پھوپھو نے کل رات اسےعون کے کمرے میں بٹھانے سے پہلے بتایا تھا کہ وہ غصے کا تھوڑا تیز ہے ۔
اور ہوسکتا ہے کہ اچانک شادی کو قبول نہ کر پائے لیکن اسے صبر سے کام لینا ہوگا ۔
اور اس نے عون کے سامنے کہا بھی تھا کی وہ اس کی بیوی ہے اس کا کمرہ چھوڑ کر کہاں جائے لیکن عون نے اس کی ایک بات نہ سنی ۔
لیکن کل رات عون نے اس سے کہا تھا کہ وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے اور کسی اور سے شادی کرے گا ۔
یہ بات اس کے دل کو بہت بری لگی تھی مطلب کہ نا چاہتے ہوئے بھی وہ کسی اور کی جگہ آ گئی تھی ۔یہ کسی اور کی جگہ تھی اس نے اپنے گھر بسانے سے پہلے ہی کسی اور کا گھر خراب کردیا تھا ۔
اس کی شادی تو ویسے بھی بشیر ماموں کے ساتھ ہونے والی تھی لیکن عون کے ساتھ زیادتی ہوئی عون تو کتنا خوبصورت تھا اس کے ساتھ اسی کی جیسی کوئی لڑکی سوٹ کرتی ہے۔ اور اس کی شکل ناقابل قبول ہے یہ بات تامیہ آپی اسے اٹھتے بیٹھتے بتاتی تھی۔ ۔
اگر وہ غلطی سے کبھی اپنے آپ کو خوبصورت کہہ بھی دیتی تامیہ اس کی شکل سے اتنے نقص نکالتی کہ وہ خود ہی پریشان ہو جاتی کہ وہ اتنی بدخوبصورت ہے
اور اسے ملا بھی تو کون اتنا خوبصورت مرد ۔وہ شاید نہیں یقینا اس کے قابل نہیں تھی ۔
اسی لئے تو اس نے اس کی شکل تک نہ دیکھنا چاہی۔
یقینا وہ اپنی طرح کسی خوبصورت لڑکی کو پسند کرتا ہوگا
یہی سب سوچتے ہوئے نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی
اس کا دروازہ مسلسل بج رہا تھا اتنی صبح جب اس کی کوئی نیند برباد کرتا تھا اسے بہت غصہ آتا تھا وہ غصے سے اٹھ اور دروازے کی طرف آیا ۔
آپ صبح صبح یہاں کیوں آئیں ہیں اس نے زبیدہ کو دیکھتے ہوئے کہا جو صبح کے ساڑھے پانچ بجے اس کے سامنے کھڑی تھی۔
عون تم کہتے تھے نہ کہ تم قرض چکانا چاہتے ہو میرا ۔تم میں نے تمہیں جنم دیا اس دنیا میں لائی۔تم قیمت دینا چاہتے ہو نہ میری اس تکلیف کی جو میں نے تمہیں اس دنیا میں لاتے ہوئے سہی تھی ۔
عون کو جب بھی غصہ آتا تو اپنی ماں سے اس طرح سےبات کرتا تھا وہ اکثر کہتا تھا کہ وہ اس کی ممتا کی قیمت دے گا وہ جو اسےاس دنیا میں لائی ہے اس کی قیمت دے گا ۔لیکن یہ الفاظ وہ غصے میں کہتا تھا ۔شاہد اسے تکلیف پہنچانے کے لیے ۔
لیکن اسے اندازہ نہ تھا کہ وہ اس بات کو اس حد تک سیریسلی لے رہی ہے ۔
جی ہاں ۔ میں آپ کا کوئی احسان نہیں رکھنا چاہتا بتائیے کیا قیمت ہے آپ کے احسان کی ۔وہ بھی سیریس ہوکر ان سے پوچھنے لگا ۔
