتی ہوتا تھا۔ چوڑا سرخ نیفہ۔ انگرکھے کی آستینیں آگے سے کٹی ہوئیں، کبھی لٹکتی رہتی تھیں اور کبھی پلٹ کر چڑھا لیتے تھے۔ سر پر گلشن کی دو پلڑی ٹوپی، اُس کے کنارے پر باریک لیس، ٹوپی اتنی بڑی تھی کہ سر پر اچھی طرح منڈھ کر آگئی تھی۔ اندر سے مانگ اور ماتھے کا کچھ حصہ اور بال صاف جھلکتے تھے۔ غرض یہ کہ نہایت خوش پوشاک اور جامہ زیب آدمی تھے۔ جب میں اور مولوی صہبائی دونوں پہنچے تو حکیم صاحب صاحبِ عالم مرزا رحیم الدین حیاؔ سے کہہ رہے تھے: صاحبِ عالم! تمھارے شطرنج کے نقشوں نے میرا ناک میں دم کر دیا ہے۔ ایک ہوں، دو ہوں، آخر یہ روز روز کی فرمایشیں کوئی کہاں تک پوری کرے۔ صاحبِ عالم نے کہا: استاد! کیا کروں۔ رزیڈنٹ بہادر کے پاس ولایت سے شطرنج کے نقشے حل کرنے کو آیا کرتے ہیں۔ کچھ تو میں خود حل کر کے ان کے پاس بھیج دیتا ہوں، جو سمجھ میں نہیں آتے وہ آپ کے پاس لے آتا ہوں۔ حکیم صاحب نے نظر اٹھا کر ہماری طرف دیکھا، ہمارا سلام لے کر کہا: بیٹھیے بیٹھیے! ہم بیٹھ گئے اور وہ پھر صاحبِ عالم کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے: میاں حیاؔ! جو نقشہ تم لائے ہو وہ تو میرے خیال میں کچھ پیچیدہ نہیں ہے۔ تم کہتے ہو کہ سرخ مہروں کو مات ہوگی، میں کہتا ہوں نہیں، سبز کو ہوگی۔ تم بساط بچھاؤ میں ابھی سمجھائے دیتا ہوں۔ اچھا ذرا مولوی صہبائی سے بات کرلوں اور میاں سکھانند تم بیٹھے انتظار کرتے رہو، میں حکم لگا چکا ہوں کہ جب تک پورب کی طرف سے اِس چھپکلی کا جوڑا نہ آ جائے، یہ سامنے کی دیوار سے نہ جائے گی۔ اس کا جوڑا آئے پر آئے۔ سکھانند حکیم تھے، رقم تخلص کرتے تھے۔ دھرم پورے میں رہتے تھے، کوئی چالیس سال کی عمر تھی، ریختے میں شاہ نصیر کے اور رمل میں خاں صاحب کے شاگرد تھے۔ بڑے خوش پوشاک، خوش وضع، خوش اخلاق، ظریف الطبع، حلیم، خوبصورت اور شکیل آدمی تھے۔ استاد کا ایسا ادب کرتے تھے، جیسے کوئی بیٹا باپ کا کرتا ہے۔ حکیم صاحب کی باتیں سن کر ‘‘بہت خوب’’، ‘‘بہت مناسب’’ کہتے رہے۔ اُن سے گفتگو کر کے حکیم صاحب ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: ارے بھائی صہبائی! تم تو کئی دن سے نہیں آئے، کہو خیریت تو ہے، اور آپ کے ساتھ یہ صاحب کون ہیں؟ مولوی صہبائی نے کہا: یہ پہلے کالج میں میرے شاگرد تھے، اب مطبع کھول لیا ہے، وہاں مشاعرہ کرنا چاہتے ہیں، آپ کو تکلیف دینے آئے ہیں۔ حکیم صاحب نے کہا: بس صاحب مجھے تو معاف ہی کیجیے، اب دہلی کے مشاعرے شریفوں کے جانے کے قابل نہیں رہے۔ ایک صاحب(١) ہیں وہ اپنی امّت کو لے کر چڑھ آتے ہیں۔ شعر سمجھنے کی تو کسی کو تمیز نہیں، مفت میں ‘‘واہ واہ سبحان اللہ’’ کا غل مچا کر طبیعت کو مُنغّص کر دیتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ:
صائب! دو چیز می شکند قدرِ شعر را
تحسین ناشناس و سکوتِ سخن شناس
دوسرے صاحب ہیں وہ ہدہد(٢) کو ساتھ لیے پھرتے ہیں اور خواہ مخواہ استادوں پر حملے کراتے ہیں۔ خود تو میدان میں نہیں آتے، اپنے نااہل پٹھوں کو مقابلے میں لاتے ہیں۔
