(٢)
حضرت ابوظفر بہادر شاہ: ولے بھی میر سنگی سنتے ہو۔
میر سنگی صاحب : کرامات پیر غلام بگوش ہوش سنتا ہے۔
حضرت ابوظفر بہادر شاہ : مرزا شاہرخ نہیں مانتا ہے، وہ شیر کا شکار کھیلنے کجلی بن جاتا ہے۔ ویسے تو اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا لشکر ہے مگر اماں مجھے کسی پر بھروسا نہیں ہے، مگر تم پر اعتبار کرتا ہوں اور اس لیے اس کے ساتھ تمھیں بھیجتا ہوں ۔ تم شاہرخ کے ساتھ اس طرح رہنا جس طرح قافیہ کے ساتھ ردیف رہتی ہے، دم بھر کو اسے اکیلا نہ چھوڑنا۔ وہ من چلا آدمی ہے، ایسا نہ ہو کسی جنگلی ہاتھی یا شیر سے بھڑجائے اور اپنی جان گنوا دے۔
میر سنگی صاحب : جہاں پناہ حافظ و ناصر خدا ہے، اس ناچیز کی کیا حقیقت ہے۔ مگر یہ جان نثار ایک آن کو بھی صاحب عالم سے الگ نہ ہوگا اور جب تک یہ نمک خوار زندہ رہے گا، ان کے دشمنوں پر آنچ نہیں آنے دے گا۔
الغرض مرزا شاہرخ بہادر نے مع اپنے رفیقوں کے دلی سے کوچ کیا اور دریائے جمنا پر جو ناؤں کا پل بندھا ہوا تھا اس پر سے گزر کر پہلی منزل غازی آباد پر کی اور اسی طرح منزل بہ منزل اور کوچ در کوچ سہارنپور اور روڑکی ہوتے ہوئے کلیر شریف پہونچے اور حضرت مخدوم علاؤالدین صابر کلیری قدس سرہ العزیز کے مزار پُر انوار پر فاتحہ پڑھتے ہوئے ہردوار اور کنکھل جابراجے اور ان مقامات کو دیکھ بھال کر گنگا کو عبور کر کے کجلی بن کی طرف مڑے۔ گنگا کے کنارے چلتے چلتے ایک روز شام کو ایک گاؤں کے پاس پہونچ کر خیمہ زن ہوئے، آفتاب غروب ہو رہا تھا اور اس کی زرد زرد کرنیں گنگا میں پڑ رہی تھیں اور مشرق کی طرف شفق اپنی بہار دکھا رہی تھی۔ صاحب عالم اپنی بارگاہ کے آگے شامیانے کے نیچے کرسی پر بیٹھے بہنڈہ نوش فرما رہے تھے ۔ جو گاؤں کے مرد اور عورتیں اور بچہ اور بوڑھے اور جوان یہ کہتے ہوئے دوڑے آئے کہ چلو رے دلی کے بادشاہ زادے کے درشن کر لیں۔ صاحب عالم کو جب ان گاؤں والوں کا یہ شوق اور یہ چاؤ معلوم ہوا تو آپ نے ایک خواص سے اشارہ کیا کہ ان لوگوں سے کہہ دو ہم نے تمھارے گاؤں کے پرلے کنارے پر گنگا کے اندر چھوٹی بڑی بٹیاں پڑی دیکھی ہیں۔ وہ ہمیں بہت پسند آئی ہیں ۔ تم میں سے جو لوگ خوبصورت اور سڈول اور چکنی بٹیاں اٹھا کر لائے گا تو جو بٹیا ہمیں پسند آئے گی اس کا مول پانچ روپیہ اور بٹیا ناپسند ہوگی تو اس کے دو روپے دیے جائیں گے۔ اس وقت تم سب جاؤ اور کل صبح بٹیاں چن کر چھانٹ کر لاؤ ۔ گاؤں والے خوش ہوتے ہوئے اپنے گاؤں کو چلے گئے اور دوسرے دن ایک چھکڑا بھر کر بٹیاں لے آئے ۔ صاحب عالم نے حکم دیا کہ ہمارے مصاحب ان بٹیوں کو ملاحظہ کریں جو بٹیہ انھیں پسند آئے اس کے بدلے انھیں پانچ روپیہ اور جو ناپسند ہو اس کے بدلے دو روپیہ ان لوگوں کو دیں۔ اور یہ قصہ شام تک ختم ہوا، رات کے وقت جب صاحب عالم خاصہ نوش فرمانے لگے تو ایک مصاحب نے دست بستہ عرض کی کہ حضور نے آج ایک خزانہ ان گنواروں کو ناحق دے دیا۔ صاحب عالم نے ایک آہ کھینچ کر کہا ہمارے پاس خزانہ کہاں سے آیا جو کسی کو دے دیں گے۔ تم نے سنا نہیں وہ بیچارے یہ کہتے ہوئے آئے تھے کہ ہم دلی کے بادشاہ زادے کے درشن کرنے آئے ہیں۔ بادشاہ زادے کو بھی کچھ غیرت کرنی چاہیے تھی یا نہیں؟ وہ خالی خولی جاتے تو کیا جانتے کہ دلی کا بادشاہ زادہ ہے۔