امی زرا باہر تو دیکھیں پھو پھو کا بیٹا کتنا پیارا ہے ۔تامیہ نے ابھی جا کر دروازے سے باہر دیکھا تھا ۔
جہاں وہ اپنی بڑی سی گاڑی لئے کھڑا اٹھا ۔
تامیہ جوہرخوبصورت مرد دیکھ کر اس کے پیچھے پڑ جاتی
تھی یہاں تو اس کی اپنی سگی پھو پھو کا بیٹا تھا ۔
ارے چپ کر سمیر ہو گا ابھی شادی ہوئی ہے اس کی ۔آمی نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔
ارے سمیر نہیں ہے یہ کوئی اور ہی دیکھیں تو سہی یہ پھو پھو کا پولیس والا بیٹاہے۔ تامیہ نے باہر کی طرف اشارہ کیا ۔
ارے زبیدہ عون کو لائی تھی تو اندر بھی لےآتی باہر کیوں کھڑا کردیا رضیہ جانتی تھی کہ عون اسے منہ نہیں لگاتا ۔رضیہ نے ابھی باہر کھڑے عون کو دیکھا جو نہ صرف اس کی سوچ سے زیادہ خوبصورت تھا ۔
بلکہ انہوں نے تو تامیہ کے لیے ایسے پسند بھی کر لیا تھا
ہم تو جب بھی تمہارے گھر آتے ہیں یہ تو ملتا ہی نہیں ہم سے ۔
نہیں بھابھی میں زیادہ دیر نہیں رکوں گی وہ بھی اندر نہیں آئے گا۔بس نکاح کی رسم شروع ہوجائے تو میں واپس چلی جاؤں گی زبیدہ نے کہا
ہاں بس بشیر آ جائے ہم سادگی سے نکاح کریں گے ۔رضیہ کہتے ہوئے بیٹھی
لیکن بھابھی پہلے لڑکے سے تو ملیں کس کے ساتھ نکاح کر رہے ہیں آرزو کا ۔ابھی آرزو اسے چائے دے کے گئی تھی اس کے چہرے پر زبیدہ کو کوئی خوشی نظر نہ آئی تھی ۔
ارے جانا پہچانا ہے اعتبار کا لڑکا ہے میں اپنے بھائی بشیر کا رشتہ لائی ہوں رضیہ نے برے اسٹائل سے اس کے سر پر دھماکا کیا۔
آپ کا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا ۔عمر دیکھیں اس کی ۔24 گھنٹے تو نشے میں رہتا ہے وہ جوا کھیلتا ہے ۔ آپ نے ہماری آرزو کو اس کے ساتھ آپ نے ایسا سوچا بھی کیسے بھابی میں یہ نہیں ہونے دوں گی
میں ابھی آرزو کو یہاں سے لے کے جا رہی ہوں۔ زبیدہ تو برک ہی اٹھی وہ اپنے لاڈلے بھائی کی آخری نشانی کو اس طرح سےبرباد تو نہیں ہونے دے گی ۔
اے بی بی آواز کم رکھ تو میرے گھر پہ کھڑی ہے تو شکر کرکے میں نے اپنے بھائی کے لئے تیری بھتیجی کا رشتہ مانگ لیا ورنا اسے کون پوچھتا تھا رضیہ نے دھاڑتے ہوئے کہا ۔
کیوں نہیں ایک سے بڑھ کر ایک رشتہ ملے گا ۔میں خود اپنی بھتیجی کی شادی کرلوں گی۔ لیکن آپ کے نشائی اور جوارئی بھائی سے میری بچی کی شادی نہیں ہوگی ۔میں آرزو کو اپنے ساتھ لے جاؤں گی ۔
ایسے کیسء اپنے ساتھ لے کے جاؤ گی یہ اس گھر سے تب نکلے گی جب اس کا نکاح ہوگا ۔تمہارے گھر میں جوان بیٹے ہیں ۔اس گھر میں بیج کر میں نے اپنی بدنامی تھوڑی نہ کروانی ہے ۔اور اب تومیں وعدہ کر چکی ہوں اپنے بھائی سے رشتہ ہو چکا ہے ویسے بھی اتنے سال کھلایا پلایا ہے ۔
اور اب اچھے طریقے سے شادی بھی کر رہے ہیں اس وقت تو کسی نے ہاتھ نہ رکھا کہیں یتیم بھتیجی پر آگئے ہیں بڑے بن کے ۔رضیہ نے پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا
بھائی آپ کی نظروں کے سامنے اتنا بڑا ظلم ہو رہا ہے آپ کچھ بولتے کیوں نہیں وہ اب عثمان کی طرف آئی تھی ۔
