مرزا شاہرخ حضرت ابوظفر بہادر کے اولو العزم فرزند دل بند تھے۔ مولوی امام بخش صہبائی کو ان کی اتالیقی کی خدمت سپرد تھی۔ مرزا شاہرخ میں اپنے بھائیوں اور لال قلعہ کے اور بادشاہ زادوں کے خلاف ایک قسم کی بیداری اور ہشیاری تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہم نے امیر تیمور کے نام کو بٹہ لگایا اور ہماری کاہلی اور بے علمی نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے مگر سورما چنا بھاڑ کو نہیں پھوڑ سکتا۔ وہ کس کس کے جی میں جی ڈالتے اور کسے کسے سمجھاتے اور سوتے سے جگاتے۔ وہ اپنی ہمت مردانہ کو سیر و شکار میں صرف کرتے تھے اور اپنا دل بہلاتے تھے۔
(1)
ان کی قدردانی اور حوصلہ افزائی کو دیکھ کر دور دور سے ہنرمند اور اہل حاجت ان کے حضور میں حاضر ہوتے تھے اور ان سے جو کچھ بن پڑتا تھا ان کے ساتھ سلوک کرتے تھے۔ ایک دن ایک شخص ان کے درِ دولت پر حاضر ہوا اور عرض بیگی سے کہا “صاحب عالم بہادر کو خبر دو ایک سیاح آپ کے لیے عنقا پکڑ کر لایا ہے”۔ صاحب عالم نے عرض بیگی کو اشارہ کیا کہ اس سیاح کو حاضر کرو اور وہ شخص صاحب عالم کے روبرو لایا گیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا پنجرا تھا جس پر ایک ریشمی بسنتی بندھی ہوئی تھی ۔ اس نے آداب کیا اور بسنتی اتاری تو معلوم ہوا چاندی کے تاروں کا ایک چھوٹا سا پنجرا ہے اور اس میں ایک پدڑی ہلدی میں زرد رنگی ہوئی بند ہے۔
مرزا شاہرخ : (اس چڑیا کو دیکھ کر ) واہ واہ سبحان اللہ! نایاب چیز ہے۔ یہ عنقا تمھیں کہاں سے ملا؟
وہی لانے والا : حضور میں اسے کوہ قاف سے لایا ہوں۔
مرزا شاہرخ : تم ٹھیک کہتے ہو۔ یہ تمھارا ہی کام تھا جو اتنی دور گئے اور اسے پکڑ کر لائے ۔ یہ فرما کر صاحب عالم اٹھے اور اپنے دست مبارک میں وہ پنجرا لیا اور محل سرا میں تشریف لے گئے۔ آپ کی دادی شاہ عالم بادشاہ کی والدہ ماجدہ زندہ تھیں، وہ پنجرا ان کے سامنے لے جا کر رکھ دیا اور کہا: دادی حضرت دیکھیے! ہمارے لیے ایک شخص مصیبت پیٹ کر عنقا لایا ہے۔ بیگم نے پنجرا اٹھا کر چڑیا کو غور سے دیکھا اور مسکرا کر فرمایا: نوج یہ عنقا نہیں ہے ، یہ تو موئی دو کوڑی کی پدڑی ہے۔ نگوڑی کو ہلدی میں رنگ لیا ہے ۔ جھوٹے پر خدا کی پھٹکار ۔ ہائے دلی کے شہدے تم بادشاہ زادوں کو کیا کیا جُل دیتے ہیں اور کیسے کیسے سبز باغ دکھاتے ہیں اور اماں تم ایسے مومنا چومنا ہو کہ جو کسی نے کہہ دیا وہ تمھارے لیے آیت حدیث ہوگیا۔ کیا وہ عنقا لانے والا ابھی حاضر ہے یا دفان ہوا؟
صاحب عالم : وہ حاضر ہے ۔
بیگم: اچھا تم باہر جا کر اس کی کان پکڑی کراؤ اور اس سے کہو کہ تم سلاطین کی آنکھوں میں جوتوں سمیت گھسنا چاہتے ہو اور ایسا جھوٹ بولتے ہو جو دہرا جائے نہ اٹھایا جائے۔
صاحب عالم: دادی حضرت! میں نے دیکھتے ہی جان لیا تھا کہ یہ پدڑی ہے مگر وہ بیچارہ تو کسی آس پر ہی اسے عنقا بنا کر لایا ہے۔ خدا جانے اس کے بال بچے کَے دن کے بھوکے پیاسے ہوں گے جو اس نے یہ جال بچھایا ہے۔
بیگم: تو اسے کچھ انعام دینا چاہتے ہو؟
صاحب عالم: بے شک وہ انعام کا ضرور مستحق ہے۔ وہ کیا جانے گا کہ میں صاحب عالم کے پاس عنقا لے کر گیا تھا۔
بیگم: تمھاری خوشی۔ دردانہ (لونڈی کا نام ہے) میرا صندوقچہ تو لے آ۔
دردانہ: جناب عالی! لونڈی ابھی صندوقچہ لائی۔
یہ کہہ کر دردانہ ایک کوٹھری میں گئی اور وہاں سے ایک صندوقچہ اٹھا کر لائی۔ بیگم صاحبہ کی پٹاری میں کنجیوں کا ایک گچھا پڑا ہوا تھا، اسے انھوں نے اٹھا کر ایک کنجی سے صندوقچہ کا قفل کھولا۔ لونڈی نے صندوقچہ کا ڈھکنا اٹھایا۔ صاحب عالم نے دیکھا صندوقچہ میں کوئی خانہ نہیں گویا ایک حوض ہے جس میں منہ تک اشرفیاں بھر رہی ہیں۔
بیگم: لو شاہرخ! رومال میں اشرفیاں لے لو۔ یہ کہہ کر بیگم صاحب نے بھر بھر مٹھیاں مرزا شاہرخ کے رومال میں ڈالنی شروع کیں، یہاں تک کہ رومال اشرفیوں سے بھر گیا۔ مرزا شاہرخ رومال سنبھالتے ہوئے باہر تشریف لانے لگے تو بیگم صاحب نے فرمایا: یہ عنقا بھی انھیں کے حوالے کرو جو لائے ہیں۔ یہاں ہم لوگوں سے اس کی رکھیا ہرگز نہ ہوگی۔
دادی جان کے فرمانے سے صاحب عالم نے دوسرے ہاتھ میں عنقا کا پنجرا بھی لے لیا۔ رومال اور پنجرا دونوں سیاح صاحب کو دے دیے اور فرمایا: یہ انعام ہے اور یہ تمھاری چڑیا ہے۔ ہمارے نوکروں کو اس کا رکھ رکھاؤ نہ آئے گا، تم اسے اپنے ہی پاس رکھو۔ جب ہمارا دیکھنے کو جی چاہا کرے گا تو تمھارے ہاں سے منگا لیا کریں گے۔ عنقا والے عنقا کا پنجرا اور اشرفیاں لے کر بھاگے تو گھر آ کر آرام لیا اور اشرفیاں گنیں تو پوری آٹھ سو نکلیں؛ دلدّر پار ہوگئے۔