میں چاہتی ہوں کہ تم آرزو کو ایک سال تک اپنی بیوی بنا کر رکھو ۔تم اسے ہمارے بیچ کا ایک کنٹریکٹ سمجھ لو اگر ایک سال تک آرزو تمہیں اپنے قابل نہ لگی تو سے چھوڑ دینا ۔
میں بہت مان سے اسے یہاں لائی ہوں ۔میں جانتی ہوں تم کسی اور لڑکی کو چاہتے ہو اس لیے کسی اور کو اپنا نہ تمہارے لئے بہت مشکل ہے ۔
لیکن میں پھر بھی تمہیں کہتی ہوں کہ صرف ایک سال کے لئے آرزو کو موقع دو ۔ اگر وہ تمہارے دل میں اپنے لیے جگہ نہیں بنا سکی تو بیشک اسے چھوڑ دینا ۔
لیکن آرزو اتنی بے مول نہیں کہ تم کل کی رات جب لڑکی ہزار خواب سجا کر اپنے شوہر کی سج سجاتی ہے اس رات تم اسے کمرے سے باہر نکال دو ۔
میر احسان چکانا چاہتے ہو نہ ۔تو میری آرزو کو اپنا لو
تم یہی سمجھنا کہ میں نے تمہیں جنم دیا ہی نہیں میں تمہاری ماں ہوں ہی نہیں ۔
تو یہ قیمت ہے آپ کی ممتا کی وہ طنزیہ مسکراہٹ سے بولا
مجھے منظور ہے لیکن جب تک وہ 18 سال کی نہیں ہو جاتی وہ میرے کمرے میں نہیں رہے گی
عون نے اس کا احسان چکانے کیلئے اگلے ہی سیکنڈ میں فیصلہ کرلیا ۔ اگر اسے عون کی پروا نہیں تھی تو وہ اس کی کیوں پرواہ کرتا اگر وہ ایک عام سی لڑکی کے لئے اپنی ممتا کی قیمت لگا سکتی تھی تو وہ کیوں پیچھے ہٹتا وہ تو ویسے بھی اس کا احسان چکانا چاہتا تھا ۔
نہیں وہ لڑکی تمہارے ساتھ تمہارے کمرے میں ہی رہے گی ۔وہ تمہارے نکاح میں ہے اور تمہارے ساتھ ہی رہے گی ۔تمہارے ایک سال کا وقت آج رات سے شروع ہوگا ۔
اگر چکا سکتے ہو میری ممتاکی قیمت تو چکا دو نہ چاہتے ہوئے بھی زبیدہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔
لیکن سامنے والے کو اس کے آنسو کی پرواہ تھی اور نہ ہی اس کے جذبات کی
سبھی گھر والے آرزو سے بہت محبت سے پیش آرہے تھے ۔
خاص کرکہ خالد اور خالق نے اسے بہت اہمیت دی تھی ۔وہ تو اسے اپنی بیٹی کہہ رہے تھے ۔
سمیر اور حارث جو شروع سے ہی اس کے فیورٹ کزن تھے اب تو وہ کھل کر ان سے بات کر سکتی تھی ۔
اب اسے یہ ڈر نہیں تھا کے تائی امی اسے کس نگاہ سے دیکھ رہی ہیں ۔
جبکہ آج آرزو کے اس گھر میں آنے کی خوشی میں سمیر اور حارث نے کام سے چھٹی کر لی ۔
ہانیہ سے بھی اس کی اچھی خاصی دوستی ہو چکی تھی ۔ہانیہ اور سمیر کی شادی کو ابھی بمشکل دو ماہ ہوئے تھے ۔
جس کی وجہ سے زیادہ تر ینگ پارٹی سمیر اور ہانیہ پر نظر رکھے ہوئے تھی ۔
ان دونوں کی درگت بنانے میں وہ سب ہمیشہ پیش پیش رہتے ۔
جس پر ہانیہ شرمائی شرمائی کبھی ادھر گھومتی تو کبھی ادھر ۔
