عون کو احساس ہو رہا تھا کہ فیملی کیا ہے اس فیملی کے اہمیت کیا ہے
شام کی چائے پر وہ سب کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنا تایا ابو اور ابو کے بچپن کے قصے سنتا تائی امی اور امی کے باتیں حارث اور سمیر کی شرارتیں بڑے بھائیوں کی ڈانٹ بہنوں کی فرمائشیں
وہ کتنے سالوں سے یہ سب کچھ مس کر رہا تھا اب وہ اکثر شام کو گھر جلدی آنے لگا کسی نے سے کہا نہیں تھا
لیکن پھر بھی وہ اپنا وقت ان لوگوں کے ساتھ گزارنے لگا تھا عمر کو جب سے پتہ چلا تھا کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ خوش ہے وہ شام کے بعد اکثر اس کی ڈیوٹی بھی سنبھال لیتا حارث اور سمیر اس کے ساتھ بھی شرارتیں کرنے لگے
کہنے کو وہ اس کے بڑے بھائی تھے لیکن امی اور بابا ہمیشہ ان دونوں کو ڈانٹتے رہتے
کتنے پیارے تھے اس کے سب گھر والے اور وہ ان سے دور تھا آج وہ یہ سب کچھ کھونے کی وجہ سے پچھتا رہا تھا ان خود ساختہ فاصلوں کی وجہ سے اس نے بہت کچھ کھو دیا تھا لیکن اب اور نہیں ۔
عون جا بجلی کا بل بھر کے آبھیانے سے مخاطب کیا
میں تو کبھی بھی بجلی کا بل بھرنے نہیں گیا
وہاں کون کرتا تھا عون سمجھ چکا تھا کہ ان کا اشارہ دوسرے گھر کی طرف تھا
وہاں تو نوکر تھا عون نے فوراً جواب دیا
ہمارے باپ نے یہاں کوئی نوکری نہیں رکھا چل بیٹا فاٹافاٹ سے جاکر بل بھر کے آ
مگر بھیا مجھے تو نہیں آتا عون نے پریشانی سے کہا
بیٹا دو مہینے بھرے کا تو تیسرے مہینے خود ہی آ جائے گا بھیا نے مسکراتے ہوئے ایک ذمہ داری دی تھی
عون نے ایک نظر بل کی طرف دیکھا اور پھر دروازے کے پیچھے نیلا دوپٹہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ کھل کے اس کی بیوی سے بات کرے یا نہ کرے لیکن چھپ چھپ کر دیدار ضرور کرتی تھی وہ مسکراتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گیا
وہ پورے دو گھنٹے خوار ہونے کے بعد بجلی کا بل جمع کروا کے آیا تھا
آو عون ہم مہرش کی شادی کی بات کر رہے ہیں آنیسہ نے اسے آتے دیکھ کر کہا
وہ لوگ کافی وقت سے مہرش کی بات چلا رہے تھے
پھر کچھ دن پہلے رشتہ لے کر باقاعدہ آئے مجھے یہ رشتہ بہت اچھا لگا اپنے لوگ ہیں بیٹی خوش رہے گی مجھے تو حسن بہت اچھا لگتا ہے تایا نے اسے مخاطب کیا ۔
مجھے لگتا ہے ہمہیں ہاں کر دینی چاہیے لیکن پھر بھی تم ایک بار چھان بین کر لو آخر بڑے بھائی ہو تم لوگ اور اگر تم لوگوں کو مناسب لگے تو ہم ہاں کر دیں گے
تایا ابو سب کو مخاطب کرتے ہوئے بولے ۔
ہاں حسن ہے تو بہت اچھا لیکن ایک بار ٹھیک سے چھان بین کر کے ہی ہاں کریں گے سمیر نے کہا ۔
عون بیٹا یہ تمہاری ذمہ داری ہے ۔
تایا ابو نے امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو وہ انہیں دیکھ کر مسکرایا
آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں ہوں نا ۔عون ان کی امید پر پورا اترتے ہوئے بولا