ارزو اس رشتے کے لئے تیار ہے ۔عثمان صاحب نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا ۔
لیکن میں تیار نہیں ہوں میں نہیں ہونے دوں گی اپنی بھتیجی کے ساتھ اتنی بڑی زیادتی ۔زبیدہ نے ایک نظر ان کے جھکے ہوئے سر کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
اتنی بڑی زیادتی ہوئی ہے تو بیٹا تو تم بھی اپنا ساتھ لائی ہو پڑاونکاح اسی کے ساتھ اور لے جاؤ ساتھ
۔نہیں اب زبان سے ایک لفظ نہیں نکلے گا ارے کیسے نکلے گا میں تو سمجھتی ہی نہیں جیسے آرزو کو نوکرانی بنا کر اپنے ساتھ لے کے جا رہی ہے یہ۔
ابھی میرا بھائی آئے گا اور نکاح ہوگا خبردار جو کسی نے ایک لفظ بھی کہا ۔
اور اگر تمہیں اتنی ہی آگ لگ رہی ہے تو اپنے بیٹے سے نکاح پڑاو اور لے جائو ساتھ وہ جانتی تھی عون تو اسے منہ لگائے گا نہیں ۔وہ آسانی سے اس کا نکاح بشیر کے ساتھ کروا دے گی ۔
جس کے بعد آرزو کا اس گھر میں تھوڑا بہت حصہ ہے وہ بھی انہیں کارہیں رہے گا ۔
کیونکہ بشیر جو 24 گھنٹے نشے میں رہتا ۔اور عثمان کا کہنا تھا کہ آرزو کے حصے میں جو تھوڑی بہت زمین آتی ہے وہ اس کے جہیز میں دیں گے ۔
اس کے بعد ہی رضیہ نے بشیر کو آرزو کے خواب دکھانا شروع کر دیا ۔
میں بے بس ہوں کچھ نہیں کر سکتا ۔عثمان نے نظریں نیچی رکھتے ہوئے کہا ۔
لیکن میں بے بس نہیں میرا عون آرزو سے نکاح کرے گا ۔میں اس سے بات کرتی ہوں ۔زبیدہ نے اٹھ کر باہر جاتے ہوئے کہا ۔
ابھی یہی منہ لےکر واپس آئے گی بیٹا منہ لگاتا ہے نہیں اسے اور یہ چلی ہے اس کا نکاح کروانے ۔عون کا نکاح تو میری تامیہ کے ساتھ ہوگا ۔
رضیہ نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اسے یقین تھا کہ عون اس شادی کے لیے کبھی تیار نہیں ہوگا
وہ جلدی سے ان کے گھر سے نکل کر عون کی گاڑی کی طرف آئیں
ہوگیانکاح چلے واپس عون نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا
عون بیٹا وہ آرزؤکے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں وہ اس کا نکاح اس سے بڑی عمر کے آدمی سے کروا رہے ہیں ۔
بہت ظلم ہورہاہے میری معصوم بھتیجی کے ساتھ ۔
پلیز میری مدد کرو میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔
زبیدہ جانتی تھی کہ عون کبھی اس طرح سے راضی نہیں ہوگا ۔
لیکن وہ اپنی معصوم بھتیجی کے ساتھ اتنا بڑا ظلم بھی ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی ۔
مجھ سے کیا امید رکھتی ہیں آپ عون نے پوچھا ۔
عون میں اسے یہاں سے لے کے جانا چاہتی ہوں لیکن بھابھی کہتی ہیں جب تک اس کا نکاح نہیں ہوگا وہ اسے یہاں سے نہیں جانے دیں گی ۔
تم تو جانتے ہو وہ کیسی عورت ہے وہ پورے خاندان میں ہمیں بد نام کر دے گی ۔
لیکن اگر تم اس کے ساتھ نکاح کر لو
دماغ تو نہیں خراب ہوگیا میں کیوں کسی سےبھی نکاح کرلوں ہو گی آپ کی معصوم بھتیجی میری کچھ نہیں لگتی وہ کیسے کسی سے نکاح کر لے وہ تو اسی سے نکاح کرے گا جس سے وہ محبت کرتا ہے ۔