جبکہ سمیر بے شرموں کے ساری حدیں پار کیے ہوئے تھا ۔ اس کا کہنا تھا ہانیہ اسکی پرسنل پروپرٹی ہے وہ جب چاہے اسے دیکھے ۔
اس گھر میں سب کا اپنا ہی انداز تھا لیکن نہ جانے عون کس پر گیا تھا ۔وہ تو اس گھر کا لگتا ہی نہیں تھا ۔
یہاں سب پیار محبت سے مل جل کر رہنے والے اور ایک وہ جو سب سے الگ اپنی دنیا میں مگن تھا ۔
ہر کوئی اپنی طرف سے صفائیاں پیش کر رہا تھا کہ عون فلحال اس شادی کو قبول نہیں کر پا رہا
جبکہ آرزو کو تو جیسے عون سے کوئی مطلب ہی نہ تھا وہ تو یہاں آکر آزاد ہوگئی تھی ۔جہاں چاہے جس جگہ چاہے بیٹھے اٹھے کوئی روک ٹوک نہ تھی پھو پھو تو اسے کام کو ہاتھ تک نہیں لگانے دیں رہی تھی ۔
جبکہ گھر میں اس کی چار چار جیٹھانیاں تھی۔
جو اسے ڈرانے کی ناکام کوشش کر چکی تھی ۔
عروسہ نے کہا تھا بیٹا تمہاری شادی ذرا پرانی ہو جائے پھر دیکھنا کیسے تم سے پورے گھر کا پوچا لگاتی ہوں ۔اور سب سے بڑی جیٹھانی ہونے کا فرض نبھاتی ہوں
لیکن آرزو کو ان کی شکل سے ہی پتہ چل چکا تھا کہ وہ صرف اس سے ڈرا رہی ہیں جبکہ یہ سب تو بہت پیار کرنے والی تھی ۔
اس گھر میں صرف عون ہی تھا جسے نہ اس کی پرواہ تھی اور نہ ہی گھر میں کسی اور کی ۔اب تک تو اسے بھی عون کی پروا نہ تھی ۔لیکن اب پھوپھو نے آکر اسے بتایا تھا کہ وہ آج رات عون کے کمرے میں سوئے گی۔
ابھی کل کی بےعزتی وہ بھولی کہاں تھی ۔کہ پھوپھو نے اسے ایک کو امتحان میں ڈال دیا ۔
وہ رات بہت دیر سے گھر آیا تھا اس کے دماغ میں ایک جنگ چھڑی ہوئی تھی ۔
وہ بہت کوشش کے باوجود بھی اس نمبر پر فون نہیں کر سکا تھا جو عمر نے اسے دے کر گیا تھا ۔
وہ ہمیشہ سے سوچتا آیا تھا کہ وہ جس لڑکی سے شادی کرے گا اس کے ساتھ وفادار رہے گا ۔
اور یہی وہ سوچ تھی جو اس کے آڑے آرہی تھی وہ چاہ کر بھی تامیہ کو فون نہیں کر پایا تھا ۔
وہ کمرے میں آیا تو اسے احساس ہوا کہ اس کے علاوہ کمرے میں کوئی اور بھی ہے ۔اسے واش روم سے آواز آئی ۔
یعنی کہ یہ لڑکی اس کے کمرے میں آ چکی تھی لیکن وہ اسے اہمیت نہیں دینا چاہتا تھا ۔
وہ جانتا تھا اس رشتے کے لیے جتنی اس کے ساتھ زبردستی کی گئی ہے اور جتنا وہ اس شادی سے ناخوش ہے اتنی ہی وہ بھی اس رشتے کو قبول نہیں کر پائے گی ۔
اور ویسے بھی اس کی عمر ہی کیا تھی جو خوشی خوشی اس کمرے میں آتی وہ توشایداس رشتے کا مطلب بھی نہیں سمجھتی تھی جو ان دونوں کے بیچ میں جڑ چکا تھا ۔
لیکن پھر بھی عون اپنے دل کو ذرا سخت کرتے ہوئے کمرے کی لائٹ آف کر کے بیڈ پر لیٹ گیا ۔وہ چاہتا تھا کہ وہ اس سے بات کرلے لیکن فی الحال نہیں ہوسکتا ہے آج بات کرنے کا وہ کچھ اور ہی مطلب نہ نکالے ۔