اس روز جو اُس جانور نے یہ شعر پڑھ کر:
مرکزِ محورِ گردوں بہ لبِ آب نہیں
ناخنِ قوسِ قزح شِبہۂ مضراب نہیں
کہا: یہ غالبؔ کے رنگ میں لکھا ہے، تو میں بیان نہیں کرسکتا کہ مجھ کو کس قدر ناگوار گزرا۔ غالبؔ کے رنگ میں شعر کہنا تو کجا، وہ یا ان کے استاد پہلے مرزا نوشہ کے شعروں کو سمجھ تو لیں۔ اب رہے میرؔ صاحب، تو ان کی بات دوسری ہے۔ وہ بھی واہیات بکتے ہیں مگر کسی پر حملہ نہیں کرتے بلکہ ان کی وجہ سے مشاعرے میں کچھ چہل پہل ہو جاتی ہے۔ بھئی میں نے تو اسی وجہ سے مشاعروں میں جانا ہی ترک کر دیا ہے۔ میں نے عرض کی: اس مشاعرے میں استاد ذوقؔ اور مرزا نوشہ نے آنے کا وعدہ کر لیا ہے۔ حضرت ظلِ سبحانی کی غزل بھی آئے گی۔ فرمایا: ہر شخص مختار ہے، خود آئے، چاہے غزل بھیجے؛ میں تو نہ آؤں گا نہ غزل بھیجوں گا۔ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک بنارس کا سوداگر کپڑوں کے دو گٹھے لے کر آیا۔ شہر میں جب کوئی کپڑوں کا سوداگر آتا تو حکیم صاحب کے پاس اس کا آنا لازمی تھا۔ ریشمی کپڑوں سے ان کو عشق تھا۔ کوئی کپڑا پسند آتا تو پھر قیمت کی پروا نہیں کرتے تھے۔ جو مانگتا دیتے۔ اُس سوداگر نے آ کر ایک گٹھری مزدور کے سر پر سے اتاری، اس میں سے پٹ سے ایک چھپکلی نیچے گری اور دوڑ کر سامنے کی دیوار پر چڑھ گئی۔ جو چھپکلی پہلے دیوار پر جمی بیٹھی تھی، وہ لپک کر اس سے آملی اور دونوں مل کر ایک طرف چلی گئیں(١)۔ہم لوگ بیٹھے یہ تماشا دیکھتے رہے۔ جب دونوں چھپکلیاں چلی گئیں تو حکیم صاحب نے کہا: میاں رقم! تم نے دیکھا! انھوں نے کہا: جی ہاں! ایک خانے کا حساب لگانے میں مجھ سے غلطی ہوئی، میں نے جو اپنی رائے پر اصرار کیا تھا اس کی معافی چاہتا ہوں۔ کہنے لگے: اِس کا خیال نہ کرو، انسان ہی سے غلطی ہوتی ہے۔ ہاں تو میاں صہبائی! مشاعرے کے متعلق ہمارا تو صاف جواب ہے۔ میں نے جب دیکھا کہ خاں صاحب ہاتھوں سے نکلے ہی جا رہے ہیں تو مجھے نواب زین العابدین خاں صاحب کا آخری نسخہ یاد آیا، میں نے کہا: مجھے تو اس مشاعرے سے برائے نام تعلق ہے، سب کیا دھرا نواب زین العابدین خاں عاؔرف کا ہے۔ وہ بہت بیمار ہوگئے ہیں اور اُن کو اب زندگی کی امید نہیں رہی۔ اُن کی آخری خواہش ہے کہ مرتے مرتے ایک ایسا مشاعرہ دیکھ لیں جس میں دہلی کے تمام کاملینِ فن جمع ہوں۔ وہ خود حاضر ہوتے مگر حکیم احسن اللہ خاں صاحب نے ان کو کہیں آنے جانے سے منع کر دیا ہے۔ یہ آخری فقرہ میں نے اپنی طرف سے بڑھا دیا۔خاں صاحب بڑے غور سے میری بات سنتے رہے۔ میں خاموش ہوا تو مولوی امام بخش صاحب کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے: افسوس ہے، کیا خوش فکر اور ذہین شخص ہے، یہ عمر اور مایوسی۔ سچ ہے، ہمیشہ رہے نام اللہ کا! میری طرف دیکھ کر کہا: اچھا بھئی تم جاؤ، میری طرف سے عارفؔ سے کہہ دینا کہ میاں میں ضرور آؤں گا۔ میں نے دیکھا کہ یہ جادو چل گیا تو اور پاؤں پھیلائے اور کہا: نواب صاحب نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مولوی صہبائی صاحب، مفتی صدر الدین صاحب اور نواب مصطفے خاں صاحب شیفتہ کو بھی اپنے ہمراہ لائیے گا تو عنایت ہوگی۔ حکیم صاحب کہنے لگے: میاں صہبائی سے تو میں ابھی کہے دیتا ہوں۔ اب رہے آزردہؔ اور شیفتہؔ تو واپس جاتے جاتے اُن سے بھی کہتے جاؤ۔ یہ کہہ دینا کہ میں نے تم کو بھیجا ہے۔ ہاں تاریخ کیا مقرر کی ہے؟ مشاعرہ کہاں ہوگا اور ‘‘طرح’’ کیا ہے؟ میں نے تاریخ بتا کر مکان کا پتا دیا۔ ‘‘طرح’’ کے متعلق حضرت جہاں پناہ کے حضور میں جو گفتگو ہوئی تھی، وہ بیان کی۔ کہنے لگے: ہمارے بادشاہ سلامت بھی عجیب چیز ہیں۔ جو سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے۔ شاید ایسا مشاعرہ کہیں بھی نہ ہوا ہوگا، جس میں ‘‘طرح’’ نہ دی گئی ہو۔ خیر یہ تو اچھا ہوا کہ جھگڑے کا جھونپڑا ہی نہیں رہا۔ مگر بھئی بات یہ ہے کہ جب تک مقابلے کی صورت نہ ہو، نہ شعر کہنے میں جی لگتا ہے نہ پڑھنے میں لطف آتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ کپڑے دیکھنے میں مشغول ہوگئے اور میں سلام کر کے رخصت ہوا۔
چتلی قبر کے قریب حویلی عزیز آبادی کے سامنے مفتی صدر الدین صاحب کا مکان تھا، اس کے نزدیک مٹیا محل میں نواب مصطفے خاں صاحب شیفتہؔ رہتے ہیں۔ مفتی صدر الدین کے ہاں جا کر معلوم ہوا کہ شیفتہ بھی مفتی صاحب ہی کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا چلو اس سے بہتر موقع ملنا مشکل ہے، دونوں سے ایک ہی جگہ ملنا ہوگیا۔ یہ سوچ کر اندر گیا۔ مکان کوٹھی کے نمونے کا ہے۔ انگریزی اور ہندوستانی دونوں وضع کو ملا کر بنایا گیا ہے۔ صحن بہت بڑا نہیں ہے، اُس میں مختصر سی نہر ہے۔ سامنے دالان در دالان اور پہلو میں انگریزی وضع کے کمرے ہیں۔ باہر کے دالان میں کواڑ لگا کر، اس کو بھی کمرے کی شکل کا کر دیا ہے۔ دالانوں سے ملا ہوا اونچا چبوترہ ہے۔ چبوترے کے اوپر تخت بچھے ہوئے تھے۔ ان پر چاندنی کا فرش اور دو طرف گا تکیے لگے ہوئے تھے۔ تختوں پر مفتی صاحب اور نواب صاحب بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ مفتی صاحب کی عمر کوئی چھپن ستاون سال کی تھی۔ گداز جسم، سانولا رنگ، چھوٹی چھوٹی آنکھیں ذرا اندر کو دھنسی ہوئی، بھری ہوئی ڈاڑھی، بہت سیدھی سادی وضع کے آدمی ہیں۔ ظاہری نمائش سے کوئی سروکار نہیں۔ بدن میں سفید ایک برکا پیجامہ، سفید کرتا اور سفید ہی صافہ(١) تھا۔ جامہ زیبی میں حکیم مومنؔ خاں کے بعد دہلی میں نواب مصطفی خاں شیفتہؔ ہی کا نمبر تھا۔ ان کا رنگ گہرا سانولا تھا، لیکن ناک نقشہ غضب کا پایا تھا۔ اُس پر نیچی سیاہ گول ڈاڑھی بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ جسم کسی قدر بھاری اور قد متوسط تھا۔ لباس میں بھی زیادہ تکلف نہیں تھا۔ تنگ مہری کا سفید پیجامہ، سفید کرتا، نیچی چولی کا سفید انگرکھا اور قبّہ نما پچ گوشیہ ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ تقریباً انتالیس چالیس سال کی عمر ہے۔