بیٹا میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو آرزو کے ساتھ بہت ظلم ہورہاہے میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔
آپ چاہے کچھ بھی کرے میں یہ نکاح نہیں کروں گا ۔میرا نا اس لڑکی سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اس پر ہونے والے ظلم سے پتہ نہیں میں یہاں آیا ہی کیوں ۔
میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں میں اس طرح سے کسی سے شادی نہیں کرسکتا ۔عون نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا
بیٹا خدا کے لئے میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو اگر تم نے یہ نکاح نہ کیا تو ۔میں جانتی ہوں تم کسی اور کو پسند کرتے ہو
ایک منٹ ایک منٹ اگر میں نے نہ کیا تو کیا مطلب ہے اس بات کا ۔اور آپ یہ بھی جانتی ہیں کہ میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں
اگر میری جگہ یہاں سمیر ہوتا تو کیا آپ اس کا بھی کسی کے ساتھ اس طرح سے نکاح کر دیتی ۔ایک بار آپ کو سمیر کی بیوی کا خیال نہیں آتا ۔آتا نہ آپ کو اس کا خیال اسی طرح سے میری محبت کا خیال کریں میں اس لڑکی سے شادی کروں گا جسے میں پسند کرتا ہوں ۔
عون نے غصے سے کہا ۔
بیٹا تم اسی لڑکی سے شادی کر لینا لیکن فی الحال وقتی طور پر تم آرزو کو اپنا لو اس کی شادی بشیرسے کروا دیں گے جو چوبیس گھنٹے نشے میں رہتا ہے جوا کھیلتا ہے نہ اپنا کوئی ٹھکانہ ہے کہاں لے کے جائے گا وہ میری معصوم آرزو کو ۔
بیٹا میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں میں تمہارے پیر پکرتی ہوں یہ لو میرے سر کی چادر کا تھوڑا لحاظ کر لو ۔زبیدہ نے ہار مانتے ہوئے اپنے سر سے دوپٹہ اتار کر اس کے قدموں میں رکھنا چاہا ۔
دماغ خراب ہوگیا ہے آپ کا کیا ۔ کیا کر رہی ہیں آپ ۔۔عون نے جلدی سے اس کی چادر کو تھاما۔
زبیدہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
ٹھیک ہے لیکن اس لڑکی سے میرا کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔یہ سب کچھ ختم ہوتے ہی میں اسے طلاق دے دوں گا اور میری جان چھوٹ جائے گی ۔
میں اس کی شکل بھی نہیں دیکھوں گا میں نہیں چاہتا کہ میں اپنی محبت کے ساتھ کسی قسم کی کوئی بےوفائی کروں ۔
عون نے شرط رکھی ۔
مجھے منظور ہے بیٹا بس تم یہ نکاح کرلو ۔
زبیدہ کی جیسی جان میں جان آئی
نکاح کی رسم ادا ہوچکی تھی آرزو اب تک یقین نہ کر پائی تھی
کہ اس کا نکاح ماموں سے نہیں بلکہ کسی اور سے ہوا ہے اس نے تو آج تک عون کو نہ دیکھا تھا اور نہ ہی کبھی عون ان کے گھر آیا تھا اورنہ ہی تائی امی اسے کہیں جانے دیتی تھی
آرزو کو یہ سب کچھ ایک خواب جیسا لگ رہا تھا کیا حقیقی دنیا میں بھی اس طرح کے مجزے ہوا کرتے ہیں ۔
اس کی پھوپھو اس کے لیے کسی فرشتے سے کم نہ ثابت ہوئی تھی
اور آرزو اب مسز عون بن گئی آرزو نے بس ایک نظر ہی عون کو دیکھا تھا