اور وہ ویسے بھی اس چھوٹی سی لڑکی کے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں ڈالنا چاہتا تھا جس اسے اس کی آگے کی زندگی خراب ہو ۔
وہ جیسے ہی واش روم سے باہر نکلی کمرہ روشنی میں نہا گیا ۔عون نے اس کے سائیڈ سے کروٹ میں رکھی تھی ۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی بیڈ کی طرف آرہی تھی جب عون نے اپنے قریب سے تکیہ اٹھا کر زمین پر پھینکا ۔
جہاں جگہ ملتی ہے وہاں جا کر سو جاؤ اس بیڈ پر تمہارے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔
عون کہتا ہوئے کمبل اپنے اوپر تان چکا تھا ۔
وہ کتنی ہی دیر اسے ایسے ہی لیٹا ہوا دیکھتی رہی پھر پورے کمرے میں نظر آئی جہاں اسے سونے کے لئے کچھ بھی نہ ملا
پھر جہاں عون نے تکیا پھینکا تھا وہی قالین پر بیٹھ گئی ۔
قالین اچھا خاصہ موٹا تھا ۔وہ آسانی سے یہاں سو سکتی تھی ۔مطلب کے آپ سونے کے لئے اس اکڑو کی منتیں کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔
وہ تکیہ ٹھیک کرتی آرام سے وہاں لیٹ گئی ۔
جبکہ اس کی چوڑی اور پائل کی چھن چھن نے ساری رات عون کو ایک سیکنڈ بھی سونے نہ دیا ۔
دو تین بار تو ان کا دل چاہا اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر نکال آئے ۔
تھوڑی دیر کے بعد اسے کمرے میں جب تھوڑی روشنی محسوس ہوئی تو واش روم کے دروازے کی طرف دیکھا اسے ایک بار پھر سے اٹھنا پڑا کیونکہ کمرے میں روشنی اس کی برداشت سے باہر تھی اس کے وجہ سی وہ سو نہیں سکتا تھا
اپنے آپ کو تکیہ کے حوالے کئے نہ جانے کتنی دیر وہ ناکام کوشش کرتا رہا ۔
پھر صبح کی اذانوں کے قریب آرزو اپنے شاہی بستر سے اٹھ کر باہر نکل گئی ۔
پھر جاکے بیچارے عون کی کہیں آ نکھ لگی ۔
اور اس طرح سے آرزو نے بنا اس سے کچھ کہیں اپنا بدلہ لے لیا ۔اوراس بدلے سے وہ خود بھی انجان تھی
صبح آرزو باہر آئی تو پھوپھو وضو کر رہی تھی وہ بھی ان کے ساتھ آکر وضو کرنے لگی۔
رات کیسی گزری بیٹا پھوہھوکا پہلا سوال یہی تھا ۔
عون نے غصہ تو نہیں کیا پھر سے تمہیں ڈانٹا تمہیں کچھ الٹا سیدھا تو نہیں کہا پھوپھو نے اپنا ڈر بیان کیا ۔
نہیں بس تکیہ اٹھا کر زمین پر پھینک دیا اور بولے کہ تمہیں جہاں جگہ ملتی ہے جا کر سو جاؤ ۔
اور پھر مجھے کالین اتنا اچھا لگا کہ میں اسی پر سوگئی اور یقین مانے بہت مزا آیا ایک دم کھلی جگہ تھی ۔نہ گرنے کا ڈر اور نہ ہی بستر ختم ہونے کا ڈر ۔وہ بڑے مزے سے بتاتی وضو کر رہی تھی جب کہ پھوپھو کو ایسا لگا جیسے ان کے سر پر کسی نے بم پھوڑا ہو ۔