میں آداب کر کے تخت کے ایک کونے پر دو زانو بیٹھ گیا۔ مفتی صاحب نے آنے کا سبب پوچھا۔ میں نے حکیم مومنؔ خاں کا پیام پہنچا دیا۔ مفتی صاحب نے بڑے تعجب سے پوچھا: ہیں! خاں صاحب نے تو مشاعرے میں نہ جانے کا عہد کرلیا ہے۔ بھئی شیفتہؔ! یہ کیا معاملہ ہے؟ یا خود نہیں جاتے تھے یا دوسروں کو بھی ساتھ گھسیٹ رہے ہیں۔ میں نے نواب زین العابدین خاں عارفؔ کا واقعہ بیان کیا۔ کہنے لگے: ہاں تو یوں کہو، یہ بات ہے، ورنہ مجھے ہی سن کر حیرت ہوئی تھی کہ حکیم صاحب اور مشاعرے میں جائیں۔ اچھا بھائی! عارفؔ سے کہہ دینا کہ میں اور شیفتہؔ دونوں آئیں گے۔ یہاں سے چھٹی ہوئی تو میں یہ سمجھا کہ گویا گنگا نہا لیا۔ خوشی خوشی آ کر نواب زین العابدین خاں صاحب سے واقعہ بیان کیا، وہ بھی مطمئن ہوگئے۔ میں نے جب حکیم مومن خاں کا حال بیان کیا تو اُن کے آنسو نکل آئے، کہنے لگے: میاں کریم الدین! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ میری حکیم صاحب سے صفائی نہیں ہے۔ میں نے کہا: نواب صاحب! آپ کیا فرماتے ہیں، ان پر تو آپ کی بیماری کے سننے کا ایسا اثر ہوا کہ بیان نہیں کر سکتا، شاید ان کا سگا بھائی بھی ہوتا تو اتنا ہی اثر ہوتا۔ مفتی صاحب سے معلوم ہوا کہ انھوں نے مشاعرے میں نہ جانے کا عہد کر لیا تھا، صرف آپ کی وجہ سے انھوں نے یہ عہد توڑا ہے۔ نواب صاحب نے کہا: میاں! تم کو ان لوگوں کی محبتوں کا حال کیا معلوم! یہ لوگ وہ ہیں کہ اپنے دشمن کو بھی مصیبت میں نہیں دیکھ سکتے۔ خیر اِس کو جانے دو، اب بتاؤ کہ تمھارا مکان خالی ہوگیا یا نہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں بالکل خالی ہے، حکم ہو تو میں بھی خدمت میں رہ کر مدد کروں۔ فرمایا: نہیں بھئی نہیں، جہاں دو آدمیوں نے مل کر کسی کام میں ہاتھ ڈالا اور وہ خراب ہوا۔ تم اس انتظام کو بس مجھ پر چھوڑ دو، میں جانوں اور میرا کام جانے۔ بلکہ تم تو ادھر آنا بھی نہیں۔ تم نے آ کر اگر مین میخ نکالی تو مجھ پر دہری تہری محنت پڑ جائے گی۔
١۔ اِن کا نام مرزا فخر الدین، خطاب مرزا فتح الملک، شاہ بہادر، عرف مرزا فخرو اور تخلص رمز تھا۔ بہادر شاہ ثانی کے منجھلے بیٹے تھے۔ مرزا محمد دارا بخت عرف مرزا شبّو ولی عہدِ سلطنت کے انتقال کے بعد ١٨٤٩ء میں ولی عہد ہوئے مگر غدر سے پہلے ہی ١٠ جولائی ١٨٥٢ء میں چالیس سال کی عمر میں انتقال کیا۔ ان کے انتقال کے بعد مرزا جواں بخت کی ولی عہدی کے جھگڑے پڑے۔
٢۔ قلعۂ دہلی کو “لال حویلی” یا صرف حویلی بھی کہا جاتا ہے۔ حافظ عبد الرحمن خاں احسانؔ کا شعر ہے:
مری تنخواہ لوٹی ان لٹیروں نے حویلی میں
بہادر شاہ غازی کی دوہائی ہے دوہائی ہے