اسے ابھی تک اپنی قسمت پر یقین نہ آیا تھا تھوڑی دیر پہلے اس کا نکاح ہوا تھا۔
اوراس کا نکاح بشیر ماموں سے نہیں بلکہ پھوپھو کے بیٹے سے ہوا تھا ۔
کیا اب بھی معجزےہوتے ہیں ہاں ہوتے ہیں اس کی زندگی میں یہ آج جو ہوا تھا کسی معجزے سے کم تو نہ تھا ۔
اس کی شادی اس کی پھوپھو کے بیٹے کے ساتھ یہ کوئی عام سی بات تو نہ تھی ۔
اس کے قریب کھڑی تائی امی جو افسوس سے اپنے ہاتھ مل رہی تھی کبھی اپنی بیٹی کو دیکھتی تو کبھی اسے ۔کمینی کی قسمت دیکھو لکھوا کے آئی ہے بیٹھے بیٹھائے اتنا خوبصورت دولہا مل گیا ۔
اوپر سے پولیس والا اور میں نے تو سنا ہے کہ پھوپھو کا گھر بھی اسی کے نام لکھا ہوا ہے تامیہ نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا ۔
اس کی تو بیٹھے بٹھاۓ لوٹری لگ گئی تائی امی کو افسوس ہو رہا تھا ۔
قسمت ہو تو ایسی ہو ور نہ نہ ہو ۔
ابھی اس کے دل کو منزل ملے وقت ہی کتنا ہوا تھا ۔ابھی تین دن تو پہلے اس نے اس لڑکی کو دیکھا تھا ۔
جسے دیکھتے ہی اس کا دل اپنی رفتار سے دھڑکنا بھول کر ایک الگ ہی رفتار میں دھڑکنے لگا ۔
وہ جو کبھی کسی لڑکی کے ساتھ فلرڈ کرنے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں تھا کہ کل جس کے لیے وہ اپنی تمام تر وفائیں رکھتا ہے اپنی بیوی کو کیا منہ دکھائے گا وہ آج کسی اور کے ساتھ نکاح کر چکا تھا ۔
اس نے ابھی تک نظر اٹھا کر سامنے نہ دیکھا تھا گھونگھٹ میں موجود وہ لڑکی اسے اس کی محبت کی دشمن لگ رہی تھی ۔
بے شک اس سب میں اس معصوم لڑکی کی کوئی غلطی نہ ہوگی اس کے ساتھ بھی تو ظلم ہو رہا تھا
۔لیکن وہ بھی تو بے قصور تھا وہ تو کسی اور کو چاہتا تھا اور کوئی اس کی زندگی میں شامل ہو رہا تھا ۔وہ تو اسی لڑکی کو چاہتا تھا جسےسوچتے ہوئے اس کے چہرے پر مسکان آجاتی تھی وہ کیسے اسے بھلا کر اپنی زندگی کے بارے میں آگے سوچتا ۔
اس نے ہمیشہ سے اپنی زندگی میں آنے والے اپنے ہمسفر کولے کے بہت سارے خواب سجائے تھے ۔وہ ہمیشہ اپنی بیوی سے وفادار رہنا چاہتا تھا ۔
وہ ہمیشہ سے اپنی من پسند لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا ۔
وہ اپنی بیوی کو یہ احساس دلانا چاہتا تھا کہ اس کی تمام تر وفائیں صرف اسی کے لئے ہے
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس لڑکی کے ساتھ بے وفائی کر چکا تھا جسے پہلی نظر میں ہی اپنا دل دے بیٹھا ۔
لیکن اس نے سوچ لیا تھا وہ اس لڑکی کو کبھی وہ مقام نہیں دے گا جو اس نے کسی اور کو دے دیا ہے ۔
وہ گھر جاتے ہی طلاق کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا
سارے مرحلے طے ہوگئے عون تو نکاح کے بعد فورا ہی باہر نکل گیا ۔اور گاڑی میں اپنی ماں کا انتظار کرنے لگا اسے یقین تھا اس کی ماں اسے جانتی ہے وہ اس لڑکی کو اپنے ساتھ لانے کی غلطی نہیں کرے گی ۔