لیکن اب وہ عون کو یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ وہ اسے اپنے ساتھ بیڈ پر سلائے۔
بیٹا یہ بات تم گھر میں کسی کو مت بتانا ۔
کیوں پھوپھو کیا سب آپ سے ویسا والا قالین مانگیں گے جو عون جی کے کمرے میں ہے ۔
آرزو نے اپنے دماغ کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے پوچھا
نہیں پر تم کسی سے کچھ مت کہنا ۔اگر کوئی بھی تم سے اس بارے میں کچھ پوچھے تو کسی کو کوئی جواب نہ دینا ۔ٹھیک ہے پھوپھو نے اس کی نا سمجھی پر مسکراتے ہوئے سمجھایا ۔
ورنہ کل تک تو وہ عون کو بھی اپنا بھائی سمجھ رہی تھی ۔
جس پر سب نے اسے سمجھایا نکاح ہونے کے بعد وہ اس کا بھائی نہیں بلکہ اس کا شوہر ہے اور بھائی کہنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے ۔
اور اس کے بعد آرزو کو یہ پریشانی ہونے لگی کہ وہ تو اس سے اتنا برا ہے وہ اسے کیا کہہ کر پکارے گی نام تو اس کا لے نہیں سکتی
عون نجانے کب اپنے بیڈ روم سے نکلا اور گھر سے بھی نکل گیا ۔
وہ کب آتا تھا کب جاتا تھا آرزو کو کچھ پتہ بھی نہیں چلتا ۔
وہ تو سب کے ساتھ مگن تھی اسے بہن بھائی مل گئے جٹھانی ماں باپ اسے تو اب کسی چیز کی کمی نہ رہی تھی ۔
اور جہاں تک عون کا سوال ہے تو اسے عون کی ضرورت بھی نہ تھی ۔
لیکن اس گھرمیں وہ اسی کے نام پر آئی تھی ۔پہلے گھر میں سب ہانیہ کو چھیڑتے تھے آج اس کی باری تھی ۔
لیکن ان سب کی باتوں میں وہ بھی ان کے ساتھ قہقہے کر ہنسنے لگی۔جس پر سب ہی اسے اپنے اپنے منہ کھول کر دیکھنے لگیں ۔
لیکن پھر پھوپھو نے ان سب کو ڈانٹ کر منع بھی کر دیا
حارث آرزو کو اپنے ساتھ داخلہ بھیجنے کے لیے فوٹو بنوانے لایا تھا ۔
نکاح کے بعد تو وہ بھول ہی چکی تھی کہ اسے آگے پڑھنے کا موقع ملے گا ۔
لیکن جب باتوں ہی باتوں میں اس نے ذکر کیا کہ منڈے کو اس کی آخری ڈیٹ ہے تو حارث فورا کھڑا ہوگیا ۔
اور یہ بھی کہا کہ وہ کالج جایا کرے ۔اس کا دوسرا کالج یہاں سے بہت دور تھا ۔
اسی لئے حارث نے مائیگریشن کا مشورہ دیا تھا ۔
وہ چاہتا تھا کہ وہ مہرش والے کالج میں ایڈمیشن لے ۔
لیکن مہرش کالج کے قریب ہونے کے باوجود وہ ہوسٹل میں رہتی تھی ۔
اس کا کہنا تھا کہ وہ گھر میں ٹھیک سے نہیں پڑھ پارہی اور وہاں ہوسٹل میں اس کی فرینڈز بھی ہیں جن کے ساتھ وہ پڑھائی میں زیادہ اچھے سے دھیان دے سکتی ہے ۔
جبکہ پڑھائی میں اس کے بہت اچھا ہونے کی وجہ سے گھر میں کسی کو اس بات پر اعتراض بھی نہ تھا ۔