١۔ قلعہ دہلی کے دورِ آخر میں شاہانِ دہلی بعض وقت مرد عورت دونوں کو “اماں” سے خطاب کیا کرتے تھے، چنانچہ اس طرز کلام کی جھلک حیدرآباد کے روزمرہ میں بھی کسی قدر نظر آتی ہے۔ مجھے بڑا تعجب ہے کہ ایک مورخ نے اس طریقہ مخاطبت کی بنا پر قلعہ معلّی کی تہذیب و اخلاق پر حملہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ بادشاہ کے اخلاق کی پستی کا اندازہ اِس سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو بھی “اماں” کہتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ صاحب انگریزی نہیں جانتے تھے ورنہ ان کو یہ پڑھ کر بڑا تعجب ہوتا کہ جس قوم کو وہ تہذیب کا پتلا اور اخلاق کا نمونہ ظاہر کرتے ہیں، اُن کے یہاں بھی خاوند اپنی بیوی کو “اماں” ہی کہتا ہے اور بیوی خاوند کو کبھی “ابا” اور کبھی “دادا” پکارتی ہے۔ میرے خیال میں یہ “ارے میاں” کا اختصار ہے، چنانچہ اب بھی بے تکلف بول چال میں میاں کو “اماں” ہی کہہ جاتے ہیں۔ (اڈیٹر رسالہ اردو)
١۔ اُن دنوں دہلی میں لوگوں نے یہ اڑا رکھا تھا کہ مرزا نوشہ (غالبؔ) مرزا عبد اللہ بیگ کے بیٹے نہیں ہیں، بلکہ انھوں نے اُن کو پال لیا ہے اور یہ دراصل کسی کشمیری کی اولاد ہیں۔ حافظ ویرانؔ نے اِسی طرف اشارہ کیا ہے۔ خدا محفوظ رکھے دہلی والوں سے۔ جو باہر سے آیا ہے، اُس کے حسب نسب میں انھوں نے کیڑے ڈالے۔
٢۔ استاد ذوقؔ کو شہر بھر نائی کہتا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ آزادؔ مرحوم نے اُن کے ہاتھ میں استرے کے بجائے تلوار سے کر ان کو سپاہی زادہ بنا دیا ہے۔
١۔ معلوم نہیں کہ یہ کس زبان کا لفظ ہے مگر دہلی میں عام طور پر “شگوفے” کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔
٢۔ قلعہ دہلی کے عجائب خانے میں مرزا غالب کی ایک تصویر ہے، اُس سے یہ لباس لیا گیا ہے۔
١۔ میں نے خود یہ مکان بیس بائیس برس ہوئے دیکھا ہے۔ ٹوٹ کر کھنڈر ہو گیا تھا۔ تین طرف کی عمارت ڈھے گئی تھی۔ سامنے کا حصہ قائم تھا۔ معلوم نہیں کہ اوپر کی منڈیر کیوں اتنی نیچی رکھی گئی تھی۔ اسی منڈیر سے ٹھوکر کھا کر حکیم مومن خاں نیچے گرے، ہاتھ اور بازو ٹوٹ گیا اور اسی وجہ سے ان کا انتقال ہوا۔ خود ہی مرنے کی تاریخ کہی تھی “دست و بازو بشکست”۔
١۔ یہ استاد ذوق اور شہ زادوں کی طرف اشارہ تھا۔
٢۔ اِن کا مفصل حال آگے آئے گا، یہ بھی عجیب رقم تھے۔
١۔ یہ واقعہ ہے۔ اِس کے دیکھنے والے ایک صاحب کا ابھی کوئی بیس برس ہوئے انتقال ہوا ہے۔ میں نے یہ واقعہ خود اُن کی زبانی سنا ہے۔
١۔ پرانے زمانے میں شرفا گھر پر بھی پورا لباس پہنے رہتے تھے۔ زنانے میں جانے کے خاص خاص وقت تھے، ورنہ سارا وقت مردانے ہی میں گزرتا تھا۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی ملنے جلنے والا پاس بیٹھا رہتا۔ عالم ہوئے تو درس کا حلقہ ہوتا۔ شاعر ہوئے تو شعر کا چرچا رہتا۔ غرض کوئی وقت بیکار نہ گزرتا، خاص خاص دوستوں سے مذاق کی گفتگو ہوتی، ورنہ عام طور پر اپنے کو بہت لیے دیے رہتے۔ جہاں جاؤ یہی معلوم ہوتا کہ دربار لگا ہوا ہے۔ ہر شخص دو زانو مودّب بیٹھا ہے۔ بے ضرورت نہ بات کی جاتی ہے نہ جواب دیا جاتا ہے۔ کوئی ہنسی کی بات ہوئی تو ذرا مسکرادیے، کھلکھلا کر ہنسنا معیوب اور بڑھ بڑھ کر بولنا یا اونچی آواز میں بات کرنا خلافِ ادب سمجھا جاتا تھا۔