لیکن یہ نکاح تو ہوا ہی اسی وجہ سے تھا تاکہ اس لڑکی کو یہاں سے نکالا جاسکے مطلب کہ یہ لڑکی ان کے ساتھ ان کے گھر جائے گی ۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ تایا ابو کی سینے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
نہ میری بچی۔۔۔۔۔۔ اب مت۔۔۔۔۔رو اللہ نے کرم۔۔۔۔۔ کر دیا ہے سب کچھ۔۔۔۔۔ ٹھیک ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔اللہ تجھے۔۔۔۔۔ تیرے نصیب کی ہر۔۔۔۔۔۔ خوشی دے ۔
مجھے یقین۔۔۔۔ ہے کہ عون تیرا ۔۔۔۔۔خیال رکھے گا تجھے خوش۔۔۔۔۔ رکھے گا تجھے۔۔۔۔ کبھی تنہا نہیں ۔۔۔۔۔چھوڑے گا بس اس کے ۔۔۔۔۔۔۔ساتھ وفادار۔۔۔۔۔ رہنا مجھے تیری طرف سے کوئی۔۔۔۔۔ شکایت نا ملے تایاابو نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔
جبکہ نکاح سے پہلے ہی تا میہ اپنے کمرے میں جا بند ہوئی تھی ۔جبکہ تائی امی کچن کے برتن ایسے دھو رہی تھی جیسے اس سے ضروری اور آج کوئی کام ہی نہ ہو ۔
وہ ساری زندگی اس گھر میں کام کرتی آئی تھی لیکن ان لوگوں کے پاس کتنا وقت نہیں تھا کہ جانے سے پہلے اسے ایک بار گلے لگا کر الودع ہی کہہ دیتے ۔
پھوپھو نے اس کا ہاتھ تھاما اور باہر لے جانے لگی ۔
بیٹا گھونگھٹ کرلو میں نہیں چاہتی میری خوبصورت سی بہو کو کسی کی نظر نہ لگے پھوپھونے اس کا چہرہ گھونگھٹ میں چھپاتے ہوئے شرارت سے کہا ۔
جبکہ یہ سوچ کر اس کے کان سرخ ہو رہے تھے کہ وہ اپنی پھوپھو کی بھتیجی نہیں بلکہ بہو بن کے ان کے گھر جا رہی ہے ۔
سارے راستے ہی اس کا دل بے ترتیب دھڑکتا رہا ۔
وہ دونوں پیچھے بیٹھی تھی جبکہ عون آگے گاڑی چلاتا ان دونوں سے بے نیاز تھا ۔
پھوپھو آرزو کے ساتھ ساتھ عون کے دل کی حالت بھی سمجھتی تھی ۔
ابھی تین دن پہلے ہی تو انیسہ نے اسے بتایا تھا کہ وہ اپنے لیے کسی لڑکی کو پسند کر چکا ہے اور بہت جلد انہیں اس کے گھر میں رشتہ لینے کے لیے بھیجنے والا ہے ۔
لیکن انہیں یقین تھا وہ لڑکی جو بھی کوئی ہوگی آرزو سے زیادہ اچھی تو نہ ہوگی اور آرزو کو اپنی ذمہ داری پر یہاں لائی تھی
اس کے نکاح میں اور اب انہوں نے سوچ لیا تھا کہ وہ عون کو آرزو کے لیے ضرور منائیں گی ۔انہوں نے گھر پہلے ہی خبر کردی تھی کہ وہ آج عون کی دلہن لا رہی ہیں ۔
انیسہ نے تو ساری تیاری کرلی تھی وہ جانتی تھی کہ آرزو شروع سے یہ احساس کمتری کا شکار ہے ۔
وہ تو اپنے گھر میں آئے ہر انسان کو محبت سے ملتی تھی تو آرزو تو ان کے سب سے لاڈلے بھتیجے کی دلہن تھی یہ بات الگ تھی کہ عون کی اس میں رضامندی شامل نہ تھی ۔
لیکن عون کے ساتھ کوئی زبردستی بھی نہیں کرسکتا تو کچھ نہ کچھ تو عون کی مرضی بھی شامل تھی اس نکاح میں جہاں تک انیسہ کا خیال تھا ۔
اس لئے انیسہ نے ہر ممکن کوشش سے آرزو کا استقبال خوبصورت بنایا ۔
جبکہ ان دونوں کو گھر کے دروازے پر چھوڑ کر اور نکل چکا تھا
کیا تیرا نکاح کب ہوا اور تو نے مجھے کیوں نہیں بتایا گیا اتنی جلدی کیا تھی نکاح کی ابھی دو تین ڈیٹ مارتے ایک دوسرے سے ملتے ایک دوسرے کو سمجھتے اور تم نے ڈائریکٹر نکاح ہی کرلیا ۔اور میرے چھوارے عمر صدمے سے بولا