مہرش کی شادی کی ساری ڈیکوریشن میں اور حارث کریں گے سمیر نے کہا
کوئی ضرورت نہیں ہے تم دونوں کو کچھ بھی کرنے کی زریش کی شادی پر کتنا کبارا کیا تھا تم نے اس کو ڈیکوریشن کون بولتاہے اولڈ فیشن کچھ تو یونیک کرو ۔
عون ہماری توہین کر رہے ہو سمیر کو صدمہ ہوا تھا
واٹ ایور عون نے اسےاگنور کرتے ہوئے پھر سے اپنی بات شروع کی
یہ سب کچھ میں اور عمر سنبھالیں گے تم اپنی ڈیکوریشن اپنے پاس رکھو مہرش کی شادی کی ساری تیاری میں کرونگا اس نے دروازے سے آتی مہرش کو دیکھ کر کہا تو وہ شرما کے واپس اندر چلی گئی
وہ گھر آیا تو آرزو سب کے ساتھ بیٹھی تھی وہ بھی ساتھ آکر بیٹھ گیا
آرزو نے اس سے کوئی بات نہ کی بلکہ وہ تو ہانیہ کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گئی بابا اس سے باتیں کرنے لگے
جبکہ اس کا سارا دھیان آرزو پہ تھا
ان کا الگ الگ کمرے میں سونا گھر میں کسی سے بھی چھپا ہوا نہ تھا گھر میں سب کو پتہ تھا آرزو اورعون میں اب تک سب کچھ ٹھیک نہیں ہوا
ایک مہینہ گزر چکا تھا اب سب کچھ ٹھیک ہونے لگا تھا سوائے آرزو اور عون کے امی نے آج ان دونوں سے بات کرنے کے بارے میں سوچا تو بابا نے منع کردیا ۔
ان کا کہنا تھا کہ تمہیں بیچ میں پڑنے کی ضرورت نہیں وہ ان دونوں کا مسئلہ ہے خود ہی ہینڈل کر لیں گے
و رات ساڑھے بارہ بجے کے قریب گھر واپس آیا ۔
ڈیوٹی کی وجہ سے آج وہ بہت لیٹ ہو گیا تھا
اس کا ارادہ چپ چاپ کمرے میں جاکر سونے کا تھا ۔
وہ دبے پاؤں اپنے کمرے کی طرف جارہا تھا جب اچانک لائٹس اون ہوئی۔
Happy birthday to you
Happy birthday to you
سب اونچی آواز میں گاتے ہوئے ایک کمرے سے باہر نکلے
Happy birthday dear "Aun"
Happy birthday to you
سب کے ساتھ آرزوہاتھ میں کیک تھامیں اس کے قریب آئی۔
عون کو یاد تک نہیں تھا کہ آج اس کا برتھ ڈے ہے لیکن اس کی فیملی کو یاد تھا ۔
شاید ہی اس سے پہلے عون نے اپنی فیملی کے ساتھ اس طرح کی کوئی خوشی منائی تھی ۔
سب سے پہلے زبیدہ نے اس کا چہرہ چوم کر اسے مبارکباد دیں مہربانی اسے گلے لگایا ۔
آرزو نے فی الحال صرف اسے ہیپی برتھڈے کہا تھا ۔
جبکہ اس کی امید کے برعکس عمر بھی یہی تھا ۔
جلدی کاٹ کیک میرے پیٹ میں چوہے کود رہے ہیں اس کے کیک کے چکر میں میں نے ڈنر بھی نہیں کیا ۔
سمیر نے چُھڑی اس کے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے زبردستی کیک کٹوانا چاہا ۔
جبکہ عون مکمل نخرے دکھانے کے موڈ میں تھا ۔
پھر آخر کار اس نے سمیر کی دہائی سنتے ہوئے کیک کاٹا ۔
اور سب کو کیک کھلانے کے بعد ایک چھوٹا سا پِس اس کے منہ میں ڈالا ۔
ابے کیک کھلانے کی بھی رشوت لے کا کیا وہ زبردستی اس کے ہاتھ سے کھاتے ہوئے بولا۔
جبکہ ان کے حرکتوں پر سب گھر والوں کے قہقہے بلند ہو رہے تھے ۔
چلو بچہ پارٹی اب سب لوگ ہو جاؤ صبح ہم عون کے برتھ ڈے پارٹی کریں گے ۔بابا نے سب کو اپنے کمرے کی طرف بھیجا ۔