اور پھر اگلے مہینے میں زریش کی شادی تھی ۔
جس کی وجہ سے گھر میں کافی ہلہ گُلا تھا ۔
وہ چار پانچ دنوں سے رات گھر نہیں آرہا تھا رات تو رات وہ تو دن میں بھی کبھی گھر کا چکر نہ لگایا تھا ۔
آرزو کافی حد تک بے فکر تھی لیکن اس کے باوجود بھی وہ اس کے بیڈ پر نہیں سوتی تھی وہ روزانہ زمین پر ہی سوتی تھی ۔
پھوپھو کے کہنے کے عین مطابق اس نے کسی کو اس بات کا ذکر نہ کیا
لیکن عون کا جانا اور پھر واپس نہ آنا ہے اس بات کو ظاہر کر دیا تھا کہ ان دونوں میں سب کچھ ٹھیک نہیں ۔
عون اس وقت نائٹ ڈیوٹی سڑک پے گاڑیاں چیک کروا رہا تھا ۔
وہ آنے جانے والی ہر گاڑی پر نظر رکھے ہوئے گاڑی کی مکمل چیکنگ کر رہا تھا ۔
پچھلے چار پانچ دنوں سے اس کی یہی روٹین تھی ۔
وہ دن رات ڈیوٹی پہ تھا ۔
عون تھک جاتا تو عمر آ جاتا عمر تھک جاتا تو عون اس کی جگہ سنبھال لیتا اور اس چیکنگ کی وجہ یہ تھی کہ بہت بڑے آدمی کی بیٹی اپنے گھر سے بھاگ گئی تھی ۔
اسے نفرت تھی ایسی لڑکیوں سے جو خود تو اس طرح سے گھر سے بھاگ کر اپنی عزت کو دو کوڑی کا کرتی تھی اور اپنے پیچھے اپنے گھر والوں کو اذیت میں چھوڑ جاتی ۔
اگر یہ لڑکی میری بہن بیٹی ہوتی نہ تو قسم سے گولی مار دیتا ۔
نہ کہ اس طرح پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہا ہوتا ۔اور اس کے باپ نے کیا ارشاد فرمایا سنا ہے تو نے ۔میری بیٹی نادان ہے ۔وہ تو یہ سب کچھ سمجھتی ہی نہیں ۔
عون اور عمر اپنی بھڑاس ایک دوسرے کو سنا رہے تھے
یار چار دن سے ٹھیک سے نیند بھی پوری نہیں ہوئی ۔
مصباح بھی ناراض ہے ۔اس سے کچھ دن پہلے وعدہ کیا تھا کہ چار پانچ دن کی چھٹی لے کر اسے گھمانے لے کے جاؤں گا ۔
اور یہاں چار پانچ دن سے اٹکا ہوا ہوں
یار یہ والا مسئلہ نہیں ہوتا تو میں تیری چھٹیوں کا کچھ بندوبست کر دیتا ۔عون نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔
کوئی بات نہیں یار مجھے تو تیری ٹینشن ہو رہی ہے ابھی تیری شادی کودن ہی کتنے ہوئے ہیں کہ یہاں سڑک پر بٹھا دیا ۔
بھابھی کے بھی کچھ ارمان ہوں گے ۔کیا سوچتی ہوں گی بچاری ۔
بس بس میری فلم کی دوکان کوئی ارمان نہیں ہیں تیری بھابھی کے ۔
اور تیری اس بھابھی کو میں تیری بھابھی رہنے بھی نہیں دوں گا بس کچھ وقت کی تو بات ہے ۔پھر اسے چھوڑ دوں گا ۔
عون نے اپنا پلان بتایا ۔
مطلب عون تو اپنی ماں کی شرط کو لے کر سیریز نہیں ہے ۔
بالکل بھی نہیں ایک لڑکی کے لیے میری ماں مجھ سے یہ کہتی ہے ۔اسے اپنا لو گے تو میرا احسان چکا لو گے