بکواس بند کر میری شادی اس لڑکی سے نہیں ہوئی ہے بلکہ سمیر کی امی کی بھتیجی سے ہوئی ہے
وہ عمر کے سامنے زبیدہ کو ہمیشہ سمیر کی امی کہہ کر بلاتا تھا ۔
اورتونے نکاح کرلیا ارے انہیں بتاتا تو سہی تو کسی اور کو پسند کرتا ہے ۔
عمر کو افسوس ہوا تھا پہلی بار تو اس کے دوست نے کسی کو چاہا تھا ۔
بتایا تھا لیکن وہ لڑکی مصیبت میں تھی اگر مدد نہ کرتے تو اس کی شادی کسی جواری اور شرابی انسان سے ہوجاتی ۔
اور سچ میں اگر ایسا ہوتا تو یار بہت برا ہوتا مجھے تو یہ جان کر افسوس ہوا ہے کہ وہ لڑکی ابھی بلغ بھی نہیں ہے ۔
اور ویسے بھی میں نے ان لوگوں کو بتا دیا ہے کہ میں اسے طلاق دے کے اسی لڑکی سے شادی کروں گا جسے میں چاہتا ہوں ۔
اور مجھے بھی یہی امید ہے کہ وہ میری مرضی کے خلاف کبھی کچھ ایسا نہیں کریں گے ۔
اسی لئے مجھے اس بات کی کوئی خاص ٹینشن بھی نہیں ہے ۔عون نے کہا تو عمر بھی بے فکر ہو گیا
لیکن پھر بھی یاروہ تیری بیوی تو ہے ۔
میں نہیں مانتا اور اگر میں اسے بیوی والی اہمیت ہی نہیں دوں گا تو وہ بھی میرے پیچھے نہیں آئے گی۔
ایک ہفتے کے اندر اندر طلاق کا سارا انتظام کروا کے طلاق دوں گا پہلے اسے ۔عون نے اپنا پلان بتایا
خوبصورت ہے۔۔۔۔ عمر میں پوچھا ۔
ہوگئی میری بلا سے مجھے کیا لینا دینا مجھے جس سے لینا دینا ہے آرزو خوبصورت ہے یا نہیں ۔عون نے بے ساختہ اپنے دل پہ ہاتھ رکھا نہ جانے کیوں جب بھی وہ اس کا نام لیتا تھا اس کا دل زور سے دھڑکتا تھا ۔
آج پارٹی کرتے ہیں عون نے کہا ۔
آج تیری شادی ہوئی ہے اور تو پارٹی کے پیچھے پڑا ہے عمر نے کہا
یہ شادی نہیں صرف ایک کنٹریکٹ ہے اس لڑکی کو بچانے کے لئے ۔پر اب وہ بالکل ٹھیک ہے اس گھر میں اور ویسے بھی کون سا میں نے اسے اپنی بیوی تسلیم کرنا ہے جو میں اس کے پاس جاؤں گا
عون نے سمجھایا۔
ان کی پارٹی رات دو بجے تک چلتی رہیں دو بجے کے بعد عون اپنے گھر واپس گیا تھا ۔
وہ گھر واپس آیا تو اپنے بیڈ پر اسے بیٹھا دیکھ کر اسے کرنٹ لگا
ہمت کیسے ہوئی تمہاری میرے کمرے میرے بیڈ پر بیٹھنے کی وہ غصے سے دھاڑا
گھونگھٹ میں بیٹھی آرزو سہم کر رہ گئی ۔
می۔ ۔۔۔میں ۔۔۔۔۔نی۔ ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔۔۔۔وہ۔ ۔۔۔۔پھوپھو ۔۔۔۔آپ کی ماما ۔۔۔۔۔نے مجھے۔۔۔۔ میں ۔
یہ کیا میں میں لگا رکھی ہے تم نے دفع ہو جاؤ یہاں سے عون پھر سے دھاڑا۔
میں۔۔۔۔۔۔۔کک۔ ۔۔۔۔ کہاں ۔۔۔۔۔۔۔جاؤں۔۔۔۔۔آرزو منمنائی
میری بلا سے بھاڑ میں جاؤ وہ غصے سے بولا ۔
تم سیدھے طریقے سے نہیں مانو گی ۔۔
یہ کہتے ہوئے وہ آگے بڑھا اور اس کا چوڑیوں سے بھرا ہوا ہاتھ تھاما اور گھونگھٹ اٹھانے کی زحمت کئے بغیر اسے گھسیٹتا ہوا کمرے سے باہر لے جانے لگا