تو عون دوسرے کمرے کی طرف جانے لگا ۔
عون جی ہمارا کمرہ اس طرف ہے ۔آرزو نےاسے پیچھے سے آواز دے کر پکارا ۔
جبکہ بابا امی کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے مسکرائے ۔
وہ بنا کچھ بولے اس کی پیچھے آہستہ آہستہ چل دیا ۔
عون بنا کچھ بولے بیڈ پر لیٹ گیا اسے لگ رہا تھا کہ آرزو اب بھی اس سے ناراض ہے ۔
آپ مجھ سے ناراض ہیں ۔۔۔؟آرزو نے اس کے قریب بیٹھ کر پوچھنے لگی
میں ۔۔۔میں نہیں تو۔۔۔ میں تم سے کیوں ناراض ہوں گا ۔۔۔؟
ناراض تو تم ہو مجھ سے اتنے دنوں سے کتنی کوشش کر چکا ہوں پر تو مانتی ہی نہیں ۔
آرزو کے اس طرح سے اپنے قریب آنے پر وہ کر بیٹھ گیا
آپ کو کیا لگا عون جی میں آپ سے ناراض ہوں
میں آپ سے ناراض نہیں تھی میں بس اب کو بتانا چاہتی تھی کہ یہ لوگ آپ کے اپنے ہیں آپ سے محبت کرتے ہیں آپ سے دوری انہیں تکلیف پہنچا رہی ہے
میں آپ سے اس لیے بات نہیں کر رہی تھی تاکہ ان سب سے باتیں کر سکیں میں جانتی تھی
کہ آپ مجھے یہاں چھوڑ کر کبھی نہیں جائیں گے اس لیے میں نے آپ فیصلہ کیا کہ میں آپ سے ناراض ہو جاتی ہوں۔
میری ناراضگی کی وجہ سے آپ یہ گھر چھوڑ کر نہیں جائیں گے آپ اسی گھر میں رہیں گے
میں جانتی تھی کہ آپ پھوپھو کی مجبوری کو سمجھیں گے
یہ سب لوگ آپ سے بہت پیار کرتے ہیں عون جی
آپ نے دیکھا ناآرزو نے یقین سے کہا
تو اور مسکرا دیا
ہاں آرزو یہ سب لوگ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں لیکن اب میں یہ جاننا ہے کہ تم مجھے کتنا چاہتی ہو
تم نے مجھے نہیں بتا یا کہ تم مجھ سے کتنا پیار کرتی ہو
اب تم مجھے بتاؤ کہ تم مجھ سے کتنا پیار کرتی ہو وہ اس کا چہرہ اپنے قریب کرتے ہوئے بولا تو وہ نظریں جھکا گئی ۔
نہیں آرزو اب یہ نظریں جھکانے کا کوئی فائدہ نہیں آج تو تمہیں بتانا ہوگا کہ تم مجھ سے اتنی محبت کرتی ہو ۔
عون باضد ہوا تو وہ اس کے سینے میں سر چھپا گئی۔
میری خودساختہ بنائے گئے فاصلوں کی وجہ سے میں نے اپنا بچہ کو دیا اب میں تمہیں کبھی نہیں کھونا چاہتا ۔
میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا آج بھی تم نہ بلاتی تو میں مر جاتا
عون نے اسے مزید خود میں سمٹتے ہوئے شدت سے کہا تو آرزو نے اپنا ہاتھ اس کے لبوں پر رکھ دیا
آپ جب اس طرح سے باتیں کرتے ہیں تو میرا دل کرتا ہے کہ میں آپ کا کان پکڑ کے بابا کے پاس لے جاوں ۔
اور بہت ساری ڈانٹ پڑواؤں آرزو نے کہا تو وہ مسکرایا
صبح لے جانا اس وقت مجھے خود سے پیار کرنے دو
بہت تڑپا ہوں تمہارے بغیر وہ اس کے لبوں پر اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے بولا تو آرزو نے شرما کر اپنا آپ اس کو سونپ دیا آئی لو یو ۔
آرزو مجھ سے کبھی دور مت جانا تم میرے لیے بہت خاص ہو اس کا نازک وجود خود میں سمیٹتے ہوئے وہ اسے کسی اور دنیا میں لے جانے لگا اور آرزو اس کی شدت میں پگھلتی صرف اسی کی ہو کر رہ گئی
