(5)
راجپوت سنگھ نے اپنے دو بھائی صاحب عالم بہادر کے ساتھ کر دیے اور صاحب عالم نے پانچ دن تک بلا ناغہ کوچ کیا تو کجلی بن کے دروازے تک پہونچے۔ راجپوت سنگھ نے کجلی بن کا جو حال بیان کیا تھا وہ آنکھوں کے سامنے عیاں ہونے لگا۔ اتنے بڑے بڑے درخت دکھائی دیے کہ جن کی بلندی گویا قطب صاحب کی لاٹھ کے برابر تھی اور ان کی موٹائی اور تنا آوری کو دیکھ کر دلوں میں ہول پیدا ہوتا تھا۔ ایک دن کجلی بن کے دروازے پر ڈیرا کیا اور دوسرے دن صبح ہی بن کے اندر داخل ہو گئے اور درختوں کی جڑیں جو دست انسانی نے کاٹے تھے گز دیڑھ گز اونچی کھڑی ہوئی کہہ رہی تھیں:
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی
درخت چونکہ خودرو تھے اس لیے بہت ہی پاس پاس تھے اور ان کی چوٹیاں اوپر جا کر ایک ہوگئی تھیں۔ اس لیے پتوں اور ٹہنیوں کی چھت بن گئی تھی اور ان میں جو دھوپ کم چھنتی تھی اسی لیے دوپہر دن سے یہ گمان ہوتا تھا کہ شام قریب ہے۔ رہبروں نے کہا ان درختوں سے نکل چلیے کیونکہ اگر درختوں کے نیچے رات ہو گئی تو بڑی مشکل ہوگی۔ ایسا اندھیرا ہوگا کہ ہاتھ کو ہاتھ نہ دکھائی دے گا اور موذی جانور چاروں طرف سے بہہ پڑیں گے اور ستائیں گے اور ان درختوں کی جڑوں میں دس دس پانچ پانچ گز لمبے سانپ رہتے ہیں اور بڑے زہریلے ہیں۔ وہ گھوڑوں اور آدمیوں کو کاٹیں گے اور آدمی اور گھوڑے پانی ہوکر بہہ جائیں گے۔ گھن دار ہونے کے سبب سے ہوا بھی ان کے نیچے کم آتی ہے اور رات کو ان کے نیچے اس بلا کی گرمی ہوتی ہے کہ آدمی یہ جانتا ہے کہ آگ کی بھٹی میں گر گیا ہوں۔ مچھر ایسے زہریلے کہ ان کے کاٹے سے آدمی کا سارا بدن سوج جاتا ہے اور کھجاتے کھجاتے پاگل بن جاتا ہے ۔ اس بات کو سن کر سوار اور پیدل قدم اٹھا کر چلنے لگے مگر بار برداری کے چھکڑوں کا ایسی جگہ لے جانا بہت دشوار تھا، بیلوں سے جلدی چلا نہ جاتا تھا۔ چھکڑے والے بہتیری تک تک کرتے تھے مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوتے تھے۔ مگر پھر بھی شام سے پہلے پہلے سارا لشکر صاحب عالم کا ان درختوں میں سے گزر کر ایک فراخ اور کھلے میدان میں پہونچ گیا۔ رہبروں نے کہا یہ میدان بیس کوس لمبا اور بیس کوس چوڑا ہے، اس میں جھیلیں اور ندیاں رواں دواں ہیں اور پرندوں کا شکار طرح طرح کا ہے۔ چونکہ رات ہوگئی تھی اس لیے صاحب عالم اور ان کے اردوئے معلی نے آرام کیا، پہرہ چوکی رات بھر سب اچھی طرح رہا۔ ادھر ادھر سے جھاڑ جھنکاڑ تبردار سے کٹوا کر ڈھیر کروا دیے اور ان میں آگ لگوا دی تھی۔ اس لیے کوئی موذی جانور اردوئے معلی کے پاس نہیں پھٹکا۔ صبح ہی صاحب عالم اور میر سنگی صاحب اور دو ایک مصاحب گھوڑوں پر سوار ہوکر میدان کی سیر کو چلے، دو تین قراول بھی گھوڑوں کا شکار بند پکڑ کر ساتھ چلے۔ صبح کا سہانا وقت، ہری ہری گھاس اور جنگلی درختوں کے پھول اور پھولوں پر اوس کی بوندیں عجب بہار دے رہی تھیں جو سامنے ایک جھیل دکھائی دی اور جھیل کے اندر اور اس کے کنارے پر سارس، کونجیں، کلنگ، مرغابیاں، پن ڈوبے، کلکلے، سرخاب، نکٹے، چہیے،بزہ،حواصل ، کبود وغیرہ بیٹھے کلیلیں کر رہے تھے، مگر قدرت الہی کا ایک نمونہ عجیب دکھائی دیا یعنی ایک قسم کی کونجیں جھیل کے کنارے دوب کی پتیاں نوچ نوچ کر کھا رہی تھیں۔ جن کے دو بازوؤں میں سے ایک بازو میں معمولی پر نہ تھے، ان کے لال لال بازو بے پر کے الگ دکھائی دے رہے تھے مگر بے پر کے بازو مع ہڈی کے مڑ کر ہک بن گئے تھے، صاحب عالم نے میر سنگی صاحب سے کہا یہ صنعت الٰہی درود پڑھنے کے لائق ہے مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ جانور ایک بازو سے اڑتے کیسے ہوں گے۔ انھیں اڑا کر دیکھنا چاہیے اور معلوم کرنا چاہیے کہ آیا یہ اڑتے بھی ہیں یا نہیں، صاحب عالم کا اشارہ پا کر ایک قراول نے مٹی کا ڈھیلا ان کی طرف پھینکا اور سب نے دیکھا کہ ان جانوروں نے ایک چیخ ماری اور ایک نے اپنے بازو کے ہک میں دوسرے جانور کے ہک کو ڈال دیا اور دونوں مل کر اس تیزی سے اڑے کہ دیکھنے والے حیران ہو گئے۔ اتفاقاً ان میں سے دو ایک پرند اڑ کر صاحب عالم کے سر کی طرف آئے اور صاحب عالم نے اڑتے ہی ان کے اوپر بندوق کا فیر کیا اور ان میں دو تین زخمی ہو کر زمین پر گرپڑے قراول بھاگ کر انھیں اٹھا لائے اور صاحب عالم نے اور سب نے دیکھا کہ ایک قسم کی کونجیں ہیں جو جثہ میں مور کے برابر ہیں اور خوب صورتی میں پری سے کم نہیں اور خلّاق عالم نے ان کے بازو اس طرح سےبنائے ہیں کہ ایک کا دایاں بازو پردار اور دوسرے کا بایاں ہک دار ہے اور دوسرے کا بایاں پردار اور دایاں ہک دار ہے تاکہ جب وہ اڑنا چاہیں تو اپنا اپنا ہک دار بازو جوڑ لیں اور اڑ جائیں۔ صاحب عالم نے فرمایا یہ حلال جانور ہے اسے ذبح کرو اور باورچی خانے میں پہونچا دو۔ قورمہ اور کباب تیار کیے جائیں۔
پھر صاحب عالم اور آگے تشریف لے گئے اور بہت سے پرند شکار کیے اور دس بجے اردوئے معلی کو واپس آ گئے۔ رہبروں نے کہا حضور آگے بن میں ایسا کوئی رستہ نہیں ہے جس میں حضور کی سواریاں اور چھکڑے جا سکیں، اس لیے چھاؤنی حضور اپنی میدان میں رکھیں اور شکار کے لیے جدھر چاہیں ادھر جائیں اور شکار کھیل کر چھاؤنی میں واپس آ جائیں کیونکہ چھاؤنی کے لیے بن میں سو دو سو میل تک جگہ نہیں ہے۔ صاحب عالم کو رہبروں کی یہ بات ماننی پڑی۔
دوپہر کے وقت صاحب عالم نے خاصہ نوش فرمایا تو ان نئی قسم کی کونجوں کا قورمہ اور کباب بہت لذیذ پائے، ان کے گوشت میں بجائے بساند کے مشک جیسی خوشبو تھی۔
رہبروں نے کہا یہاں سے دس کوس پر شیروں کے رہنے کی جگہ ہے اگر حضور کا جی چاہے تو کل ادھر تشریف لے چلیے۔ اب رمضان شریف کا مہینہ شروع ہو گیا تھا، جن لوگوں کو خدا نے توفیق دی تھی انھوں نے اس جنگل میں بھی روزے رکھنے شروع کر دیے۔ صاحب عالم نے فرمایا کل میں شیر کے شکار کو جاؤں گا، پچاس پیدل میرے ساتھ ہوں گے اور ان کے ہاتھوں میں بلم ہوں گے۔ ایک ہاتھی پر دھونسہ اور دھونسے والے ہوں گے اور ان کے ساتھ کئی باجے والے اور بھی ہوں گے۔ ایک عماری کے ہاتھی پر سوار ہوں گا ، میری خواصی میں دو آدمی دو نالی بندوقیں لیے بیٹھیں گے۔ میرے پاس دو الگ ہوں گی۔ جب میں اپنی بندوق خالی کر دوں گا تو میری خواصی والے بھری بھرائی بندوق مجھے دے دیں گے اور اسی طرح وہ جلدی جلدی بندوق کو گولی بارود سے بھرتے رہیں گے ۔ ہتنی پر جو شیر کے ساتھ لڑنے میں مشاق ہے میر سنگی صاحب مع اپنے دو رفیقوں کے سوار ہوں گے۔ اگر کسی جگہ پر ہاتھی نہ جا سکے گا تو میں اتر کر پیدل چلوں گا اور شیر کا شکار پیادہ ہی کروں گا۔ یہ بھی خبر نہیں کہ کس وقت تک پلٹ کر چھاؤنی میں پہونچوں گا۔ اس لیے بکاول کو چاہیے کہ کہاروں کی بہنگیوں میں کھانا بھیج دے، یہ حکم سر شام اس لیے دیا گیا ہے کہ میرے ساتھ چلنے والے شیر کا شکار بخوبی کر لیں۔