سن۔ ۔۔۔۔۔۔سنیں ۔۔۔مم۔ ۔۔۔۔میری بب۔ ۔۔۔بات سنیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اس۔۔۔۔۔۔۔۔۔وق۔ ۔۔۔ وقت کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔جج۔ ۔۔۔۔۔۔ جاؤں گی خدا کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔ می۔ ۔۔۔میں۔ ۔۔۔۔بیوی۔ ۔۔۔ہوں۔ آپ ک۔۔۔۔کی۔ ۔۔۔۔وہ ہمت کرکے بولی ۔
نہیں ہو تم میری بیوی نہیں مانتا میں تمہیں اپنی بیوی ۔میری بیوی بن کر میرے گھر میں میرے کمرے میں میرے بیڈ پے صرف اور صرف میری من چاہی لڑکی آئے گی جس سے میں محبت کرتا ہوں ۔تم جیسی دو ٹکے کی لڑکی نہیں آرزوکے اندر کچھ ٹوٹا تھا ۔
ہاں وہ اس سے محبت نہیں کرتی تھی لیکن وہ اس کا شوہر تھا اس کی زندگی میں آنے والا پہلا شخص جو کسی اور سے محبت کرتا تھا ۔
میری نظروں میں تمہاری کوئی اوقات نہیں ہے تم اس گھرمیں صرف میری ماں کی بہو بن کر آئی ہو میری بیوی نہیں
اوراس عورت کو میں اپنی ماں کا درجہ نہیں دیتا تو اس کی بہو کو اپنی بیوی کیسے قبول کرونگا ۔
ایک ہی جھٹکے سے اسے کمرے سے باہر کرکے دروازہ اس کے منہ پر بند کر دیا ۔
آرزو سسکتے ہوئے وہی دروازے کے ساتھ بیٹھ گئی تھی یہ تھی اس کی نئی زندگی کی نئی شروعات اس کے شوہر نے ایک بار گھونگھٹ اٹھا کر اس کا دیدار تک نہ کیا ۔
وہ دروازے کے ساتھ بیٹھی رو رہی تھی جو اس کا شوہر اس کے منہ پر بند گیا تھا
●●●
صبح اذان کے وقت جب زبیدہ نمازاداکرنے باہر آئی تو اسے عون کے کمرے کے باہر بیٹھا دیکھ کر پریشان ہوگئی وہ بھاگ کر اس کے قریب آئیں ۔
آرزو میری جان تم یہاں کیا کر رہی ہو وہ اس کے قریب بیٹھ کر بولنے لگی
جب آرزو ان کے سینے سے لگ کر رونے لگی ۔
آرزو بچہ میں نے تمہیں بتایا تو تھا وہ غصے کا تیز ہے اور تم کمرے سے نکل کرکیوں بیٹھ گئی وہ اسے پہلے ہی بتا چکی تھی کے عون غصے کا بہت تیز ہے اسے پیار سے ٹریٹ کرنا ہوگا اچانک شادی کی وجہ سے وہ شاید شادی کو بھی قبول نہیں کرپایا ہو
پھوپھو میں نی۔ ۔۔۔۔نہیں انہوں۔ ۔۔۔ نے نکال دیا ۔۔۔وہ روتے ہوئے بولتی ایک بار پھر سے ان کے سینے سے لگی ۔
نا میرا بچہ تم رو مت میں ہوں نہ میں بات کرتی ہوں اس سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا تم پریشان مت ہو ۔
ساری رات یہی بیٹھی رہی ہواٹھو میں تمہیں زریش کے کمرے میں چھوڑ کے آتی ہوں ۔
پھوپھو نے تائی امی کی بیٹی کا نام لیتے ہوئے اسے اٹھایا ۔
وہ کمرے میں لے آئی زریش سو رہی تھی ۔
بیٹا تم یہاں پے آرام کرو ۔
انہوں نے زریش کے ساتھ اس کے لئے جگہ بناتے ہوئے کہا ۔
یہ مہرش اور زریش کا بیڈ روم تھا تائی امی کی دونوں بیٹیوں کا ۔زریش اکثر اس کے گھر آتی تھی ۔اور کل شام جب آرزو اس گھر میں آئی تو اس نے بہت اچھے طریقے سے اسکا ویلکم کیا تھا ۔جبکہ مہرش ہوسٹل میں رہتی تھی
تم یہاں آرام کرو میں زریش کو بتا دوں گی ۔
اسے کہتے ہوئے وہ الماری کی طرف آئی اور وہاں سے ایک ڈریس نکالا ۔
بیٹا تم یہ والا ڈریس پہن لو انہوں نے آرام دے سوٹ اس کی طرح بھریا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