دو سال بعد
اپنے چہرے پر نرم لمس محسوس کرتے ہی عون کی آنکھیں کھل گئیں
اس نے بڑی محبت سے اپنی چھوٹی سی پری کو دیکھا جسے آرزو ابھی بیڈ پر چھوڑ کر گئی تھی ۔
عون کو جاگتے دیکھ کر وہ اپنی گول گول آنکھیں مٹکاتی کھلکھلا کر مسکرائی
عون نے قریب سے دودھ کی بوتل اٹھائی اور پھر اسے اٹھا کر اپنی گود میں رکھا ۔
کیونکہ اس کی گڑیا کے ناشتے کا وقت ہوچکا تھا عون کبھی اس کے چہرے کو چومتا تو کبھی ننھے ہاتھوں کو ۔عون کو خود بھی پتا نہ چلا کہ یہ چھوٹی سی جان کبھی اس کی جان بن گئی ۔
اگلے مہینے اس کا پہلا برتھ ڈے تھا جسے وہ بہت دھوم دھام سے سیلیبریٹ کرنے والا تھا ۔
کون فریش ہو کر اپنی بڑی کو اٹھا کر نیچے آیا تو سمیر کا بیٹا جس نے ابھی ابھی چلنا شروع کیا تھا ۔زبیدہ کا دوپٹہ تھا میں اس کے پیچھے چل رہا تھا ۔
اس نے اپنی بری کو سمیر کی گود میں رکھا اور اہل (سمیر کا بیٹا ) اٹھا کر اپنے قریب کیا ۔
جبکہ اس کی یہ حرکت اس کی ننھی پری کو پسند نہ آئی تھی جس پر وہ اپنے منہ کے ڈیزائن بناتی رونا شروع کر چکی تھی ۔
اور یار عون مہربانی کرو تم اپنی لاڈلی کو سنبھالو میں اپنے بیٹے کو سنبھالوں گا سمیر نے اسے روتے ہوئے دیکھ کر کہا ۔
کبھی کبھی تمہاری بیٹی کو دیکھ کر سوچتا ہوں یہ تمہاری بیوی کو تمہارے پاس نہیں آنے دیتی تو تمہاری دوسری اولاد کو کیا آنے دے گی عون کے اٹھاتے ہی وہ چپ ہو گئی تھی ۔
جب کہ اس کی بات سن کر آرزو سوچ میں پڑ چکی تھی
پری سوئی تو عون نے اسے اٹھا کر بے بی کاٹ میں رکھا
اگلے مہینے اس کا پہلا برتھڈے تھا جسے وہ بہت دھوم دھام سے منانا چاہتا تھا
عون جی آرزو کی پکار پر لیپ ٹاپ میں مصروف وہ اس کی طرف متوجہ ہوا
جی عون جی کی وہ اس کے قریب ہوا
پری آپ سے بہت پیار کرتی ہے اگر ہمارا کوئی اور بےبی ہوا تو مجھے اکیلے پالا پڑے گا آرزو نے معصومیت سے پوچھا
عون کھل کر مسکرایا
کیوں وہ ہم دونوں کا بچہ ہوگا ہم دونوں اسے پالیں گے وہ اسے مزید خود سے قریب کرتے ہوئے بولا
ویسے تمہیں اتنی فکر کیوں ہے کہیں ایسی کوئی بات تو نہیں عون نے شررات سے کہا ۔
جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں میں تو بس اس لیے پوچھ رہی تھی کہ آپ کی لاڈلی آپ کو میرے ساتھ شیئر نہیں کرتی تو ہمارے دوسرے بچے کے ساتھ کیا کرے گی ۔
اور آپ بھی تو اس سے اتنا پیار کرتے ہیں کی شاید ہی اتنا پیار ہمارے دوسرے بچے کو دے سکے ۔
تم اتنا مت سوچا کرو فکر مت کرو میں اپنے 20 بچوں کو ایک ساتھ ایک جیسا پیار دے سکتا ہوں اور اس کے بعد تمہارے لئے بھی مزید پیار کا ارینجمنٹ کر سکتا ہوں۔
عون شرارت سے کہتے ہوئے اس کے چہرے پر جھکا اور ایک ہاتھ سے لائٹ آف کر دی ۔
بیس بچے اندھیرے میں اسے آرزو کی سہمی ہوئی آواز سنائی دی جس کے بعد عون کا زندگی سے بھرپور کہ کا بے ساختہ تھا۔
ختم شد