عمر کیا ایک ماں ایسے الفاظ کہہ سکتی ہے ۔وہ بھی اس لڑکی کے لئے جسے اس گھر میں ایک دن نہیں ہوا تھا
میں مانتا ہوں جو کچھ بھی ہوا اس میں اس لڑکی کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن پھر بھی اس کی وجہ سے میری ماں مجھ سے اس طرح سے بات کر رہی ہے ۔
ٹھیک ہے میں نے غصے میں کہہ دیا تھا ۔کہ میں آپ کا یہ احسان بھی نہیں رکھنا چاہتا مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ میری ماں مجھے جنم دینے کی قیمت مانگے ۔
وہ عورت واقعی ماں کہلانے کے قابل نہیں ہے ۔۔عون نے کہا تو عمر نفی میں گردن ہلا کر ایک سائیڈ ہوگیا وہ چاہ کر بھی اسے کچھ نہیں سمجھا سکتا تھا ۔
عاصم یہاں پر پولیس کیوں ہے۔تامیہ نے پریشانی سے کہا
۔ساری گاڑیوں کی چیکنگ ہو رہی ہے تم فکر مت کرو بےبی میں سنبھال لوں گا ایسے پولیس والوں کو سنبھالنا مجھے آتا ہے ۔
اسی لئے تو تمہیں دل دیا ہے بے بی مجھے پتا ہے تم ایسی سچویشن سے نہیں گھبراتے تامیہ نثار ہونے والے انداز میں بولی۔
بے بی آج ڈنر کے بعد میرے فلیٹ میں چلو نا ۔کل وعدہ تمہیں شاپنگ کراؤں گا۔
ہاہاہا کل شاپنگ پر چلوں گی بےبی لیکن آج فلیٹ میں نہیں چل سکتی ۔تمہیں تو پتا ہے میری ماں مجھ پر نظر رکھے رہتی ہیں ۔
کہاں سے آئی ہو کہاں گئی تھی اور پتہ نہیں کیا کیا ۔سوری بےبی فلیٹ میں جانے کاپلان ہم اورکسی دن بنائیں گے ۔
تم مائنڈ تو نہیں کرو گے نہ تامیہ نے ہوشیاری سے اسے اپنے جانسے میں پھنساتے ہوئے کہا ۔
افکورس ناٹ بےبی جب تم ایزی رہو ۔لڑکے نے اپنے ارمانوں پر پانی پھیرتے ہوئے کہا ۔
کوئی بات نہیں بے بی ہم تو ویسے بھی کل شاپنگ بھی مل ہی رہے ہیں نہ تامیہ نے پھر سے بات کا آغاز کیا ۔
ٹک ٹک ٹک۔ عون نے گاڑی کی کھڑکی پر اپنا ڈنڈا بجاتے ہوئے دستک دی ۔
ہاں بھئی کون ہے تو لڑکی کو کہاں لے کے جا رہا ہے عون نے اپنے مخصوص انداز میں کہا
جب کہ عون کو دیکھ کر تامیہ کے رونگٹے کھڑے ہو چکے تھے ۔
شاید نہیں یقینا عون نے اسے نہیں پہچانا تھا ۔وہ ان کے گھر پہ کبھی آیا نہیں تھا اور نکاح والے دن تو اس نے نظر اٹھا کر کسی کی طرف دیکھا تک نہ تھا
جی سر دوست ہے اسے گھر ڈراپ کرنے جا رہا ہوں ۔
تو اپنی دوست کو رات کے ساڑھے دس بجے گھر ڈراپ کرنے جارہا ہے یہ کونسا وقت ہے ابے دوستوں سے ملنے کا ۔چل نکل باہر ۔او دوست میڈم تم بھی نکلو باہر ۔یہ دوستی کے نام پر کیا کر رہے ہو تم لوگ سب سمجھ میں آتا ہے ۔
سر جانے دینا شریف لڑکی ہے بیکار میں بد نام ہو جائے گی لڑکے نے اس کے ہاتھ میں نوٹ تھماتے ہوئے کہا ۔
اگر اتنی ہی شریف ہوتی تو آدھی رات کو سڑکوں پے نہ ملتی
بہت دیکھیں ہیں ایسی شریف زادیاں میڈم باہر نکلو ۔عون نے نوٹ اس کے منہ پر مارتے ہوئے کہا
سر پلیز جانے دیجئے نہ اس لڑکی کا گھر پہنچنا بہت ضروری ہے ۔
سر جیسا آپ سمجھ رہے ہیں ویسا کچھ نہیں ہے اس لڑکے نے لڑکی کی طرف اشارہ کیا جو اپنا منہ چھپائے کھڑی تھی
سن ڈی سی پی آرہا ہے ۔عمر نے پیچھے سے آتے آدمی کی طرف اشارہ کیا تو عون نے ان دونوں کو بھی جانے کا اشارہ کردیا ۔
آفیسرز کچھ پتہ چلا ۔
ہم آتی جاتی ہر گاڑی بھی نظر رکھے ہوئے ہیں ۔
میرا نہیں خیال کہ لڑکی اس طرف آئے گی ۔یا تو وہ ہم سب کو چکمہ دے کر بہت آگے نکل چکی ہے ۔یا شاید چھپ کے بیٹھ چکی ہے اسے اپنے باپ کی پہنچ کا اندازہ ہے ۔
اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ وہ اس پہ سڑک پر نکلنے کی غلطی کریں گے ۔
ہمارا اس طرح آتے جاتے لوگوں کو پریشان کرنا بے فضول ہے اس طرح لوگوں کی روزمرہ کی زندگی ڈسٹرب ہو رہی ہے عو ن نے پروفیشنل انداز میں کہا تو ڈی سی پی نے سر ہلایا
ٹھیک ہے تم لوگ کافی دنوں سے اس کام میں بیزی ہو میرے خیال میں آج تم لوگوں کو ریسٹ کرنا چاہیے تم لوگوں کی جگہ کسی دوسرے آفیسر کو اپویڈ کر دوں ۔
ڈی سی پی نے کہا تو عو ن نے عمر کو دیکھ کر آنکھ ماری ۔
مطلب آخرکار جان چھوٹ چکی تھی
آج پانچ دن بعد وہ گھر واپس آیا ۔اسے یقین تھا اس کی غیرموجودگی میں ضرور وہ اس کا بیڈ استعمال کرتی ہوگی
پہلے تو وہ اسے لات مار کے نیچے پھینکنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔
لیکن کمرے میں آنے کے بعد اسے تھوڑی سی روشنی میں کچھ فاصلے پر زمین پر وجود لیٹا ہوا محسوس ہوا ۔
فرمابردار ٹائپ بیوی ہے ۔
عون بڑبڑآتے ہوئے واش روم میں گھس گیا ۔
تھوڑی دیر میں چینج کرکے وہ واپس آ کر اپنے بیڈ پر لیٹا لیکن اسے احساس ہوا جیسے وہ جاگ رہی ہے ۔
جب کہ بار بار ہے ہاتھ پاؤں ہلنے کی وجہ سے کبھی چھن چھن تو کبھی چھم چھم کی آواز آتی ۔
سنو لڑکی یا اپنا بینڈ باجا اتار کے سویا کرو ۔تمہاری وجہ سے ساری رات مجھے نیند نہیں آتی ۔وہ سخت آواز میں بولا تھا
کچھ دیر تک کمرے میں کوئی آواز نہ آئی تو عون بھی پرسکون ہو کر لیٹ گیا پھر اچانک سے چھم چھم اور چھن چھن کی اکٹھی آواز سنائی دی ۔
یقینا وہ سب کچھ اتار رہی تھی ۔
اگر میرے کمرے میں رہنا ہے تو اس بینڈ باجے سے پرہیز کرو آئندہ میرے کانوں میں یہ آواز نہیں پڑنی چاہیے اور سختی سے کہتا کروٹ بدل گیا۔